•┈┈┈┈•••✦﷽✦•••┈┈┈┈•
(سوال نمبر4247)
عصائے رسول کس نے توڑا؟
عصائے رسول کس نے توڑا؟
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
بعض کتابوں میں امیر المؤمنین حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آخری ایام کا ایک واقعہ ذکر کیا گیا ہے کہ امیر المؤمنین حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا مبارک عصا ہاتھ میں لیے جمعہ کا خطبہ ارشاد فرمارہے تھے کہ ایک شخص کھڑا ہوا اس نے نہ صرف حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے ناروا سلوک کیا بلکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا عصا مبارک چھین کر اپنے گھٹنے پر مار کر توڑ دیا(العیاذ باللہ) عصا مبارک کی بے ادبی کی وجہ سے اس کے گھٹنے پر ایک پھوڑا نکل گیا جس کی وجہ سے وہ مر گیا۔ یاد رہے یہ وہی عصا مبارک تھا جسے سیدنا صدیق اکبر اور عمر فاروق رضی اللہ عنہما بھی خطبے کے دوران ہاتھ میں لیا کرتے تھے۔اور اس واقعہ کو علامہ عبد المصطفیٰ اعظمی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب کرامات صحابہ میں بھی ذکر کیا ہے برائے کرم تفصیلی جواب عنایت فرمائیں
سائل:- عمران خان جلالی پاکستان
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
یہ واقعہ تو بعص کتب سیر میں ہے پر اس واقعہ کو کسی صحابی کی طرف نسبت کرنا بدون سند وثوق رواں نہیں۔
اور صحابی رسول
جہجاہ بن سعید غفاری رضی اللہ عنہ کی جانب اس معاملے کو یقینی اور قطعی طور پر منسوب نہیں کرنا چاہیے اسی میں خیر ہے کیونکہ کہ آقا علیہ السلام کی عصا کی توہین صحابہ سے قیاس نہیں کیا جا سکتا ۔
بعض کتابوں میں امیر المؤمنین حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آخری ایام کا ایک واقعہ ذکر کیا گیا ہے کہ امیر المؤمنین حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا مبارک عصا ہاتھ میں لیے جمعہ کا خطبہ ارشاد فرمارہے تھے کہ ایک شخص کھڑا ہوا اس نے نہ صرف حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے ناروا سلوک کیا بلکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا عصا مبارک چھین کر اپنے گھٹنے پر مار کر توڑ دیا(العیاذ باللہ) عصا مبارک کی بے ادبی کی وجہ سے اس کے گھٹنے پر ایک پھوڑا نکل گیا جس کی وجہ سے وہ مر گیا۔ یاد رہے یہ وہی عصا مبارک تھا جسے سیدنا صدیق اکبر اور عمر فاروق رضی اللہ عنہما بھی خطبے کے دوران ہاتھ میں لیا کرتے تھے (الکامل فی التاريخ. 58/3 ملخصا)
تاریخ کی بعض کتابوں میں حضرت سیدنا جہجاہ بن سعید غفاری رضی اللہ عنہ کے تذکرے کے تحت مذکورہ بالا واقعہ بھی ذکر ہو گیا ہے جس سے اس بات کا گمان ہوتا ہے کہ عصاۓ رسول توڑنے کا معاملہ بھی آپ رضی اللہ عنہ سے ہوا تھا، حالانکہ یہ یقینی طور پر نہیں کہا جاسکتا۔ یاد رہے محض گمان ، خیال اور اندازے کی بنیاد پر کوئی بھی خلاف شرع بات کسی بھی مومن مسلمان کی طرف منسوب کرنا درست نہیں چہ جاۓ کہ کوئی خلاف شرع کام کسی صحابی رسول کے ذمے لگادیا جائے۔
اللہ پاک کے فضل و کرم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نظر عنایت کے صدقے بیعت رضوان میں شریک صحابی رسول حضرت سید نا جہجاہ بن سعید غفاری رضی اللہ عنہ کی سیرت پر کام کے دوران در جنوں کتب سیرت و تاریخ کے مطالعے سے یہ بات روشن و عیاں ہوئی کہ عصامبارک توڑنے کی نسبت صحابی رسول حضرت سیدنا جہجاہ بن سعید غفاری رضی اللہ عنہ کی طرف کرنا درست نہیں کیونکہ یہ ناموس صحابیت کے ساتھ ساتھ تحقیق کے بھی خلاف ہے جیسا کہ ذیل میں اس کی تفصیلی وضاحت موجود ہے:
پہلے وہ حوالہ جات ملاحظہ فرمایئے جن سے پتہ چلتا ہے کہ عصاۓ رسول توڑنے والے حضرت سید نا جہجاہ بن سعید غفاری رضی اللہ عنہ نہیں ہیں چنانچہ
(1) حضرت علامہ مطہر بن طاہر مقدسی رحمۃ اللہ علیہ (وفات:355ھ) لکھتے ہیں
ثم قام الجهجاه بن سنام الغفاري فأخذ القضيب من يده وكسرها الخ
یعنی پھر جہجاہ بن سنام غفاری اٹھا اس نے عصا چھین کر توڑ دیا۔
(البدء والتاریخ، 5 / 205)
مقدور بھر کوشش کے باوجود جہجاہ بن سنام غفاری کا صحابی ہونا معلوم نہ ہو سکا۔
(2) حضرت علامہ اسماعیل بن محمد اصبہانی رحمۃ اللہ علیہ (وفات:535ھ) لکھتے ہیں:
روي عن ابن عمر رضي الله عنهما أن رجلًا يقال له جهجاه أو ابن جهجاه أخذ عصى كانت في يد عثمان فكسرها على ركبته فأصيب في ذلك الموضع الأكلة.
