تشہد میں امام سلام پھیر نے لگے مقتدی ابھی مکمل نہیں کئے تو شرعا کیا حکم ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے متعلق نماز کی چوتھی رکعت میں تشہد میں مقتدی اگر درود ہی پڑھ پائے یا دعا آدھی پڑھ پائے اور امام صاحب سلام پھیر دے تو کیا حکم ہوگا ؟ اور دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا قضا نماز اگر ٹائم ہو تو فرضوں سے پہلے پڑھ سکتے ہیں؟
سائل:- محمد ندیم رضا قادری پنجاب پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
١/ قعدہ اخیرہ میں امام سلام پھیرنے لگے اور مقتدی التحیات مکمل کرکے دعا یا درود پڑھ رہیں ہوں تو چھوڑ کر امام کے ساتھ سلام پھیرے اتباع امام واجب ہے اور اگر التحیات مکمل نہ کئے ہوں تو مکمل کریں امام کو سلام پھیرنے دیں
چونکہ قعدہ اولیٰ اور قعدہ ثانیہ بلکہ ہر قعدہ میں التحیات تشہد پڑھنا واجب ہے چاہے فرض نماز ہو یانفل اگر مقتدی تشھد پڑھ رہا ہو اور تشھد کا کچھ حصہ باقی ہو اور امام سلام پھیر دے تو مقتدی کو چاہیے کہ وہ تشھد مکمل کر کے سلام پھیر دے اور درود شریف نہ پڑھے کیونکہ امام کی اتباع کرنا واجب ہے جبکہ درود شریف پڑھنا سنت ہے
فتاوی شامی میں ہے
بخلاف سلامہ أوقیامہ لثالثۃ قبل تمام المؤتم التشہد فإنّہ لایتابعہ بل یتمہ لوجوبہ
قولہ : فإنّہ لایتابعہ الخ: وشمل بإطلاقہ مالواقتدیٰ بہ في أثناء التشہد الأول أو الأخیر فحین قعد قام إمامہ أوسلّم ومقتضاہ أنّہ یتم التشہد ثم یقوم۔
(الدر المختار مع رد المحتار (مطلب في إطالۃ الرکوع للجائي، 496/1، ط: سعید)
٢/ کسی بھی فرض نماز کے بعد یا پہلے قضا نماز پڑھ سکتے ہیں البتہ تین اوقاتِ مکروہہ
١/ سورج طلوع ہونے سے لے کر اشراق کا وقت ہونے تک
٢/ استواءِ شمس یعنی دوپہر کے وقت سورج عین سر کے اوپر آنے کے وقت سے پانچ منٹ پہلے اور پانچ منٹ بعد
٣/ اور عصر کے بعد سورج زرد پڑنے کے بعد سے لے کر غروبِ شمس تک کے علاوہ کسی بھی وقت قضا نماز پڑھی جاسکتی ہے
البتہ عصر اور فجر کی نماز کے بعد اور صبح صادق کے بعد فجر کی نماز سے پہلے لوگوں کے سامنے قضا نماز نہیں پڑھنی چاہیے اگر ان اوقات میں قضا نماز پڑھنی ہو تو ایسی جگہ پڑھے جہاں لوگ نہ دیکھیں اس لیے کہ ان اوقات میں نفل نماز ادا کرنا منع ہے اب اگر لوگوں کے سامنے قضا نماز پڑھے گا تو دیکھنے والے سمجھ جائیں گے کہ اس وقت جب کہ نفل پڑھنا جائز نہیں ہے تو یہ قضا نماز پڑھ رہا ہوگا اس سے اپنی پردہ دری لازم آئے گی کیوں کہ نماز کا قضا ہونا عیب کی بات ہے جس پر اللہ نے پردہ ڈالا ہوا ہے تو آدمی کو خود یہ عیب ظاہر کر کے اللہ کے ڈالے ہوئے پردے کو چاک نہیں کرنا چاہیے
الفتاوى الهندية میں ہے
تسعة أوقات يكره فيها النوافل وما في معناها لا الفرائض. هكذا في النهاية والكفاية فيجوز فيها قضاء الفائتة وصلاة الجنازة وسجدة التلاوة. كذا في فتاوى قاضي خان.
