(سوال نمبر 8001)
تصویر کھینچنا اور کھچوانا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان شرع اس مسئلہ کے بارے میں کی فوٹو کھینچنا کیسا ہے؟ قرآن حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرماے بڑی مہربانی ہوگی حضرت
سائل:- ظہیر رضا ضلع گونڈہ یوپی انڈیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره و نصلي علي رسوله الأمين الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
تصویر فقہاء کرام کے مابین مختلف فیہ مسئلہ ہے
١/ ڈیجیٹل تصویر بعض فقہاء کرام کے نزدیک تصویر نہیں ہے بلکہ یہ عکس ہے اب جو اشیاء ظاہرا ہم دیکھ سکتے ہیں اسے ٹی وی ویڈیو اور تصویری شکل میں بھی دیکھ سکتے ہیں پھر ایسی ویڈیو اور تصویر بنا بھی سکتے ہیں مثلا محفل میلاد شادی نعت و تقریر وغیرہ کی ویڈیو اپنی یا اپنے والدین بھائی شیخ وغیرہ کی ویڈیوز یا تصاویر ۔بنا بھی سکتے ہیں اور دیکھ بھی سکتے ہیں چونکہ موجودہ دور میں جدید طور پر فوٹوگرافی اسلامی مووی میکنگ وغیرہ کے بابت تین اقوال ہیں
١/ علماء کی ایک جماعت کی رائے یہ ہے کہ یہ تصاویر نہیں ہیں بلکہ یہ عکس ہے , اور عکس کے جواز میں کوئی شک نہیں ہے ,جسے شیشہ اور پانی میں سایہ لہذا فوٹو گرافی اور مووی بنانا جائز اور مشروع عمل ہے ۔ بالکل جائز ہے کوئی قباحت نہیں
٢/ جبکہ علماء کی دوسری جماعت اسے بھی تصویر ہی سمجھتی ہے اور کہتی ہے کہ یہ تصویر کی جدید شکل ہے , چونکہ تصویر کی حرمت میں کوئی شبہہ نہیں ہے ,یہ بالکل حرام و نا جائز قرار دیتی ہے لہذا فوٹو گرافی اور ویڈیو ناجائز اور حرام ہے ۔
٣/ اہل علم کی تیسری جماعت کی رائے یہ ہےکہ یہ تصویر ہی ہے , لیکن بوجہ مجبوری ہم دین کی دعوت و تبلیغ کی غرض سے ویڈیو کو استعمال کرتے ہیں ۔ یہ رائے اکثر اہل علم کی ہے جن میں عرب بالخصوص جامعہ الازھر وعجم کے بہت سے علماء کا قول ہیں ۔ یعنی ان کے نزدیک ویڈیو اصلاً مباح اور جائز ہے , لیکن دینی اصول، اضطرار" کو ملحوظ رکھ کر قاعدہ فقہیہ *الضرورات تبيح المحظورات*
(ضرورتیں ناجائز کاموں کو جائز بنا دیتی ہیں ) پر عمل پیرا ہوتے ہوئے الیکٹرانک میڈیا کے اس تیز ترین دور میں ویڈیو کو تبلیغ دین کے مقاصد میں بامر مجبوری استعمال کرنا مباح قرار دیتے ہیں یعنی دعوت و تبلیغ اور جائز طور پر استعمال کر نے کے علاوہ یہ گروہ بھی اسے ناجائز سمجھتا ہے اور بلا امر مجبوری اسے جائز قرار نہیں دیتا ہے اس اعتبار سے اس گروہ کی رائے پہلے کے دونوں گروہوں کی رائے کے بیچ میں ہے ۔
لہذا آپ جس قول پر چاہے عمل کر سکتے ہیں آپ عاصی نہیں ہوں گے ۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