حضرت سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا گیا ہے کہ ایک آدمی جسے جہجاہ یا ابن جہجاہ کہا جاتا تھا نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے عصا لے کر توڑ دیا۔ الخ
(سیر السلف الصالحین ، ص184دار الراية للنشر والتوزيع، الرياض )
حضرت امام اصبہانی کی عبارت بتاتی ہے کہ اس شخص کو جہجاہ یا ابن جہجاہ کہا جاتا تھا۔ غور کیا جاۓ تو واضح ہے کہ صرف جہجاہ کہنے سے صحابی رسول حضرت جہجاہ بن سعید غفاری رضی اللہ عنہ کی ذات ہی مراد لینا بغیر کسی دلیل کے ہے کیونکہ اس بات کا احتمال ہے کہ جہجاہ نامی یہ شخص کوئی اور ہے نیز ابن جہجاہ کے الفاظ بھی صحابی رسول مراد لینے سے منع کر رہے ہیں نیز مشہور قاعدہ ہے کہ
اذا جاء الاحتمال فبطل الاستدلال
کہ جب احتمال آجائے تو استدلال باطل ہو جاتا ہے۔
لہذا قاعدے کے مطابق صحابی رسول کی جانب نسبت میں شک آ گیا اس لیے یقین سے ہر گز نہیں کہا جاسکتا کہ عصا توڑنے والا کام صحابی رسول حضرت سیدنا جہجاہ بن سعید غفاری رضی اللہ عنہ نے کیا ہے۔
(3) حضرت علامہ عبد الملک بن حسین شافعی مکی رحمۃ اللہ علیہ(وفات: 1111ھ) اس واقعے کو یوں بیان فرماتے ہیں:
ولما أخذت من يد عثمان العصاوهو قائم يخطب وكان الأخذلها جهجاه بن عمرو الغفاري وكسرها بركبته وقعت الآكلة في ركبته والعياذ بالله تعالی
یعنی جہجاہ بن عمر و غفاری نے عصالے کر توڑ دیا الخ (سمط النجوم العوالي، 525/2)
کوشش کے باوجود جہجاہ بن سنام اور جہجاہ بن عمرو کے بارے میں کسی بھی محدث کا یہ قول نہیں ملا کہ کسی صحابی رسول کا نام جہجاہ بن عمر و یا جہجاہ بن سنام ہو۔ اس لیے صحابی رسول حضرت سید نا جہجاہ بن سعید غفاری رضی اللہ عنہ کی طرف یقین کے ساتھ اس معاملے کی نسبت نہیں کی جاسکتی۔
(4) حضرت امام محمد بن احمد مغربی افریقی (وفات: 333ھ ) اس واقعے کو یوں ذکر فرماتے ہیں:
قال وحدثني عمر بن يوسف قال حدثني إبراهيم بن مرزوق قال حدثني عارم عن حماد بن زيد عن يزيد بن حازم عن سليمان بن يسار أن رجلا يقال له جهجاه من غفار دخل على عثمان ومعه عصا رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخذها الغفاري فكسرها علي ركبتيه فوقعت الأكلة في ركبتيه
یعنی حضرت سلیمان بن یسار فرماتے ہیں کہ قبیلہ غفار کا ایک آدمی جسے جہجاہ کہا جا تا تھا حضرت عثمان غنی کے پاس اس وقت آیا جب آپ کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا عصا مبارک تھا تو اس غفاری نے حضرت عثمان غنی سے عصا چھین کر اپنے گھٹنے پر مار کر توڑ دیا جس سے اس کے گھٹنے پر پھوڑا ہو گیا۔( کتاب المحن ، ص86) أن رجلا يقال له جهجاه من غفار
ذکر کردہ عبارت کا اسلوب اور رجلا کے الفاظ بتارہے ہیں کہ یہ جہجاہ کوئی غیر معروف شخص تھا نیز اس عبارت سے کسی طرح بھی ثابت نہیں ہوتا کہ اس سے صحابی رسول حضرت جہجاہ بن سعید غفاری مراد ہیں۔ یہی حال حضرت امام ابو بکر ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ کی نقل کردہ روایت کا ہے جیسا کہ ذکر فرماتے ہیں:
حدثنا ابن إدريس ، عن عبيد الله بن عمر، عن نافع أن رجلا يقال له جهجاه تناول عصى كانت في يد عثمان فكسرها بركبته، فرمى من ذلك الموضع باكلة.
(مصنف ابن ابی شیبہ ،79/17، حدیث: 32698) یہی سند اور أن رجلاً يقال له جھجاہ کے الفاظ امام آجری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی نقل فرماۓ ہیں۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
بعض کتابوں میں امیر المؤمنین حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آخری ایام کا ایک واقعہ ذکر کیا گیا ہے کہ امیر المؤمنین حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا مبارک عصا ہاتھ میں لیے جمعہ کا خطبہ ارشاد فرمارہے تھے کہ ایک شخص کھڑا ہوا اس نے نہ صرف حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے ناروا سلوک کیا بلکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا عصا مبارک چھین کر اپنے گھٹنے پر مار کر توڑ دیا(العیاذ باللہ) عصا مبارک کی بے ادبی کی وجہ سے اس کے گھٹنے پر ایک پھوڑا نکل گیا جس کی وجہ سے وہ مر گیا۔ یاد رہے یہ وہی عصا مبارک تھا جسے سیدنا صدیق اکبر اور عمر فاروق رضی اللہ عنہما بھی خطبے کے دوران ہاتھ میں لیا کرتے تھے۔اور اس واقعہ کو علامہ عبد المصطفیٰ اعظمی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب کرامات صحابہ میں بھی ذکر کیا ہے برائے کرم تفصیلی جواب عنایت فرمائیں
سائل:- عمران خان جلالی پاکستان
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
یہ واقعہ تو بعص کتب سیر میں ہے پر اس واقعہ کو کسی صحابی کی طرف نسبت کرنا بدون سند وثوق رواں نہیں۔
اور صحابی رسول
جہجاہ بن سعید غفاری رضی اللہ عنہ کی جانب اس معاملے کو یقینی اور قطعی طور پر منسوب نہیں کرنا چاہیے اسی میں خیر ہے کیونکہ کہ آقا علیہ السلام کی عصا کی توہین صحابہ سے قیاس نہیں کیا جا سکتا ۔
بعض کتابوں میں امیر المؤمنین حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آخری ایام کا ایک واقعہ ذکر کیا گیا ہے کہ امیر المؤمنین حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا مبارک عصا ہاتھ میں لیے جمعہ کا خطبہ ارشاد فرمارہے تھے کہ ایک شخص کھڑا ہوا اس نے نہ صرف حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے ناروا سلوک کیا بلکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا عصا مبارک چھین کر اپنے گھٹنے پر مار کر توڑ دیا(العیاذ باللہ) عصا مبارک کی بے ادبی کی وجہ سے اس کے گھٹنے پر ایک پھوڑا نکل گیا جس کی وجہ سے وہ مر گیا۔ یاد رہے یہ وہی عصا مبارک تھا جسے سیدنا صدیق اکبر اور عمر فاروق رضی اللہ عنہما بھی خطبے کے دوران ہاتھ میں لیا کرتے تھے (الکامل فی التاريخ. 58/3 ملخصا)
