(سوال نمبر 4229)
طلاق کے بعد شوہر کے ساتھ رہنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں مفتیان ذوی الحترام پاسبانان قوانین اسلام مسئلئہ مندرج ذیل کے بارے میںزید نے ایک مشرکہ لڑکی سے محبت کی اس کے بعد دونوں رضامندی سے تجدید ایمان کے بعد نکاح کرتے ہیں۔کچھ مہینے ہی ابھی گزرے تھے کی آپس میں اختلاف ہوجاتاہے اور ہندہ اپنے باپ کو بلاکر زید سے طلاق لیکر اپنے باپ کے گھر چلی جاتی ہے۔ابھی چند ہی دن گذرے تھے کہ ہندہ دوبارہ واپس زید کے پاس آجاتی ہے۔
اور جب دوبارہ آئ تو نہ تجدید ایمان نہ نکاح زید کےساتھ رہنے لگی۔ اور اب وہ چھ ماہ کے حمل سے بھی ہے۔ ایسی صورت میں زید اور ہندہ پر شریعت کاکیاحکم ہے۔؟
اور یہ دونوں جائز طریقے سے ساتھ میں کیسے رہ پائینگے۔
اس کاجواب قرآن عظیم بَفرمان رسول عظیم واقوال بزرگان دین کی رشنی میں عنایت فرماکر عنداللہ ماجور وعندالناس مشکور ہوں۔۔
المستفتی:- عبدالوکیل پپرا اسماعیل گوراچوکی گونڈہ۔یوپی انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
جب ہندہ ایمان لانے کے بعد زید کے ساتھ نکاح کیا شرعی طور پر تو وہ زید کی بیوی ہوئی پھر ہندہ کے طلاق مانگنے پر زید نے طلاق مغلظہ دے دیا اب اگر ہندہ نے کوئی کفر کی ہو تو پہلے تجدید ایمان پھر زید سے حاملہ ہے تو حالت حمل میں نکاح کرلے اور اگر کسی دوسرے کا حمل ہو تو وضع حمل کے بعد نکاح کرے
اس کے بغیر زید کے ساتھ رہنا حرام و زنا ہے دونوں کو الگ کیا جائے جب تک شرعی طور پر نکاح نہ کرے سماجی بائکات کریں۔
(کتب فقہ عامہ)
یاد رہے طلاق کے بعد اگر زنا سے حمل زید کا ہے حالت حمل میں نکاح جائز ہے اگر دوسرے کا ہے تو عدت وضع حمل ہے اس سے پہلے نکاح جائز نہیں
زنا کرنے کی وجہ سے حمل ٹھہرنے کے بعد زانی سے نکاح کرنے کی صورت میں نکاح منعقد ہوجائے گا کیوں کہ حاملہ سے نکاح کی ممانعت اس وقت ہے جب وہ کسی کے نکاح میں حاملہ ہوئی ہو یا پھر عدت میں ہو تو اس سے نکاح جائز نہیں ہے
زید سے حاملہ ہونے کی صورت میں اگر نکاح کے چھ مہینے بعد اس حمل سے بچہ پیدا ہو تو وہ بچہ ثابت النسب ہوگا لیکن اگر نکاح کے بعد چھ ماہ گزرنے سے پہلے ہی بچہ پیدا ہوگیا تو پھر اس بچہ کا اس زانی سے نسب ثابت نہیں ہوگا اور وہ بچہ ولد الزنا ہی کہلائے گا۔ البتہ اس صورت میں اگر زانی اس بچے کے باپ ہونے کا اقرار کرلیتا ہے اور زنا کا ذکر نہیں کرتا تو بھی اس بچے کا نسب اس سے ثابت ہوجائے گا۔
فتاوی شامی میں ہے
لو نكحها الزاني حل له وطؤها اتفاقاً، والولد له ولزمه النفقة. (قوله: والولد له) أي إن جاءت بعد النكاح لستة أشهر، مختارات النوازل، فلو لأقل من ستة أشهر من وقت النكاح لايثبت النسب، ولايرث منه إلا أن يقول: هذا الولد مني، ولايقول: من الزنى، خانية. والظاهر أن هذا من حيث القضاء، أما من حيث الديانة فلايجوز له أن يدعيه؛ لأن الشرع قطع نسبه منه، فلايحل له استلحاقه به، ولذا لو صرح بأنه من الزنى لايثبت قضاءً أيضاً، وإنما يثبت لو لم يصرح؛ لاحتمال كونه بعقد سابق أو بشبهة حملاً لحال المسلم على الصلاح، وكذا ثبوته مطلقاً إذا جاءت به لستة أشهر من النكاح؛ لاحتمال علوقه بعد العقد، وأن ما قبل العقد كان انتفاخاً لا حملاً، ويحتاط في إثبات النسب ما أمكن
(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 49)
والله ورسوله اعلم بالصواب
