(سوال نمبر 4385)
کلائی یا پیروں یا کمر وغیرہ میں دم کیا ہوا کالا دھاگہ ڈورا باندھنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ کلائی یا پیروں یا کمر وغیرہ میں دم کیا ہوا کالا دھاگہ باندھنا کیسا ہے؟ اور تعویذ پہننا کیسا ہے؟ بعض لوگ کہتے ہیں تعویذ پہن سکتے ہیں لیکن کالا دھاگہ جو دم کیا ہوا ہو یا ایسے ہی باندھ لیا ہو نہیں باندھ سکتے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں ۔
سائل :- گلفام حسین رضوی مالیگاؤں، مہاراشٹرا، الھند
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
١/دم کیا ہوا کالا یا کوئی بھی دھاگا ڈورا جسم کے کسی حسے پر باندھنا جائز ہے البتہ بلاوجہ مکروہ ہے ۔
٢/تعویذ پہنا جائز ہے
تعویذ گنڈے دم درود جھاڑ پھونک اگر قرآنی آیات یا حدیث کی دعاؤں یا بزرگوں کے اعمال سے ہوں تو جائز،ورنہ ممنوع۔
(المرأة ج١ ص ٩٥ مكتبة المدينة)
واضح رہے کہ بغیر دم کیا ہوادھاگا اگر کسی مقصد کےلیے مثلاً کسی چیز کو یاد رکھنے کے لیے پہنا تو یہ بھی جائز ہے اور اگر بغیر کسی غرض صحیح کے باندھا تو عبث ومکروہ ہے۔
پر دم کی ہوئی کوئی چیز یا ڈوری ہاتھ یا پاؤں میں باندھنا جائز ہے
معرفۃ الصحابہ میں ہے
عن ابن ثعلبة أنه أتى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال يا رسول الله، ادع الله لي بالشهادة فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ائتني بشعرات» قال: فأتاه، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «اكشف عن عضدك» قال: فربطه في عضده، ثم نفث فيه، فقال: «اللهم حرم دم ابن ثعلبة على المشركين المنافقين۔
حضرت ابن ثعلبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے تو انہوں نے عرض کی : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ عزوجل سے میرے لیے شہادت کی دعا کیجئے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نے فرمایا میرے پاس چند بال لاؤ۔ وہ بال لائے گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن ثعلبہ رضی اللہ عنہ کو فرمایا: اپنی کلائی کھولو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی کلائی پر یہ بال باندھ دیئے ۔ پھر اس میں پھونک ماری ۔ پھر فرمایا: اے اللہ عزوجل! ابن ثعلبہ کا خون مشرکین و منافقین پر حرام فرما دے۔
کلائی یا پیروں یا کمر وغیرہ میں دم کیا ہوا کالا دھاگہ ڈورا باندھنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ کلائی یا پیروں یا کمر وغیرہ میں دم کیا ہوا کالا دھاگہ باندھنا کیسا ہے؟ اور تعویذ پہننا کیسا ہے؟ بعض لوگ کہتے ہیں تعویذ پہن سکتے ہیں لیکن کالا دھاگہ جو دم کیا ہوا ہو یا ایسے ہی باندھ لیا ہو نہیں باندھ سکتے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں ۔
سائل :- گلفام حسین رضوی مالیگاؤں، مہاراشٹرا، الھند
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
١/دم کیا ہوا کالا یا کوئی بھی دھاگا ڈورا جسم کے کسی حسے پر باندھنا جائز ہے البتہ بلاوجہ مکروہ ہے ۔
٢/تعویذ پہنا جائز ہے
تعویذ گنڈے دم درود جھاڑ پھونک اگر قرآنی آیات یا حدیث کی دعاؤں یا بزرگوں کے اعمال سے ہوں تو جائز،ورنہ ممنوع۔
(المرأة ج١ ص ٩٥ مكتبة المدينة)
واضح رہے کہ بغیر دم کیا ہوادھاگا اگر کسی مقصد کےلیے مثلاً کسی چیز کو یاد رکھنے کے لیے پہنا تو یہ بھی جائز ہے اور اگر بغیر کسی غرض صحیح کے باندھا تو عبث ومکروہ ہے۔