تاریخ کی بعض کتابوں میں حضرت سیدنا جہجاہ بن سعید غفاری رضی اللہ عنہ کے تذکرے کے تحت مذکورہ بالا واقعہ بھی ذکر ہو گیا ہے جس سے اس بات کا گمان ہوتا ہے کہ عصاۓ رسول توڑنے کا معاملہ بھی آپ رضی اللہ عنہ سے ہوا تھا، حالانکہ یہ یقینی طور پر نہیں کہا جاسکتا۔ یاد رہے محض گمان ، خیال اور اندازے کی بنیاد پر کوئی بھی خلاف شرع بات کسی بھی مومن مسلمان کی طرف منسوب کرنا درست نہیں چہ جاۓ کہ کوئی خلاف شرع کام کسی صحابی رسول کے ذمے لگادیا جائے۔
اللہ پاک کے فضل و کرم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نظر عنایت کے صدقے بیعت رضوان میں شریک صحابی رسول حضرت سید نا جہجاہ بن سعید غفاری رضی اللہ عنہ کی سیرت پر کام کے دوران در جنوں کتب سیرت و تاریخ کے مطالعے سے یہ بات روشن و عیاں ہوئی کہ عصامبارک توڑنے کی نسبت صحابی رسول حضرت سیدنا جہجاہ بن سعید غفاری رضی اللہ عنہ کی طرف کرنا درست نہیں کیونکہ یہ ناموس صحابیت کے ساتھ ساتھ تحقیق کے بھی خلاف ہے جیسا کہ ذیل میں اس کی تفصیلی وضاحت موجود ہے:
پہلے وہ حوالہ جات ملاحظہ فرمایئے جن سے پتہ چلتا ہے کہ عصاۓ رسول توڑنے والے حضرت سید نا جہجاہ بن سعید غفاری رضی اللہ عنہ نہیں ہیں چنانچہ
(1) حضرت علامہ مطہر بن طاہر مقدسی رحمۃ اللہ علیہ (وفات:355ھ) لکھتے ہیں
ثم قام الجهجاه بن سنام الغفاري فأخذ القضيب من يده وكسرها الخ
یعنی پھر جہجاہ بن سنام غفاری اٹھا اس نے عصا چھین کر توڑ دیا۔
(البدء والتاریخ، 5 / 205)
مقدور بھر کوشش کے باوجود جہجاہ بن سنام غفاری کا صحابی ہونا معلوم نہ ہو سکا۔
(2) حضرت علامہ اسماعیل بن محمد اصبہانی رحمۃ اللہ علیہ (وفات:535ھ) لکھتے ہیں:
روي عن ابن عمر رضي الله عنهما أن رجلًا يقال له جهجاه أو ابن جهجاه أخذ عصى كانت في يد عثمان فكسرها على ركبته فأصيب في ذلك الموضع الأكلة.
حضرت سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا گیا ہے کہ ایک آدمی جسے جہجاہ یا ابن جہجاہ کہا جاتا تھا نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے عصا لے کر توڑ دیا۔ الخ
(سیر السلف الصالحین ، ص184دار الراية للنشر والتوزيع، الرياض )
حضرت امام اصبہانی کی عبارت بتاتی ہے کہ اس شخص کو جہجاہ یا ابن جہجاہ کہا جاتا تھا۔ غور کیا جاۓ تو واضح ہے کہ صرف جہجاہ کہنے سے صحابی رسول حضرت جہجاہ بن سعید غفاری رضی اللہ عنہ کی ذات ہی مراد لینا بغیر کسی دلیل کے ہے کیونکہ اس بات کا احتمال ہے کہ جہجاہ نامی یہ شخص کوئی اور ہے نیز ابن جہجاہ کے الفاظ بھی صحابی رسول مراد لینے سے منع کر رہے ہیں نیز مشہور قاعدہ ہے کہ
اذا جاء الاحتمال فبطل الاستدلال
کہ جب احتمال آجائے تو استدلال باطل ہو جاتا ہے۔
لہذا قاعدے کے مطابق صحابی رسول کی جانب نسبت میں شک آ گیا اس لیے یقین سے ہر گز نہیں کہا جاسکتا کہ عصا توڑنے والا کام صحابی رسول حضرت سیدنا جہجاہ بن سعید غفاری رضی اللہ عنہ نے کیا ہے۔
(3) حضرت علامہ عبد الملک بن حسین شافعی مکی رحمۃ اللہ علیہ(وفات: 1111ھ) اس واقعے کو یوں بیان فرماتے ہیں:
ولما أخذت من يد عثمان العصاوهو قائم يخطب وكان الأخذلها جهجاه بن عمرو الغفاري وكسرها بركبته وقعت الآكلة في ركبته والعياذ بالله تعالی
یعنی جہجاہ بن عمر و غفاری نے عصالے کر توڑ دیا الخ (سمط النجوم العوالي، 525/2)
کوشش کے باوجود جہجاہ بن سنام اور جہجاہ بن عمرو کے بارے میں کسی بھی محدث کا یہ قول نہیں ملا کہ کسی صحابی رسول کا نام جہجاہ بن عمر و یا جہجاہ بن سنام ہو۔ اس لیے صحابی رسول حضرت سید نا جہجاہ بن سعید غفاری رضی اللہ عنہ کی طرف یقین کے ساتھ اس معاملے کی نسبت نہیں کی جاسکتی۔
(4) حضرت امام محمد بن احمد مغربی افریقی (وفات: 333ھ ) اس واقعے کو یوں ذکر فرماتے ہیں:
قال وحدثني عمر بن يوسف قال حدثني إبراهيم بن مرزوق قال حدثني عارم عن حماد بن زيد عن يزيد بن حازم عن سليمان بن يسار أن رجلا يقال له جهجاه من غفار دخل على عثمان ومعه عصا رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخذها الغفاري فكسرها علي ركبتيه فوقعت الأكلة في ركبتيه
یعنی حضرت سلیمان بن یسار فرماتے ہیں کہ قبیلہ غفار کا ایک آدمی جسے جہجاہ کہا جا تا تھا حضرت عثمان غنی کے پاس اس وقت آیا جب آپ کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا عصا مبارک تھا تو اس غفاری نے حضرت عثمان غنی سے عصا چھین کر اپنے گھٹنے پر مار کر توڑ دیا جس سے اس کے گھٹنے پر پھوڑا ہو گیا۔( کتاب المحن ، ص86) أن رجلا يقال له جهجاه من غفار
ذکر کردہ عبارت کا اسلوب اور رجلا کے الفاظ بتارہے ہیں کہ یہ جہجاہ کوئی غیر معروف شخص تھا نیز اس عبارت سے کسی طرح بھی ثابت نہیں ہوتا کہ اس سے صحابی رسول حضرت جہجاہ بن سعید غفاری مراد ہیں۔ یہی حال حضرت امام ابو بکر ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ کی نقل کردہ روایت کا ہے جیسا کہ ذکر فرماتے ہیں:
حدثنا ابن إدريس ، عن عبيد الله بن عمر، عن نافع أن رجلا يقال له جهجاه تناول عصى كانت في يد عثمان فكسرها بركبته، فرمى من ذلك الموضع باكلة.