منها ما بعد طلوع الفجر قبل صلاة الفجر. كذا في النهاية والكفاية يكره فيه التطوع بأكثر من سنة الفجر.
(الفتاوى الهندية (1/ 52)
والله ورسوله اعلم بالصواب
سائل:- محمد ندیم رضا قادری پنجاب پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
١/ قعدہ اخیرہ میں امام سلام پھیرنے لگے اور مقتدی التحیات مکمل کرکے دعا یا درود پڑھ رہیں ہوں تو چھوڑ کر امام کے ساتھ سلام پھیرے اتباع امام واجب ہے اور اگر التحیات مکمل نہ کئے ہوں تو مکمل کریں امام کو سلام پھیرنے دیں
چونکہ قعدہ اولیٰ اور قعدہ ثانیہ بلکہ ہر قعدہ میں التحیات تشہد پڑھنا واجب ہے چاہے فرض نماز ہو یانفل اگر مقتدی تشھد پڑھ رہا ہو اور تشھد کا کچھ حصہ باقی ہو اور امام سلام پھیر دے تو مقتدی کو چاہیے کہ وہ تشھد مکمل کر کے سلام پھیر دے اور درود شریف نہ پڑھے کیونکہ امام کی اتباع کرنا واجب ہے جبکہ درود شریف پڑھنا سنت ہے
فتاوی شامی میں ہے
بخلاف سلامہ أوقیامہ لثالثۃ قبل تمام المؤتم التشہد فإنّہ لایتابعہ بل یتمہ لوجوبہ
قولہ : فإنّہ لایتابعہ الخ: وشمل بإطلاقہ مالواقتدیٰ بہ في أثناء التشہد الأول أو الأخیر فحین قعد قام إمامہ أوسلّم ومقتضاہ أنّہ یتم التشہد ثم یقوم۔
(الدر المختار مع رد المحتار (مطلب في إطالۃ الرکوع للجائي، 496/1، ط: سعید)
٢/ کسی بھی فرض نماز کے بعد یا پہلے قضا نماز پڑھ سکتے ہیں البتہ تین اوقاتِ مکروہہ
١/ سورج طلوع ہونے سے لے کر اشراق کا وقت ہونے تک
٢/ استواءِ شمس یعنی دوپہر کے وقت سورج عین سر کے اوپر آنے کے وقت سے پانچ منٹ پہلے اور پانچ منٹ بعد
٣/ اور عصر کے بعد سورج زرد پڑنے کے بعد سے لے کر غروبِ شمس تک کے علاوہ کسی بھی وقت قضا نماز پڑھی جاسکتی ہے
البتہ عصر اور فجر کی نماز کے بعد اور صبح صادق کے بعد فجر کی نماز سے پہلے لوگوں کے سامنے قضا نماز نہیں پڑھنی چاہیے اگر ان اوقات میں قضا نماز پڑھنی ہو تو ایسی جگہ پڑھے جہاں لوگ نہ دیکھیں اس لیے کہ ان اوقات میں نفل نماز ادا کرنا منع ہے اب اگر لوگوں کے سامنے قضا نماز پڑھے گا تو دیکھنے والے سمجھ جائیں گے کہ اس وقت جب کہ نفل پڑھنا جائز نہیں ہے تو یہ قضا نماز پڑھ رہا ہوگا اس سے اپنی پردہ دری لازم آئے گی کیوں کہ نماز کا قضا ہونا عیب کی بات ہے جس پر اللہ نے پردہ ڈالا ہوا ہے تو آدمی کو خود یہ عیب ظاہر کر کے اللہ کے ڈالے ہوئے پردے کو چاک نہیں کرنا چاہیے
الفتاوى الهندية میں ہے
تسعة أوقات يكره فيها النوافل وما في معناها لا الفرائض. هكذا في النهاية والكفاية فيجوز فيها قضاء الفائتة وصلاة الجنازة وسجدة التلاوة. كذا في فتاوى قاضي خان.
منها ما بعد طلوع الفجر قبل صلاة الفجر. كذا في النهاية والكفاية يكره فيه التطوع بأكثر من سنة الفجر.
(الفتاوى الهندية (1/ 52)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
29_08/2023
29_08/2023