طلاق کے بعد شوہر کے ساتھ رہنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں مفتیان ذوی الحترام پاسبانان قوانین اسلام مسئلئہ مندرج ذیل کے بارے میںزید نے ایک مشرکہ لڑکی سے محبت کی اس کے بعد دونوں رضامندی سے تجدید ایمان کے بعد نکاح کرتے ہیں۔کچھ مہینے ہی ابھی گزرے تھے کی آپس میں اختلاف ہوجاتاہے اور ہندہ اپنے باپ کو بلاکر زید سے طلاق لیکر اپنے باپ کے گھر چلی جاتی ہے۔ابھی چند ہی دن گذرے تھے کہ ہندہ دوبارہ واپس زید کے پاس آجاتی ہے۔
اور جب دوبارہ آئ تو نہ تجدید ایمان نہ نکاح زید کےساتھ رہنے لگی۔ اور اب وہ چھ ماہ کے حمل سے بھی ہے۔ ایسی صورت میں زید اور ہندہ پر شریعت کاکیاحکم ہے۔؟
اور یہ دونوں جائز طریقے سے ساتھ میں کیسے رہ پائینگے۔
اس کاجواب قرآن عظیم بَفرمان رسول عظیم واقوال بزرگان دین کی رشنی میں عنایت فرماکر عنداللہ ماجور وعندالناس مشکور ہوں۔۔
المستفتی:- عبدالوکیل پپرا اسماعیل گوراچوکی گونڈہ۔یوپی انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
جب ہندہ ایمان لانے کے بعد زید کے ساتھ نکاح کیا شرعی طور پر تو وہ زید کی بیوی ہوئی پھر ہندہ کے طلاق مانگنے پر زید نے طلاق مغلظہ دے دیا اب اگر ہندہ نے کوئی کفر کی ہو تو پہلے تجدید ایمان پھر زید سے حاملہ ہے تو حالت حمل میں نکاح کرلے اور اگر کسی دوسرے کا حمل ہو تو وضع حمل کے بعد نکاح کرے
اس کے بغیر زید کے ساتھ رہنا حرام و زنا ہے دونوں کو الگ کیا جائے جب تک شرعی طور پر نکاح نہ کرے سماجی بائکات کریں۔
(کتب فقہ عامہ)
یاد رہے طلاق کے بعد اگر زنا سے حمل زید کا ہے حالت حمل میں نکاح جائز ہے اگر دوسرے کا ہے تو عدت وضع حمل ہے اس سے پہلے نکاح جائز نہیں
زنا کرنے کی وجہ سے حمل ٹھہرنے کے بعد زانی سے نکاح کرنے کی صورت میں نکاح منعقد ہوجائے گا کیوں کہ حاملہ سے نکاح کی ممانعت اس وقت ہے جب وہ کسی کے نکاح میں حاملہ ہوئی ہو یا پھر عدت میں ہو تو اس سے نکاح جائز نہیں ہے
زید سے حاملہ ہونے کی صورت میں اگر نکاح کے چھ مہینے بعد اس حمل سے بچہ پیدا ہو تو وہ بچہ ثابت النسب ہوگا لیکن اگر نکاح کے بعد چھ ماہ گزرنے سے پہلے ہی بچہ پیدا ہوگیا تو پھر اس بچہ کا اس زانی سے نسب ثابت نہیں ہوگا اور وہ بچہ ولد الزنا ہی کہلائے گا۔ البتہ اس صورت میں اگر زانی اس بچے کے باپ ہونے کا اقرار کرلیتا ہے اور زنا کا ذکر نہیں کرتا تو بھی اس بچے کا نسب اس سے ثابت ہوجائے گا۔
فتاوی شامی میں ہے
لو نكحها الزاني حل له وطؤها اتفاقاً، والولد له ولزمه النفقة. (قوله: والولد له) أي إن جاءت بعد النكاح لستة أشهر، مختارات النوازل، فلو لأقل من ستة أشهر من وقت النكاح لايثبت النسب، ولايرث منه إلا أن يقول: هذا الولد مني، ولايقول: من الزنى، خانية. والظاهر أن هذا من حيث القضاء، أما من حيث الديانة فلايجوز له أن يدعيه؛ لأن الشرع قطع نسبه منه، فلايحل له استلحاقه به، ولذا لو صرح بأنه من الزنى لايثبت قضاءً أيضاً، وإنما يثبت لو لم يصرح؛ لاحتمال كونه بعقد سابق أو بشبهة حملاً لحال المسلم على الصلاح، وكذا ثبوته مطلقاً إذا جاءت به لستة أشهر من النكاح؛ لاحتمال علوقه بعد العقد، وأن ما قبل العقد كان انتفاخاً لا حملاً، ويحتاط في إثبات النسب ما أمكن
(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 49)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
29/08/2023
29/08/2023