(مصنف ابن ابی شیبہ ،79/17، حدیث: 32698) یہی سند اور أن رجلاً يقال له جھجاہ کے الفاظ امام آجری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی نقل فرماۓ ہیں۔
(الشریعۃ ،4 / 1998، حدیث 1469)
(5) حضرت امام ابن ابی الدنیا رحمۃ اللہ علیہ یہ واقعہ یوں ذکر فرماتے ہیں:
حدثنا عبد الله قال : حدثنا أحمد بن المقدام ، قال : أخبرنا حماد بن زيد، عن زيد بن حازم، عن سليمان بن يسار، أن رجلا ، من غفار يقال له : جهجاه، أوجهجاالغفاري،دخل على عثمان رضي الله عنه ، فانتزع عصاكانت في يده ، فكسرها على ركبته ، فوقعت الأكلة في ركبته
یعنی غفار کا ایک آدمی جسے جہجاہ یا جہجا غفاری کہا جاتا تھا الخ۔
(العقوبات، ص212، رقم:335)
(5) حضرت امام مجد الدین فیروز آبادی رحمة اللہ علیہ اپنی کتاب میں جہجاہ غفاری کے بارے میں لکھتے ہیں:
وجهجاه الغفاري: ممن خرج على عثمان، رضي الله تعالى عنه، كسر عصا النبي، صلى الله عليه وسلم، بركبته، فوقعت الأكلة فيها۔
یعنی جہجاہ غفاری وه ہے کہ جس نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کی ، نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا عصا اپنے گھٹنے پر مار کر توڑ دیا۔ الخ
(القاموس المحيط،2 / 1635)
(6) حضرت امام ابن اثیر جزری رحمة اللہ علیہ (وفات:630ھ) نے ان الفاظ سے اس بات کو بیان فرمایا ہے:
قيل:وخطب يوما وبيده عصاكان النبي - صلى الله عليه وسلم- وأبو بكر وعمر يخطبون عليها فأخذهاجهجاه الغفاري من يده وكسرهاعلى ركبته، فرمي في ذلك المكان بأكلة.
(الكامل في التاريخ، 3 /58)
اس عبارت سے بھی یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ صحابی رسول حضرت جہجاہ بن سعید غفاری رضی اللہ عنہ نے یہ کام کیا ہو کیونکہ عبارت پر غور کرنے سے صاف ظاہر ہے کہ (1) قیل کے الفاظ بتارہے ہیں کہ اس کا قائل معلوم نہیں جو کہ بے سند ہونے کی دلیل ہے۔
(2) صرف جہجاہ غفاری کہنے سے صحابی رسول ہونا لازم نہیں آتا کیونکہ جہجاہ بن سنام اور جہجاہ بن عمر و نیز ابن جہجاہ کا نام بھی ذکر کیا گیا ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا۔ صحابی رسول کا عظیم وصف بھی اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ بے سند بات کے ذریعے ایسے کام کی نسبت ان کی جانب نہ کی جائے جو ان کے شایان شان نہیں۔
(3) صرف نام میں یکسانیت یا قدرے مماثلت کی بنا پر ایک کے کام کی نسبت دوسرے کی جانب ہو جانے کی کئی مثالیں موجود ہیں جیسے بدری صحابی حضرت سیدنا ثعلبہ رضی اللہ عنہ سے نام میں یکسانیت کی وجہ سے زکوۃ کے انکار کے واقعے کی نسبت بہت سی کتابوں میں انہی جنتی صحابی کی طرف ہو گئی ہے جو کہ ہر گز درست نہیں۔
(7) حضرت امام عمر بن شبہ بصری رحمة اللہ علیہ (وفات:262ھ) لکھتے ہیں:
حدثنا موسى بن إسماعيل، قال: حدثنا يوسف بن الماجشون، قال: أخبرني عتبة بن مسلم المدني أن آخر خرجة خرجها عثمان يوم جمعة , وعليه حلة جبرة مصفرا رأسه ولحيته بورس، قال: فما خلص إلى المنبر حتى ظن أن لن يخلص، فلما استوى على المنبر حصبه النّاس، وقام رجل من بني غفار يقال له: الجهجاه فقال: والله لنغر بنك إلى جبل الدخان، فلمانزل جيل بينه وبين الصلاة، فصلى للنّاس أبو أمامة بن سهل بن حنيف
(تاريخ المدينة لابن شبة،1110/3)
اس بات کو تسلیم بھی کر لیا جائے تو اس سے صحابی رسول جہجاہ بن سعید غفاری کی تعیین کسی طرح بھی درست نہیں کیونکہ جہجاہ سے صحابی رسول مراد لینے پر عبارت میں کوئی دلیل نہیں بلکہ
رجل من بني غفار يقال له: الجهجاة “
کے الفاظ بتارہے ہیں کہ یہ کام کرنے والا کوئی غیر معروف شخص تھا۔
(8) حضرت امام شمس الدین ذہبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
وقال سليمان بن يسار: أخذ جهجاه الغفاري عصا عثمان التي كان يتحضر بها، فكسرها على ركبته،فوقعت في ركبته الأكلة۔ (تاريخ الاسلام ، 474/3)
حضرت امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں حضرت سلیمان بن یسار رحمۃ اللہ علیہ کا قول نقل فرمایا ہے ۔اس میں بھی جہجاہ غفاری کے الفاظ ہیں جس سے صحابی رسول حضرت جہجاہ بن سعید غفاری مراد لینا درست نہیں۔ پھر بھی اگر کوئی اس سے صحابی رسول ہی مراد لے تو عرض ہے کہ اس بات کو بیان کرنے والے حضرت سلیمان بن یسار رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں حضرت امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ خود فرماتے ہیں:
ولد في خلافة عثمان.
یعنی آپ حضرت عثمان غنی کی خلافت میں پیدا ہوئے۔ (سیر اعلام النلا 4)
حضرت امام ابن حبان رحمة الله علیہ (وفات:354ھ) حضرت سلیمان بن یسار کے بارے میں لکھتے ہیں:
كان مولده سنة أربع وثلاثین
یعنی آپ کی ولادت 34ھ میں ہوئی۔(مشاحر علاء الأمصار، ص 84 ،رقم:432)
جبکہ حضرت سید نا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت مبارک 18 ذوالحجۃ الحرام 35 سن ہجری میں ہوئی۔(المنتظم،58/5)
اس طرح حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے وقت حضرت سلیمان بن یسار رحمۃ اللہ علیہ کی عمر ایک سال تھی۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ معاملہ آپ نے خود نہیں دیکھا بلکہ کسی نے آپ کو بتایا تھا وہ بتانے والا کون تھا؟ ثقہ یا غیر ثقہ کچھ معلوم نہیں۔
نوٹ : یاد رہے حضرت سلیمان بن یسار رحمۃ اللہ علیہ سے ذکر کردہ تمام روایات میں یہ احتمال بہر حال موجود رہے گا۔
(9) البدایہ والنہایہ میں یہ واقعہ اس طرح ذکر کیا گیا ہے:
قال الواقدي : حدثني أسامة ابن زيد عن يحيى بن عبد الرحمن بن خاطب عن أبيه قال: بينا أنا أنظر إلى عثمان يخطب على عصا النبي صلى الله عليه وسلم التي كان يخطب عليها وأبو بكر وعمر، فقال له جهجاه: قم يانغثل فانزل عن هذا المنبر وأخذالعصافكسرهاعلى ركبته اليمنى فدخلت شظية منها فيهافبقي الجرح حتى أصابته الأكلة، فرأيتهاندود، فنزل عثمان وحملوه وأمر بالعصافشدوها۔ (البداية والباية 260/5)
اس عبارت میں بھی صرف جہجاہ کے الفاظ ہیں جس سے صحابی رسول حضرت جہجاہ بن سعید غفاری رضی اللہ عنہ کی تعیین درست نہیں کیونکہ جہجاہ سے صحابی رسول مراد لینے پر عبارت میں کوئی دلیل نہیں۔
(10) حضرت امام عمر بن شبہ بصری رحمۃ اللہ علیہ(وفات:262ھ) نے اس واقعے کو اپنی کتاب تاریخ المدینہ میں چار سندوں سے ذکر کیا
ہے: ایک روایت سات نمبر کے تحت گزری جس میں یہ الفاظ ہیں:
وقام رجل من بني غفار يقال له :الجهجاه،
دوسری روایت میں یہ
أن جهجاة الغفاري،
تیسری میں یہ
آن جهجاها
جبکہ چوتھی روایت میں یہ الفاظ ہیں:
وقام جهجاه بن سعد الغفاري وكان متن بايع تحت الشجرة
پہلی تین روایات کی تو پہلے حوالوں جیسی کیفیت ہے کہ جہجاہ اور ایک شخص جسے جہجاہ کہا جاتا تھا سے صحابی رسول مراد لینے پر کوئی دلیل نہیں البتہ چوتھی روایت کے ذریعے کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ کام صحابی رسول نے ہی کیا ہے اس کا جواب دو طرح سے دیا جاسکتا ہے:
(1) اس روایت کی سند میں ایک راوی عبد اللہ بن مصعب ہے اس کے بارے میں حضرت امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
وسئل ابن معين عن عبد الله بن مصعب فقال: ضعيف الحديث لم يكن له كتاب۔
(تاریخ الاسلام،250/12)
اسی طرح حضرت امام ابن حجر
عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نقل فرماتے ہیں:
ضعفه ابن معين۔(لسان المیزان ،165/4، رقم:4854)
حضرت امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ میزان الاعتدال
میں بھی لکھتے ہیں:
ضعفه ابن معین۔ (میزان الاعتدال، 389/2،رقم:4992)
حضرت امام ابن ابی حاتم رازی رحمۃ اللہ علیہ(وفات: 327ھ) فرماتے ہیں: میں نے اپنے والد امام ابوحاتم سے ان (عبد اللہ بن مصعب) کے بارے میں سوال کیا تو فرمایا:
هو شيخ بابة عبد الرحمن بن أبي الزناد(الجرح والتعدیل، 178/5)
حضرت امام ابوحاتم کے نزدیک عبد الرحمن بن ابی الزناد کی حیثیت ملاحظہ فرمایئے چنانچہ امام ابن ابی حاتم فرماتے ہیں میں نے اپنے والد سے ان کے متعلق سوال
کیا تو انہوں نے فرمایا:
يكتب حديثه ولا يحتج به (الجرح والتعديل 252/5)
جب ثابت ہو گیا کہ یہ روایت ضعیف ہے تو ایسی روایت کے ذریعے صحابی رسول کی جانب اس کام کی نسبت میں شک آ گیا جو اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اس بات کی صحابی رسول کی جانب یقینی نسبت درست نہیں۔
(2) ذکر کردہ چو تھی روایت میں اس بات کا بھی احتمال ہے کہ یہ مدرج ہو کیونکہ :
وقام جهجاه بن سعد الغفاري وكان ممن بايع تحت الشجرۃ
کے الفاظ کسی دوسری روایت میں موجود نہیں اس لیے انہیں راوی کا اضافہ بھی کہا جاسکتا ہے۔
حضرت امام ابن اثیر جزری کی اسد الغابہ (452/1) اور الکامل فی التاریخ ( 58/3) ابن قتیبہ کی المعارف (ص141)، حضرت امام سخاوی کی التحفة اللطيفة في تاريخ المدينة الشريفة (431/1)،حافظ ابن کثیر کی جامع المسانید و السنن (165/3) اور البدایۃ و النہایۃ(260/5)، حضرت امام ابن عبد البر کی الاستیعاب (1 /334)، حضرت امام صفدی کی الوافی بالوفیات(160/11) وغیرہ کتب میں یہ واقعہ یا تو مجہول صیغے کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے یابغیر کسی سند کے ذکر کیا گیا ہے، جس کی شرعی حیثیت پہلے ہی ذکر کر دی گئی ہے نیز امام بخاری رحمة اللہ علیہ کی التاریخ الاوسط (2/ 176،رقم:271) میں مذکور اس سند
حدثنا قتيبة ثنا محمد بن فليح بن سليمان عن أبيه عن عمته عن أبيها وعيها أنهما خضرا عثمان
میں مجہول اور مجروح راوی موجود ہیں ۔ یہی سند امام ابن عساکر رحمۃاللہ علیہ (وفات: 571ھ) نے بھی ذکر کی ہے ۔ (تاریخ مدینہ دمشق،329/39) حضرت امام ابن ناصر الدین دمشقی رحمۃ اللہ علیہ (وفات:842ھ) فرماتے ہیں:
ورواہ في تاريخه الصغير عن قتيبة بنحوه، إلا أنه قال:
یعنی امام بخاری نے انہی قتیبہ وغیرہ سے تاریخ صغیر میں یہ الفاظ
فقام إليه فلان ابن سعد لم يسمہ
یعنی پھر فلاں بن سعد کھڑا ہوا نام ذکر نہیں کیا۔
(جامع الآثار ،6 /3157)
سوال:اس بات کا احتمال تو ہے کہ یہ کام انہی صحابی رسول نے کیا ہو ؟
جواب: کسی خلاف شرع کام کی نسبت صرف احتمال، گمان، تخمینے اور اندازے کی بنیاد پر کسی صحابی رسول کی طرف کوئی بھی صحیح العقیدہ مسلمان ہر گز نہیں کر سکتا، اس بات کو اس عبارت سے سمجھا جاسکتا ہے:
ایک معاملے کی نسبت کسی نے امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کی طرف کر دی اس کے بارے میں بحث کرتے ہوئے امام اہل سنت، حضرت امام احمد رضاخان رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں: تحقیق کے بغیر کسی مسلمان کی نسبت کبیرہ گناہ کی طرف کرنا جائز نہیں۔ البتہ یہ کہنا جائز ہے کہ (خارجی ) ابن ملجم نے امیر المؤمنین حضرت سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجھہ الکریم کو اور ابولولو(مجوسی) نے امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو شہید کیا کیونکہ یہ تواتر کے ساتھ ثابت ہے ، لہذا بغیر تحقیق کے کسی مسلمان پر فسق و گفر کی تہمت لگانا جائز نہیں۔(احیاء العلوم، 154/3)
