(سوال نمبر 2036)
شوہر فوت ہو جائے تو بیوی کے لیے عدت کا کیا حکم ہے؟
کتنے دن اور کیسے عدت پوری کرے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے متعلق کہ
شوہر فوت ہو جائے تو بیوی کے لیے عدت کا کیا حکم ہے؟کتنے دن اور کیسے عدت پوری کرے پورا طریقہ تفصیل بیان کریں؟جزاک اللہ خیرا
سائلہ:- ثمرہ بتول شہر مانسہرہ صوبہ خیبر پختون پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل
شوہر کے فوت ہوجانے پر بیوی چار ماہ دس دن سوگ کے ساتھ عدت میں رہے گی اگر حاملہ یے تو عدت وضع حمل ہوگی ۔شوہر کے ساتھ جہاں تھی عدت وفات وہیں گزارے گی ۔
واضح رہے کہ عدتِ وفات اور طلاق بائن کی عدت میں سوگ کاحکم ہے سوگ کے یہ معنی ہیں کہ عورت زینت کو ترک کرے ۔اس کی تفصیل یہ ہے کہ اس دوران معتدہ کسی قسم کے زیورات نہیں پہن سکتی۔ خوشبو کا استعمال کپڑے یا بدن پر نہیں کرسکتی۔ اسی طرح تیل سے بالوں کو سنوار نہیں سکتی نہ ہی آنکھوں میں سرمہ لگا سکتی ہے۔الغرض عدت کے دوران ہر طرح کی زینت اختیار کرنا ، ناجائز ہے ، مگر یہ کہ ضرورت کی وجہ سے ہو ،مثلاً سر میں تیل نہ لگانے کی وجہ سے درد ہو ، تو تیل لگانا یا آنکھوں میں درد ہو ، تو سرمہ لگانا یوں ہی سر میں درد کی وجہ سے موٹے دندان والی طرف سے کنگھی کرنا وغیرہ کی شرعاً اجازت ہے ۔ جیسا کہ معتمد کتبِ فقہ میں موجود ہے ۔
حدیث پاک میں ہے
ام المؤمنین حضرت سیدتنا ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا جس عورت کا شوہر مر گیا ہے ، وہ نہ کُسُم کا رنگا ہوا کپڑا پہنے اور نہ گیرو کا رنگا ہوا اور نہ زیور پہنے اور نہ مہندی لگائے اور نہ سُرمہ ۔ (سنن ابوداود کتاب الطلاق باب فیما تجتنبہ۔۔۔ الخ،۲ / ۴۲۵، حدیث۲۳۰۴) (بہار شریعت،حصہ ۸، ۲ / ۲۴۱)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے شوہر کےعلاوہ دیگر رِشتہ داروں کے (اِنتقال پر) سوگ کےلیے تین دن مُقرَّر فرمائے ۔ (صحابۂ کرام کا عشقِ رسول صفحہ ۲۳۰)
جبکہ بیوی اپنے شوہر کی وَفات پر عِدَّت کی مُدّت (چار مہینے دس دن) تک سوگ میں رہے گی ۔ اَلبتّہ کسی قریبی (رِشْتہ دار) کے مرجانے پر عورت کو تین دن تک سوگ کرنے کی اِجازت ہے اس سے زائد کی (اِجازت) نہیں ۔ (ردالمحتار کتاب الطلاق، فصل فی الحداد، جلد ۵ صفحہ ۲۲۳،چشتی)
حاملہ بیوہ عورت کی عدت وضع حمل ہے یعنی اگر حاملہ عورت بیوہ ہوجائے یعنی شوہر کا انتقال اس حال میں ہوا ہو کہ بیوی کے پیٹ میں بچہ ہو، تو عدت وضع حمل ہے، ولادت کے ساتھ ہی عدت ختم ہوجائے گی،
کما قال اللہ تعالی
وَاُولاَتِ الْاَحْمَالِ اَجَلُھُنَّ اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَھُنَّ (الطلاق)
اور اگر عورت حاملہ نہ ہو تو اس کی عدت چار ماہ دس دن ہے
وَالَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ وَیَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا یَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِھِنَّ اَرْبَعَةَ اَشْھُرٍ وَّ عَشْرًا (البقرة)
یاد رہے کہ وضعِ حمل سے مراد بچے کا پیداہونا ، خواہ کم مدت میں ہو یا زیادہ ۔
حدیث پاک میں ہے۔
مسوربن مَخرمہ بیان کرتے ہیں: سُبیعہ اسلمیہ کے ہاں اُن کے شوہر کی وفات کے بعد بچے کی ولادت ہوئی ، تو وہ نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور آپ ﷺ سے کسی دوسرے شخص سے نکاح کرنے کی اجازت مانگی تو آپ ﷺ نے اُنہیں اجازت دیدی اور اُنہوں نے نکاح کرلیا (صحیح بخاری)۔
