باریک دوپٹہ اوڑھ کر نماز پڑھنا کیسا ہے ؟
________(❤️)_________
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
باریک دوپٹہ اوڑھ کر نماز پڑھنا کیسا ہے؟ برائے کرم تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:- معراج احمددلدارنگر۔غازی پور۔
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
سائل:- معراج احمددلدارنگر۔غازی پور۔
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ
جس دوپٹہ یا چادر سے عورت کے جسم کا حصہ یا بال نظر آئیں اس سے نماز نہیں ہو گی جب عام حالات میں عورت کو باریک لباس اور باریک دوپٹہ اوڑھنے سے منع کیا گیا ہے تو پھر باریک دوپٹے سے نماز کیسے ادا ہو سکتی ہے؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ
جس دوپٹہ یا چادر سے عورت کے جسم کا حصہ یا بال نظر آئیں اس سے نماز نہیں ہو گی جب عام حالات میں عورت کو باریک لباس اور باریک دوپٹہ اوڑھنے سے منع کیا گیا ہے تو پھر باریک دوپٹے سے نماز کیسے ادا ہو سکتی ہے؟
جیسا کہ حدیث پاک سے ثابت ہے :
عَنْ عَائِشَةَ : أَنَّ أَسْمَاءَ بِنْتَ أَبِي بَکْرٍ دَخَلَتُ عَلَی رَسُوْلِ اﷲِ (النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم) وَعَلَيْهَا ثِيَابٌ رِقَاقٌ، فَأَعْرَضَ عَنْهَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَقَالَ : يَا أسْمَاءُ إِنَّ الْمَرْأةَ إِذَا بَلَغَتِ الْمَحِيْضَ لَمْ يَصْلُحْ لَهَا أَنْ يُرَی مِنْهَا إِلَّا هٰذَا وَهٰذَا، وَأَشَارَ إِلَي وَجْهِهِ وَکَفَّيْهِ.
(ابو داؤد، السنن، کتاب اللباس، باب فيما تبدي المرأة من زينتها، 4 : 29، رقم : 4104)
ترجمہ’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ حضرت اسماء بنت ابوبکر رضی اﷲ عنہما باریک کپڑے پہن کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے آئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی جانب سے رخ مبارک پھیر لیا اور فرمایا : اسماء! عورت جب بالغ ہو جائے تو اس کے بدن کا کوئی حصہ ہرگز دکھائی نہیں دینا چاہئے، سوائے اِس کے اور اِس کے، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چہرئہ اقدس اور ہتھیلیوں کی جانب اشارہ فرمایا۔‘‘
حضرت صدر الشریعہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ اتنا باریک دوپٹہ جس سے بال کی سیاہی چمکے عورت نے اوڑھ کر پڑھی نماز نہ ہوگی جب تک کہ اس پر کوئی ایسی چیز نہ اوڑھے جس سے بال وغیرہ کا رنگ چھپ جائے"۔
عَنْ عَائِشَةَ : أَنَّ أَسْمَاءَ بِنْتَ أَبِي بَکْرٍ دَخَلَتُ عَلَی رَسُوْلِ اﷲِ (النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم) وَعَلَيْهَا ثِيَابٌ رِقَاقٌ، فَأَعْرَضَ عَنْهَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَقَالَ : يَا أسْمَاءُ إِنَّ الْمَرْأةَ إِذَا بَلَغَتِ الْمَحِيْضَ لَمْ يَصْلُحْ لَهَا أَنْ يُرَی مِنْهَا إِلَّا هٰذَا وَهٰذَا، وَأَشَارَ إِلَي وَجْهِهِ وَکَفَّيْهِ.
(ابو داؤد، السنن، کتاب اللباس، باب فيما تبدي المرأة من زينتها، 4 : 29، رقم : 4104)
ترجمہ’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ حضرت اسماء بنت ابوبکر رضی اﷲ عنہما باریک کپڑے پہن کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے آئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی جانب سے رخ مبارک پھیر لیا اور فرمایا : اسماء! عورت جب بالغ ہو جائے تو اس کے بدن کا کوئی حصہ ہرگز دکھائی نہیں دینا چاہئے، سوائے اِس کے اور اِس کے، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چہرئہ اقدس اور ہتھیلیوں کی جانب اشارہ فرمایا۔‘‘
حضرت صدر الشریعہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ اتنا باریک دوپٹہ جس سے بال کی سیاہی چمکے عورت نے اوڑھ کر پڑھی نماز نہ ہوگی جب تک کہ اس پر کوئی ایسی چیز نہ اوڑھے جس سے بال وغیرہ کا رنگ چھپ جائے"۔
(بہار شریعت، حصہ سوم، صفحہ : 43)
اور فتاوی عالمگیری مع خانیہ جلد اول صفحہ 60 پر ہے:
" الثوب الرقيق الذى يصف ما تحتحه لا تجوز الصلاة فيه كذا فى التبيين"۔
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم ﷺ
________(❤️)_________
کتبہ:- محمد صدام حسین قادری امجدی رضوی
خادم مسلک اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز۔
مورخہ 18/صفرالمظفر 1445ھ مطابق 5/ستمبر 23 0 2
الجواب:- صحیح والمجیب نجیح
مفتی حیدر علی وحیدی قاضی شہر غازی پور۔
منجانب۔دارالشریعہ شہر غازی پور۔یوپی۔الھند۔
کتبہ:- محمد صدام حسین قادری امجدی رضوی
خادم مسلک اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز۔
مورخہ 18/صفرالمظفر 1445ھ مطابق 5/ستمبر 23 0 2
الجواب:- صحیح والمجیب نجیح
مفتی حیدر علی وحیدی قاضی شہر غازی پور۔
منجانب۔دارالشریعہ شہر غازی پور۔یوپی۔الھند۔