امام اہل سنت مزید فرماتے ہیں : کیو نکر حلال ہو گیا کہ ایسے سخت کبیر ہ شدید نہ کبیرہ بلکہ اکبر الکبائر کو ایک مسلمان نہ صرف مسلمان بلکہ امام المسلمین کی طرف بلا تواتر نہ فقط ہے تواتر بلکہ محض بلاسند صرف حکی کی بنا پر نسبت کر دیا جائے۔ سیدنا امام ابو یوسف رحمة اللہ علیہ کی طرف ایسی شدید عظیم بات نسبت کرنا حلال ٹھہرے حالانکہ تواتر چھوڑ کر اصلا کوئی ٹوٹی پھوٹی سند بھی نہیں۔
(فتاوی رضویہ 10 / 194 ملخصا)
اس عبارت کے تناظر میں جلیل القدر قطعی جنتی صحابی حضرت سید ناجہجاہ بن سعید غفاری رضی اللہ عنہ کی جانب نظر کر میں تو ان کا جنتی ہونا، نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ اور آپ سے نسبت رکھنے والی اشیاء کا ادب و احترام کرنا لازمی یقینی اور قطعی ہے کہ یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے۔ جبکہ عصائے رسول کی معاذاللہ بے ادبی والا واقعہ صحت کے اعتبار سے اس درجے کا نہیں کہ جو یقین کو ختم کر سکے تو لازم ہے کہ
اليقين لا يزول بالشک
قاعدے کے تحت صحابی رسول کی جانب اس فعل کو منسوب نہ کیا جائے۔
آخر میں حضرت امام شہاب الدین خفاجی رحمۃ اللہ علیہ کی عبارت ملاحظہ کیجئے جو کہ اس معاملے میں حرف آخر کی حیثیت رکھتی ہے چنانچہ امام خفاجی فرماتے ہیں:
وئی جرأته على قضيب رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم مع أنه من الصحابة الذين شهدوا المشاهد معه صلى الله تعالى عليه وسلم إشكال لا يخفى ، فان الظاهر أنه يعرف القضيب وحرمته، وغضبه على عثمان رضی الله تعالی عنہ ،كان مجتهدأ متأولا فيما انكرون عليه، وما هذه الازلة عظيمة لاتليق بمن كان مؤمناصحا بیا
یعنی نبی پاک صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے ساتھ غزوات میں شریک ہونے والے صحابی کا عصامبارک کے ساتھ ایسی بے باکی کرنا اگر تسلیم کر لیا جائے تو اس میں کئی ایسے
اشکالات ہیں جو ڈھکے چھپے نہیں۔ یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ وہ عصامبارک اور اس کی حرمت کو اچھی طرح جانتے تھے ۔ کچھ کلام کے بعد مزید فرماتے ہیں: بہر حال یہ اتنی بڑی غلطی ہے کہ جسے ایک مومن صحابی رسول سے جوڑنا ہرگز مناسب نہیں۔
(نسیم الریاض ، 4/ 27 طفلا)
(5) حضرت امام ابن ابی الدنیا رحمۃ اللہ علیہ یہ واقعہ یوں ذکر فرماتے ہیں:
حدثنا عبد الله قال : حدثنا أحمد بن المقدام ، قال : أخبرنا حماد بن زيد، عن زيد بن حازم، عن سليمان بن يسار، أن رجلا ، من غفار يقال له : جهجاه، أوجهجاالغفاري،دخل على عثمان رضي الله عنه ، فانتزع عصاكانت في يده ، فكسرها على ركبته ، فوقعت الأكلة في ركبته
یعنی غفار کا ایک آدمی جسے جہجاہ یا جہجا غفاری کہا جاتا تھا الخ۔
(العقوبات، ص212، رقم:335)
(5) حضرت امام مجد الدین فیروز آبادی رحمة اللہ علیہ اپنی کتاب میں جہجاہ غفاری کے بارے میں لکھتے ہیں:
وجهجاه الغفاري: ممن خرج على عثمان، رضي الله تعالى عنه، كسر عصا النبي، صلى الله عليه وسلم، بركبته، فوقعت الأكلة فيها۔
یعنی جہجاہ غفاری وه ہے کہ جس نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کی ، نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا عصا اپنے گھٹنے پر مار کر توڑ دیا۔ الخ
(القاموس المحيط،2 / 1635)
(6) حضرت امام ابن اثیر جزری رحمة اللہ علیہ (وفات:630ھ) نے ان الفاظ سے اس بات کو بیان فرمایا ہے:
قيل:وخطب يوما وبيده عصاكان النبي - صلى الله عليه وسلم- وأبو بكر وعمر يخطبون عليها فأخذهاجهجاه الغفاري من يده وكسرهاعلى ركبته، فرمي في ذلك المكان بأكلة.
(الكامل في التاريخ، 3 /58)
اس عبارت سے بھی یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ صحابی رسول حضرت جہجاہ بن سعید غفاری رضی اللہ عنہ نے یہ کام کیا ہو کیونکہ عبارت پر غور کرنے سے صاف ظاہر ہے کہ (1) قیل کے الفاظ بتارہے ہیں کہ اس کا قائل معلوم نہیں جو کہ بے سند ہونے کی دلیل ہے۔
(2) صرف جہجاہ غفاری کہنے سے صحابی رسول ہونا لازم نہیں آتا کیونکہ جہجاہ بن سنام اور جہجاہ بن عمر و نیز ابن جہجاہ کا نام بھی ذکر کیا گیا ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا۔ صحابی رسول کا عظیم وصف بھی اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ بے سند بات کے ذریعے ایسے کام کی نسبت ان کی جانب نہ کی جائے جو ان کے شایان شان نہیں۔
(3) صرف نام میں یکسانیت یا قدرے مماثلت کی بنا پر ایک کے کام کی نسبت دوسرے کی جانب ہو جانے کی کئی مثالیں موجود ہیں جیسے بدری صحابی حضرت سیدنا ثعلبہ رضی اللہ عنہ سے نام میں یکسانیت کی وجہ سے زکوۃ کے انکار کے واقعے کی نسبت بہت سی کتابوں میں انہی جنتی صحابی کی طرف ہو گئی ہے جو کہ ہر گز درست نہیں۔
(7) حضرت امام عمر بن شبہ بصری رحمة اللہ علیہ (وفات:262ھ) لکھتے ہیں:
حدثنا موسى بن إسماعيل، قال: حدثنا يوسف بن الماجشون، قال: أخبرني عتبة بن مسلم المدني أن آخر خرجة خرجها عثمان يوم جمعة , وعليه حلة جبرة مصفرا رأسه ولحيته بورس، قال: فما خلص إلى المنبر حتى ظن أن لن يخلص، فلما استوى على المنبر حصبه النّاس، وقام رجل من بني غفار يقال له: الجهجاه فقال: والله لنغر بنك إلى جبل الدخان، فلمانزل جيل بينه وبين الصلاة، فصلى للنّاس أبو أمامة بن سهل بن حنيف
(تاريخ المدينة لابن شبة،1110/3)
اس بات کو تسلیم بھی کر لیا جائے تو اس سے صحابی رسول جہجاہ بن سعید غفاری کی تعیین کسی طرح بھی درست نہیں کیونکہ جہجاہ سے صحابی رسول مراد لینے پر عبارت میں کوئی دلیل نہیں بلکہ
رجل من بني غفار يقال له: الجهجاة “
کے الفاظ بتارہے ہیں کہ یہ کام کرنے والا کوئی غیر معروف شخص تھا۔
(8) حضرت امام شمس الدین ذہبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
وقال سليمان بن يسار: أخذ جهجاه الغفاري عصا عثمان التي كان يتحضر بها، فكسرها على ركبته،فوقعت في ركبته الأكلة۔ (تاريخ الاسلام ، 474/3)
حضرت امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں حضرت سلیمان بن یسار رحمۃ اللہ علیہ کا قول نقل فرمایا ہے ۔اس میں بھی جہجاہ غفاری کے الفاظ ہیں جس سے صحابی رسول حضرت جہجاہ بن سعید غفاری مراد لینا درست نہیں۔ پھر بھی اگر کوئی اس سے صحابی رسول ہی مراد لے تو عرض ہے کہ اس بات کو بیان کرنے والے حضرت سلیمان بن یسار رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں حضرت امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ خود فرماتے ہیں:
ولد في خلافة عثمان.