مذکورہ توضیحات سے معلوم ہوا کہ اگر حاملہ عورت شوہر کی وفات کے ترنت بعد بھی بچہ جنی پھر عدت وفات ختم ہوگئی وہ چاہے تو دوسری شادی کر سکتی ہے ۔
(كما في الدر المختار وحاشية ابن عابدين)
(وتعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) ولايخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لاتجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه". فقط واللہ اعلم
یاد رہے کہ بامرِ مجبوری عدت والی خواتین ڈیوٹی پر جاسکتی ہیں۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیثِ مبارکہ ہے کہ:
عَنْ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ يَقُولُ: طُلِّقَتْ خَالَتِي، فَأَرَادَتْ أَنْ تَجُدَّ نَخْلَهَا، فَزَجَرَهَا رَجُلٌ أَنْ تَخْرُجَ، فَأَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: بَلَى فَجُدِّي نَخْلَكِ، فَإِنَّكِ عَسَى أَنْ تَصَدَّقِي، أَوْ تَفْعَلِي مَعْرُوفًا.
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میری خالہ کو طلاق دے دی گئی تھی، انہوں نے اپنے باغ کی کھجوروں کو توڑنے کا ارادہ کیا، انہیں گھر سے باہر نکلنے پر ایک شخص نے ڈانٹا، وہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گئیں، آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیوں نہیں! تم اپنے باغ کی کھجوریں توڑ لاؤ، ہوسکتا ہے کہ تم اس میں سے صدقہ دو یا کوئی اور نیکی کرو۔
(مسلم، الصحيح، كتاب الطلاق، باب جواز خروج المعتدة البائن والمتوفي عنها زوجها في النهار لحاجتها، 2: 1121، رقم: 1483، بيروت: دار إحياء التراث العربي)
والله ورسوله اعلم بالصواب
کتنے دن اور کیسے عدت پوری کرے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے متعلق کہ
شوہر فوت ہو جائے تو بیوی کے لیے عدت کا کیا حکم ہے؟کتنے دن اور کیسے عدت پوری کرے پورا طریقہ تفصیل بیان کریں؟جزاک اللہ خیرا
سائلہ:- ثمرہ بتول شہر مانسہرہ صوبہ خیبر پختون پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل
شوہر کے فوت ہوجانے پر بیوی چار ماہ دس دن سوگ کے ساتھ عدت میں رہے گی اگر حاملہ یے تو عدت وضع حمل ہوگی ۔شوہر کے ساتھ جہاں تھی عدت وفات وہیں گزارے گی ۔
واضح رہے کہ عدتِ وفات اور طلاق بائن کی عدت میں سوگ کاحکم ہے سوگ کے یہ معنی ہیں کہ عورت زینت کو ترک کرے ۔اس کی تفصیل یہ ہے کہ اس دوران معتدہ کسی قسم کے زیورات نہیں پہن سکتی۔ خوشبو کا استعمال کپڑے یا بدن پر نہیں کرسکتی۔ اسی طرح تیل سے بالوں کو سنوار نہیں سکتی نہ ہی آنکھوں میں سرمہ لگا سکتی ہے۔الغرض عدت کے دوران ہر طرح کی زینت اختیار کرنا ، ناجائز ہے ، مگر یہ کہ ضرورت کی وجہ سے ہو ،مثلاً سر میں تیل نہ لگانے کی وجہ سے درد ہو ، تو تیل لگانا یا آنکھوں میں درد ہو ، تو سرمہ لگانا یوں ہی سر میں درد کی وجہ سے موٹے دندان والی طرف سے کنگھی کرنا وغیرہ کی شرعاً اجازت ہے ۔ جیسا کہ معتمد کتبِ فقہ میں موجود ہے ۔
حدیث پاک میں ہے
ام المؤمنین حضرت سیدتنا ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا جس عورت کا شوہر مر گیا ہے ، وہ نہ کُسُم کا رنگا ہوا کپڑا پہنے اور نہ گیرو کا رنگا ہوا اور نہ زیور پہنے اور نہ مہندی لگائے اور نہ سُرمہ ۔ (سنن ابوداود کتاب الطلاق باب فیما تجتنبہ۔۔۔ الخ،۲ / ۴۲۵، حدیث۲۳۰۴) (بہار شریعت،حصہ ۸، ۲ / ۲۴۱)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے شوہر کےعلاوہ دیگر رِشتہ داروں کے (اِنتقال پر) سوگ کےلیے تین دن مُقرَّر فرمائے ۔ (صحابۂ کرام کا عشقِ رسول صفحہ ۲۳۰)
