•┈┈┈┈•••✦﷽✦•••┈┈┈┈•
(سوال نمبر 4269)
رب کہاں موجود ہے؟
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ جب رب نے زمین اسمان سورج کچھ چیز بھی نہیں پیدا کی تھی اس وقت رب کہاں موجود تھا اور اس طرح کے الفاظ ہم کیسے استعمال کریں کیا یہ لفظ استعمال کرنے سے گستاخی تو نہیں الرٹ ہوگی
حافظ:- محمد عمران خان ملک پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
رب اپنے وجود میں زمین و زماں مکین و مکاں کا محتاج نہیں جب کچھ نہیں تھا تب بھی تھا جب کچھ نہیں ہوگا تب بھی ہوگا اللہ تعالیٰ اپنے علم اور قدرت کے لحاظ سے ہر جگہ موجود ہے لیکن اس کی ذات کو کسی ایک مقام کے ساتھ خاص کرنا جائز نہیں ذاتِ باری تعالیٰ زمان و مکاں سے پاک ہے ہماری عقلیں اْس کا ارداک نہیں کر سکتیںﷲ تعالیٰ کے بارے میں یہ نہیں کہنا جائز نہیں کہ وہ ذاتاً ہر جگہ موجود ہے بلکہ سخت حرام اور اپنے ظاہر معنی کے لحاظ سے کفر ہے
کیونکہ وہ مکان سے پاک اور مبرا ہے البتہ اْس کا علمِ اور اس کی قدرت ہر چیز کو محیط ہے اْس کی معیت ہر کسی کو
حاصل ہے۔
بہار شریعت میں ہے
اس کی ذات کا اِدراک عقلاً مُحَال کہ جو چیز سمجھ میں آتی ہے عقل اُس کو محیط ہوتی ہے اور اُس کو کوئی اِحاطہ نہیں کر سکتا ﷲ تعالیٰ جہت ومکا ن و زمان و حرکت و سکون و شکل و صورت و جمیع حوادث سے پاک ہے۔(بہار شریعت ح ١ ص٢١ المكتبة المدينة)
فتاوی شارح بخاری میں ہے
یہ جملہ کہا کہ خدا ہر جگہ موجود ہے، سخت حرام اور اپنے ظاہر معنی کے لحاظ سے کفر ہے۔ حدیقه ندیه میں ایسے قائل كو کافر کہا ہے، اگرچہ مذہب متكلمين مختار للفتوی پر کافر نہیں کہا جائے گا مگر احتیاطاً توبه و تجديد ایمان و نکاح کا حكم دیا جائے گا۔ یہ تاويل کہ مراد یہ ہے کہ خدا کی قوت ہر جگہ موجود ہے، تاویل بعید ہے. یَدُ اللهِ فَوْقَ اَیْدِیْهِمْ پر قیاس قیاس مع الفارق ہے، عربی میں بھی اور اردو میں بھی۔ ید ہاتھ بمعنی قوت مستعمل ہے مگر ذات کو موجود بول کر قوت مراد لینا مستعمل نہیں۔
علاوہ ازیں یَدُ اللهِ فَوْقَ اَیْدِیْهِمْ متشابہات سے ہے۔ متشابہات کی پیروی بنص قرآن حرام فرمایا گیا: فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَہَ لهذا علماء نے تصریح فرمائی کہ اگرچہ نصوص میں يد وجه قدم وارد ہیں مگر سوائے مواقع ورود اور كہیں استعمال کرنا ممنوع ہے۔ لہٰذا یہ کہنا بھی حرام ہے کہ اللہ کے لیے ہاتھ ہے، اگر چہ ہاتھ سے مراد قوت ہو۔ (شارح بخاری ج ١ ص ١١٣)
والله ورسوله اعلم بالصواب
رب کہاں موجود ہے؟
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ جب رب نے زمین اسمان سورج کچھ چیز بھی نہیں پیدا کی تھی اس وقت رب کہاں موجود تھا اور اس طرح کے الفاظ ہم کیسے استعمال کریں کیا یہ لفظ استعمال کرنے سے گستاخی تو نہیں الرٹ ہوگی
حافظ:- محمد عمران خان ملک پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
رب اپنے وجود میں زمین و زماں مکین و مکاں کا محتاج نہیں جب کچھ نہیں تھا تب بھی تھا جب کچھ نہیں ہوگا تب بھی ہوگا اللہ تعالیٰ اپنے علم اور قدرت کے لحاظ سے ہر جگہ موجود ہے لیکن اس کی ذات کو کسی ایک مقام کے ساتھ خاص کرنا جائز نہیں ذاتِ باری تعالیٰ زمان و مکاں سے پاک ہے ہماری عقلیں اْس کا ارداک نہیں کر سکتیںﷲ تعالیٰ کے بارے میں یہ نہیں کہنا جائز نہیں کہ وہ ذاتاً ہر جگہ موجود ہے بلکہ سخت حرام اور اپنے ظاہر معنی کے لحاظ سے کفر ہے
کیونکہ وہ مکان سے پاک اور مبرا ہے البتہ اْس کا علمِ اور اس کی قدرت ہر چیز کو محیط ہے اْس کی معیت ہر کسی کو
حاصل ہے۔
بہار شریعت میں ہے
اس کی ذات کا اِدراک عقلاً مُحَال کہ جو چیز سمجھ میں آتی ہے عقل اُس کو محیط ہوتی ہے اور اُس کو کوئی اِحاطہ نہیں کر سکتا ﷲ تعالیٰ جہت ومکا ن و زمان و حرکت و سکون و شکل و صورت و جمیع حوادث سے پاک ہے۔(بہار شریعت ح ١ ص٢١ المكتبة المدينة)
فتاوی شارح بخاری میں ہے
یہ جملہ کہا کہ خدا ہر جگہ موجود ہے، سخت حرام اور اپنے ظاہر معنی کے لحاظ سے کفر ہے۔ حدیقه ندیه میں ایسے قائل كو کافر کہا ہے، اگرچہ مذہب متكلمين مختار للفتوی پر کافر نہیں کہا جائے گا مگر احتیاطاً توبه و تجديد ایمان و نکاح کا حكم دیا جائے گا۔ یہ تاويل کہ مراد یہ ہے کہ خدا کی قوت ہر جگہ موجود ہے، تاویل بعید ہے. یَدُ اللهِ فَوْقَ اَیْدِیْهِمْ پر قیاس قیاس مع الفارق ہے، عربی میں بھی اور اردو میں بھی۔ ید ہاتھ بمعنی قوت مستعمل ہے مگر ذات کو موجود بول کر قوت مراد لینا مستعمل نہیں۔
علاوہ ازیں یَدُ اللهِ فَوْقَ اَیْدِیْهِمْ متشابہات سے ہے۔ متشابہات کی پیروی بنص قرآن حرام فرمایا گیا: فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَہَ لهذا علماء نے تصریح فرمائی کہ اگرچہ نصوص میں يد وجه قدم وارد ہیں مگر سوائے مواقع ورود اور كہیں استعمال کرنا ممنوع ہے۔ لہٰذا یہ کہنا بھی حرام ہے کہ اللہ کے لیے ہاتھ ہے، اگر چہ ہاتھ سے مراد قوت ہو۔ (شارح بخاری ج ١ ص ١١٣)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
02/08/2023
نوٹ ایسے سوال سے پرہیز کریں
02/08/2023
نوٹ ایسے سوال سے پرہیز کریں