یعنی آپ حضرت عثمان غنی کی خلافت میں پیدا ہوئے۔ (سیر اعلام النلا 4)
حضرت امام ابن حبان رحمة الله علیہ (وفات:354ھ) حضرت سلیمان بن یسار کے بارے میں لکھتے ہیں:
كان مولده سنة أربع وثلاثین
یعنی آپ کی ولادت 34ھ میں ہوئی۔(مشاحر علاء الأمصار، ص 84 ،رقم:432)
جبکہ حضرت سید نا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت مبارک 18 ذوالحجۃ الحرام 35 سن ہجری میں ہوئی۔(المنتظم،58/5)
اس طرح حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے وقت حضرت سلیمان بن یسار رحمۃ اللہ علیہ کی عمر ایک سال تھی۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ معاملہ آپ نے خود نہیں دیکھا بلکہ کسی نے آپ کو بتایا تھا وہ بتانے والا کون تھا؟ ثقہ یا غیر ثقہ کچھ معلوم نہیں۔
نوٹ : یاد رہے حضرت سلیمان بن یسار رحمۃ اللہ علیہ سے ذکر کردہ تمام روایات میں یہ احتمال بہر حال موجود رہے گا۔
(9) البدایہ والنہایہ میں یہ واقعہ اس طرح ذکر کیا گیا ہے:
قال الواقدي : حدثني أسامة ابن زيد عن يحيى بن عبد الرحمن بن خاطب عن أبيه قال: بينا أنا أنظر إلى عثمان يخطب على عصا النبي صلى الله عليه وسلم التي كان يخطب عليها وأبو بكر وعمر، فقال له جهجاه: قم يانغثل فانزل عن هذا المنبر وأخذالعصافكسرهاعلى ركبته اليمنى فدخلت شظية منها فيهافبقي الجرح حتى أصابته الأكلة، فرأيتهاندود، فنزل عثمان وحملوه وأمر بالعصافشدوها۔ (البداية والباية 260/5)
اس عبارت میں بھی صرف جہجاہ کے الفاظ ہیں جس سے صحابی رسول حضرت جہجاہ بن سعید غفاری رضی اللہ عنہ کی تعیین درست نہیں کیونکہ جہجاہ سے صحابی رسول مراد لینے پر عبارت میں کوئی دلیل نہیں۔
(10) حضرت امام عمر بن شبہ بصری رحمۃ اللہ علیہ(وفات:262ھ) نے اس واقعے کو اپنی کتاب تاریخ المدینہ میں چار سندوں سے ذکر کیا
ہے: ایک روایت سات نمبر کے تحت گزری جس میں یہ الفاظ ہیں:
وقام رجل من بني غفار يقال له :الجهجاه،
دوسری روایت میں یہ
أن جهجاة الغفاري،
تیسری میں یہ
آن جهجاها
جبکہ چوتھی روایت میں یہ الفاظ ہیں:
وقام جهجاه بن سعد الغفاري وكان متن بايع تحت الشجرة
پہلی تین روایات کی تو پہلے حوالوں جیسی کیفیت ہے کہ جہجاہ اور ایک شخص جسے جہجاہ کہا جاتا تھا سے صحابی رسول مراد لینے پر کوئی دلیل نہیں البتہ چوتھی روایت کے ذریعے کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ کام صحابی رسول نے ہی کیا ہے اس کا جواب دو طرح سے دیا جاسکتا ہے:
(1) اس روایت کی سند میں ایک راوی عبد اللہ بن مصعب ہے اس کے بارے میں حضرت امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
وسئل ابن معين عن عبد الله بن مصعب فقال: ضعيف الحديث لم يكن له كتاب۔
(تاریخ الاسلام،250/12)
اسی طرح حضرت امام ابن حجر
عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نقل فرماتے ہیں:
ضعفه ابن معين۔(لسان المیزان ،165/4، رقم:4854)
حضرت امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ میزان الاعتدال
میں بھی لکھتے ہیں:
ضعفه ابن معین۔ (میزان الاعتدال، 389/2،رقم:4992)
حضرت امام ابن ابی حاتم رازی رحمۃ اللہ علیہ(وفات: 327ھ) فرماتے ہیں: میں نے اپنے والد امام ابوحاتم سے ان (عبد اللہ بن مصعب) کے بارے میں سوال کیا تو فرمایا:
هو شيخ بابة عبد الرحمن بن أبي الزناد(الجرح والتعدیل، 178/5)
حضرت امام ابوحاتم کے نزدیک عبد الرحمن بن ابی الزناد کی حیثیت ملاحظہ فرمایئے چنانچہ امام ابن ابی حاتم فرماتے ہیں میں نے اپنے والد سے ان کے متعلق سوال
کیا تو انہوں نے فرمایا:
يكتب حديثه ولا يحتج به (الجرح والتعديل 252/5)
جب ثابت ہو گیا کہ یہ روایت ضعیف ہے تو ایسی روایت کے ذریعے صحابی رسول کی جانب اس کام کی نسبت میں شک آ گیا جو اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اس بات کی صحابی رسول کی جانب یقینی نسبت درست نہیں۔
(2) ذکر کردہ چو تھی روایت میں اس بات کا بھی احتمال ہے کہ یہ مدرج ہو کیونکہ :
وقام جهجاه بن سعد الغفاري وكان ممن بايع تحت الشجرۃ
کے الفاظ کسی دوسری روایت میں موجود نہیں اس لیے انہیں راوی کا اضافہ بھی کہا جاسکتا ہے۔
حضرت امام ابن اثیر جزری کی اسد الغابہ (452/1) اور الکامل فی التاریخ ( 58/3) ابن قتیبہ کی المعارف (ص141)، حضرت امام سخاوی کی التحفة اللطيفة في تاريخ المدينة الشريفة (431/1)،حافظ ابن کثیر کی جامع المسانید و السنن (165/3) اور البدایۃ و النہایۃ(260/5)، حضرت امام ابن عبد البر کی الاستیعاب (1 /334)، حضرت امام صفدی کی الوافی بالوفیات(160/11) وغیرہ کتب میں یہ واقعہ یا تو مجہول صیغے کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے یابغیر کسی سند کے ذکر کیا گیا ہے، جس کی شرعی حیثیت پہلے ہی ذکر کر دی گئی ہے نیز امام بخاری رحمة اللہ علیہ کی التاریخ الاوسط (2/ 176،رقم:271) میں مذکور اس سند