تصویر کھینچنا اور کھچوانا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان شرع اس مسئلہ کے بارے میں کی فوٹو کھینچنا کیسا ہے؟ قرآن حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرماے بڑی مہربانی ہوگی حضرت
سائل:- ظہیر رضا ضلع گونڈہ یوپی انڈیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره و نصلي علي رسوله الأمين الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
تصویر فقہاء کرام کے مابین مختلف فیہ مسئلہ ہے
١/ ڈیجیٹل تصویر بعض فقہاء کرام کے نزدیک تصویر نہیں ہے بلکہ یہ عکس ہے اب جو اشیاء ظاہرا ہم دیکھ سکتے ہیں اسے ٹی وی ویڈیو اور تصویری شکل میں بھی دیکھ سکتے ہیں پھر ایسی ویڈیو اور تصویر بنا بھی سکتے ہیں مثلا محفل میلاد شادی نعت و تقریر وغیرہ کی ویڈیو اپنی یا اپنے والدین بھائی شیخ وغیرہ کی ویڈیوز یا تصاویر ۔بنا بھی سکتے ہیں اور دیکھ بھی سکتے ہیں چونکہ موجودہ دور میں جدید طور پر فوٹوگرافی اسلامی مووی میکنگ وغیرہ کے بابت تین اقوال ہیں
١/ علماء کی ایک جماعت کی رائے یہ ہے کہ یہ تصاویر نہیں ہیں بلکہ یہ عکس ہے , اور عکس کے جواز میں کوئی شک نہیں ہے ,جسے شیشہ اور پانی میں سایہ لہذا فوٹو گرافی اور مووی بنانا جائز اور مشروع عمل ہے ۔ بالکل جائز ہے کوئی قباحت نہیں
٢/ جبکہ علماء کی دوسری جماعت اسے بھی تصویر ہی سمجھتی ہے اور کہتی ہے کہ یہ تصویر کی جدید شکل ہے , چونکہ تصویر کی حرمت میں کوئی شبہہ نہیں ہے ,یہ بالکل حرام و نا جائز قرار دیتی ہے لہذا فوٹو گرافی اور ویڈیو ناجائز اور حرام ہے ۔
٣/ اہل علم کی تیسری جماعت کی رائے یہ ہےکہ یہ تصویر ہی ہے , لیکن بوجہ مجبوری ہم دین کی دعوت و تبلیغ کی غرض سے ویڈیو کو استعمال کرتے ہیں ۔ یہ رائے اکثر اہل علم کی ہے جن میں عرب بالخصوص جامعہ الازھر وعجم کے بہت سے علماء کا قول ہیں ۔ یعنی ان کے نزدیک ویڈیو اصلاً مباح اور جائز ہے , لیکن دینی اصول، اضطرار" کو ملحوظ رکھ کر قاعدہ فقہیہ *الضرورات تبيح المحظورات*
(ضرورتیں ناجائز کاموں کو جائز بنا دیتی ہیں ) پر عمل پیرا ہوتے ہوئے الیکٹرانک میڈیا کے اس تیز ترین دور میں ویڈیو کو تبلیغ دین کے مقاصد میں بامر مجبوری استعمال کرنا مباح قرار دیتے ہیں یعنی دعوت و تبلیغ اور جائز طور پر استعمال کر نے کے علاوہ یہ گروہ بھی اسے ناجائز سمجھتا ہے اور بلا امر مجبوری اسے جائز قرار نہیں دیتا ہے اس اعتبار سے اس گروہ کی رائے پہلے کے دونوں گروہوں کی رائے کے بیچ میں ہے ۔
لہذا آپ جس قول پر چاہے عمل کر سکتے ہیں آپ عاصی نہیں ہوں گے ۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
نوٹ:- مزید معلومات کے لیے میرا مضمون تصویر کی شرعی حیثیت ملاحظہ کریں ۔
نوٹ:- مزید معلومات کے لیے میرا مضمون تصویر کی شرعی حیثیت ملاحظہ کریں ۔