پر دم کی ہوئی کوئی چیز یا ڈوری ہاتھ یا پاؤں میں باندھنا جائز ہے
معرفۃ الصحابہ میں ہے
عن ابن ثعلبة أنه أتى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال يا رسول الله، ادع الله لي بالشهادة فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ائتني بشعرات» قال: فأتاه، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «اكشف عن عضدك» قال: فربطه في عضده، ثم نفث فيه، فقال: «اللهم حرم دم ابن ثعلبة على المشركين المنافقين۔
حضرت ابن ثعلبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے تو انہوں نے عرض کی : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ عزوجل سے میرے لیے شہادت کی دعا کیجئے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نے فرمایا میرے پاس چند بال لاؤ۔ وہ بال لائے گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن ثعلبہ رضی اللہ عنہ کو فرمایا: اپنی کلائی کھولو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی کلائی پر یہ بال باندھ دیئے ۔ پھر اس میں پھونک ماری ۔ پھر فرمایا: اے اللہ عزوجل! ابن ثعلبہ کا خون مشرکین و منافقین پر حرام فرما دے۔
(معرفۃ الصحابۃ لابی نعیم ج 6، ص 3056 ریاض)
مجمع الانھر میں ہے (والرتم) وهو الخيط الذي يعقد على الأصبع لتذكر الشيء (لا بأس به) ؛ لأنه ليس بعبث لما فيه من الغرض الصحيح وهو التذكر عند النسيان أما شد الخيوط والسلاسل على بعض الأعضاء فإنه مكروه لكونه عبثا مq باندھا اس میں حرج نہیں کیونکہ یہ عبث نہیں کہ اس میں غرض صحیح ہے اور وہ یہ کہ بھول جانے پر یاد آجائے، بہر حال بعض اعضا میں دھاگے اور زنجیریں باندھنا تو وہ مکروہ ہے کہ وہ عبث محض ہے یا اس کا حاصل یہ ہے کہ ہر وہ فعل جو تکبر کے طور پر ہو تو وہ مکروہ و بدعت ہے اور جو کسی حاجت و ضرورت کی وجہ سے ہو وہ مکروہ نہیں اور یہ دونوں بیٹھنے میں تربع(چار زانوں بیٹھنے ) اور تکیہ لگانے کی مثل ہیں
مجمع الانھر میں ہے (والرتم) وهو الخيط الذي يعقد على الأصبع لتذكر الشيء (لا بأس به) ؛ لأنه ليس بعبث لما فيه من الغرض الصحيح وهو التذكر عند النسيان أما شد الخيوط والسلاسل على بعض الأعضاء فإنه مكروه لكونه عبثا مq باندھا اس میں حرج نہیں کیونکہ یہ عبث نہیں کہ اس میں غرض صحیح ہے اور وہ یہ کہ بھول جانے پر یاد آجائے، بہر حال بعض اعضا میں دھاگے اور زنجیریں باندھنا تو وہ مکروہ ہے کہ وہ عبث محض ہے یا اس کا حاصل یہ ہے کہ ہر وہ فعل جو تکبر کے طور پر ہو تو وہ مکروہ و بدعت ہے اور جو کسی حاجت و ضرورت کی وجہ سے ہو وہ مکروہ نہیں اور یہ دونوں بیٹھنے میں تربع(چار زانوں بیٹھنے ) اور تکیہ لگانے کی مثل ہیں
(مجمع الانھر ج2 ص 538بیروت)
بہار شریعت میں ہے یادداشت کے لیے یعنی اس غرض سے کہ بات یاد رہے بعض لوگ رومال یا کمر بند میں گرہ لگالیتے ہیں یا کسی جگہ انگلی وغیرہ پر ڈورا باندھ لیتے ہیں، یہ جائز ہے اور بلاوجہ ڈورا باندھ لینا مکروہ ہے۔
بہار شریعت میں ہے یادداشت کے لیے یعنی اس غرض سے کہ بات یاد رہے بعض لوگ رومال یا کمر بند میں گرہ لگالیتے ہیں یا کسی جگہ انگلی وغیرہ پر ڈورا باندھ لیتے ہیں، یہ جائز ہے اور بلاوجہ ڈورا باندھ لینا مکروہ ہے۔
(بہار شریعت ج3،ص419 مکتبۃ المدینہ)
والله ورسوله اعلم بالصواب
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال 11/09/2023