حدثنا قتيبة ثنا محمد بن فليح بن سليمان عن أبيه عن عمته عن أبيها وعيها أنهما خضرا عثمان
میں مجہول اور مجروح راوی موجود ہیں ۔ یہی سند امام ابن عساکر رحمۃاللہ علیہ (وفات: 571ھ) نے بھی ذکر کی ہے ۔ (تاریخ مدینہ دمشق،329/39) حضرت امام ابن ناصر الدین دمشقی رحمۃ اللہ علیہ (وفات:842ھ) فرماتے ہیں:
ورواہ في تاريخه الصغير عن قتيبة بنحوه، إلا أنه قال:
یعنی امام بخاری نے انہی قتیبہ وغیرہ سے تاریخ صغیر میں یہ الفاظ
فقام إليه فلان ابن سعد لم يسمہ
یعنی پھر فلاں بن سعد کھڑا ہوا نام ذکر نہیں کیا۔
(جامع الآثار ،6 /3157)
سوال:اس بات کا احتمال تو ہے کہ یہ کام انہی صحابی رسول نے کیا ہو ؟
جواب: کسی خلاف شرع کام کی نسبت صرف احتمال، گمان، تخمینے اور اندازے کی بنیاد پر کسی صحابی رسول کی طرف کوئی بھی صحیح العقیدہ مسلمان ہر گز نہیں کر سکتا، اس بات کو اس عبارت سے سمجھا جاسکتا ہے:
ایک معاملے کی نسبت کسی نے امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کی طرف کر دی اس کے بارے میں بحث کرتے ہوئے امام اہل سنت، حضرت امام احمد رضاخان رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں: تحقیق کے بغیر کسی مسلمان کی نسبت کبیرہ گناہ کی طرف کرنا جائز نہیں۔ البتہ یہ کہنا جائز ہے کہ (خارجی ) ابن ملجم نے امیر المؤمنین حضرت سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجھہ الکریم کو اور ابولولو(مجوسی) نے امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو شہید کیا کیونکہ یہ تواتر کے ساتھ ثابت ہے ، لہذا بغیر تحقیق کے کسی مسلمان پر فسق و گفر کی تہمت لگانا جائز نہیں۔(احیاء العلوم، 154/3)
امام اہل سنت مزید فرماتے ہیں : کیو نکر حلال ہو گیا کہ ایسے سخت کبیر ہ شدید نہ کبیرہ بلکہ اکبر الکبائر کو ایک مسلمان نہ صرف مسلمان بلکہ امام المسلمین کی طرف بلا تواتر نہ فقط ہے تواتر بلکہ محض بلاسند صرف حکی کی بنا پر نسبت کر دیا جائے۔ سیدنا امام ابو یوسف رحمة اللہ علیہ کی طرف ایسی شدید عظیم بات نسبت کرنا حلال ٹھہرے حالانکہ تواتر چھوڑ کر اصلا کوئی ٹوٹی پھوٹی سند بھی نہیں۔
(فتاوی رضویہ 10 / 194 ملخصا)
اس عبارت کے تناظر میں جلیل القدر قطعی جنتی صحابی حضرت سید ناجہجاہ بن سعید غفاری رضی اللہ عنہ کی جانب نظر کر میں تو ان کا جنتی ہونا، نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ اور آپ سے نسبت رکھنے والی اشیاء کا ادب و احترام کرنا لازمی یقینی اور قطعی ہے کہ یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے۔ جبکہ عصائے رسول کی معاذاللہ بے ادبی والا واقعہ صحت کے اعتبار سے اس درجے کا نہیں کہ جو یقین کو ختم کر سکے تو لازم ہے کہ
اليقين لا يزول بالشک
قاعدے کے تحت صحابی رسول کی جانب اس فعل کو منسوب نہ کیا جائے۔
آخر میں حضرت امام شہاب الدین خفاجی رحمۃ اللہ علیہ کی عبارت ملاحظہ کیجئے جو کہ اس معاملے میں حرف آخر کی حیثیت رکھتی ہے چنانچہ امام خفاجی فرماتے ہیں:
وئی جرأته على قضيب رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم مع أنه من الصحابة الذين شهدوا المشاهد معه صلى الله تعالى عليه وسلم إشكال لا يخفى ، فان الظاهر أنه يعرف القضيب وحرمته، وغضبه على عثمان رضی الله تعالی عنہ ،كان مجتهدأ متأولا فيما انكرون عليه، وما هذه الازلة عظيمة لاتليق بمن كان مؤمناصحا بیا
یعنی نبی پاک صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے ساتھ غزوات میں شریک ہونے والے صحابی کا عصامبارک کے ساتھ ایسی بے باکی کرنا اگر تسلیم کر لیا جائے تو اس میں کئی ایسے
اشکالات ہیں جو ڈھکے چھپے نہیں۔ یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ وہ عصامبارک اور اس کی حرمت کو اچھی طرح جانتے تھے ۔ کچھ کلام کے بعد مزید فرماتے ہیں: بہر حال یہ اتنی بڑی غلطی ہے کہ جسے ایک مومن صحابی رسول سے جوڑنا ہرگز مناسب نہیں۔
(نسیم الریاض ، 4/ 27 طفلا)
(محرر محمد عدنان چشتی عطاری مدنی)
والله ورسوله أعلم بالصواب
*كتبه محمد مجیب قادري لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونڈیشن ضلع سرہا نیپال*
31<08/2023
والله ورسوله أعلم بالصواب
*كتبه محمد مجیب قادري لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونڈیشن ضلع سرہا نیپال*
31<08/2023