جبکہ بیوی اپنے شوہر کی وَفات پر عِدَّت کی مُدّت (چار مہینے دس دن) تک سوگ میں رہے گی ۔ اَلبتّہ کسی قریبی (رِشْتہ دار) کے مرجانے پر عورت کو تین دن تک سوگ کرنے کی اِجازت ہے اس سے زائد کی (اِجازت) نہیں ۔ (ردالمحتار کتاب الطلاق، فصل فی الحداد، جلد ۵ صفحہ ۲۲۳،چشتی)
حاملہ بیوہ عورت کی عدت وضع حمل ہے یعنی اگر حاملہ عورت بیوہ ہوجائے یعنی شوہر کا انتقال اس حال میں ہوا ہو کہ بیوی کے پیٹ میں بچہ ہو، تو عدت وضع حمل ہے، ولادت کے ساتھ ہی عدت ختم ہوجائے گی،
کما قال اللہ تعالی
وَاُولاَتِ الْاَحْمَالِ اَجَلُھُنَّ اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَھُنَّ (الطلاق)
اور اگر عورت حاملہ نہ ہو تو اس کی عدت چار ماہ دس دن ہے
وَالَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ وَیَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا یَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِھِنَّ اَرْبَعَةَ اَشْھُرٍ وَّ عَشْرًا (البقرة)
یاد رہے کہ وضعِ حمل سے مراد بچے کا پیداہونا ، خواہ کم مدت میں ہو یا زیادہ ۔
حدیث پاک میں ہے۔
مسوربن مَخرمہ بیان کرتے ہیں: سُبیعہ اسلمیہ کے ہاں اُن کے شوہر کی وفات کے بعد بچے کی ولادت ہوئی ، تو وہ نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور آپ ﷺ سے کسی دوسرے شخص سے نکاح کرنے کی اجازت مانگی تو آپ ﷺ نے اُنہیں اجازت دیدی اور اُنہوں نے نکاح کرلیا (صحیح بخاری)۔
مذکورہ توضیحات سے معلوم ہوا کہ اگر حاملہ عورت شوہر کی وفات کے ترنت بعد بھی بچہ جنی پھر عدت وفات ختم ہوگئی وہ چاہے تو دوسری شادی کر سکتی ہے ۔
(كما في الدر المختار وحاشية ابن عابدين)
(وتعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) ولايخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لاتجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه". فقط واللہ اعلم
یاد رہے کہ بامرِ مجبوری عدت والی خواتین ڈیوٹی پر جاسکتی ہیں۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیثِ مبارکہ ہے کہ:
عَنْ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ يَقُولُ: طُلِّقَتْ خَالَتِي، فَأَرَادَتْ أَنْ تَجُدَّ نَخْلَهَا، فَزَجَرَهَا رَجُلٌ أَنْ تَخْرُجَ، فَأَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: بَلَى فَجُدِّي نَخْلَكِ، فَإِنَّكِ عَسَى أَنْ تَصَدَّقِي، أَوْ تَفْعَلِي مَعْرُوفًا.
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میری خالہ کو طلاق دے دی گئی تھی، انہوں نے اپنے باغ کی کھجوروں کو توڑنے کا ارادہ کیا، انہیں گھر سے باہر نکلنے پر ایک شخص نے ڈانٹا، وہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گئیں، آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیوں نہیں! تم اپنے باغ کی کھجوریں توڑ لاؤ، ہوسکتا ہے کہ تم اس میں سے صدقہ دو یا کوئی اور نیکی کرو۔
(مسلم، الصحيح، كتاب الطلاق، باب جواز خروج المعتدة البائن والمتوفي عنها زوجها في النهار لحاجتها، 2: 1121، رقم: 1483، بيروت: دار إحياء التراث العربي)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال