Type Here to Get Search Results !

رسول کو حاضر و ناظر سمجھنا؟ قبل اعلان نبوت حضور نے بتوں کا ذبیحہ کھایا ؟ کیا شیطان کو علم غیب ہے؟


 (سوال نمبر 4227)
رسول کو حاضر و ناظر سمجھنا؟ قبل اعلان نبوت حضور نے بتوں کا ذبیحہ کھایا ؟ کیا شیطان کو علم غیب ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎
کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین مسائل ذیل کے بارے میں 
١ زیدکہتاہے کہ رسول اللہ کوحاضر ناظر سمجھنا اہلسنت کے عقیدے کے خلاف ہے 
تو اس پر کیاحکم لگے گا
٢ راشد کہتاہے کہ نبی ﷺ نے نبوت سے پہلے بتوں کے نام کاذبیحہ کھایاہے اس پر کیاحکم لگے گا 
٣ خالد کہتاہے کہ علم غیب عطائی نبوت کی خصوصیت ہے جبکہ بکر کہتاہے کہ شیطان کو علم غیب ہے ان دونوں پر کیاحکم لگے گا بینوا وتوجرو 
مستفتی:- ابوحنیفہ بستی یوپی انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم 
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالي عز وجل 

١/ آقا علیہ السلام کو حاضر و ناظر سمجھنا عقیدہ اہل سنت کے خلاف نہیں ہے بلکہ عین اہل سنت کے مطابق ہے البتہ اللہ کو حاضر و ناظر نہیں کہنا چاہئے منع ہے
حضور اقدسﷺ اللہ عز و جل کے محبوب بندے اور پیاری مخلوق ہیں ان کے لیے مکان و زمان ثابت ہے بے شک وہ حاضر و ناظر ہیں اور بلا شبہہ خدا وند کریم مکان و زمان سے پاک ہے اس کو اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان فرماتے ہیں
وہی لا مکاں کے مکیں ہوئے سرِ عرش تخت نشیں ہوئے
وہ نبی ہے جس کے ہیں یہ مکاں وہ خدا ہے جس کا مکاں نہیں
اللہ عز وجل سمیع و بصیر، علیم و خبیر ہے ہر جگہ ہر مکان میں ہر شے کوہر وقت برابر دیکھتا سنتا جانتا ہے ہر شی کو اس کا علم محیط ہے حلف لیتے وقت جو یہ کہتے ہیں کہ خدا کو حاضر و ناظر جان کر کہیں گے اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہمارے فعل کو خدا وند کریم دیکھتا ہے ہمارے قول کو سنتا ہے یہ معنی صحیح ہیں مگر بجاے حاضر و ناظر کے شہید و بصیر کہنا چاہیے۔)(فتاوی حافظ ملت)
مفتیِ اعظم پاکستان مفتی وقار الدّین قادری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ لکھتے ہیں حاضر و ناظر کے جو معنی لُغت میں ہیں ان معانی کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی ذات پر ان الفاظ کا بولنا جائز نہیں ہے۔حاضِر کا معنی عربی لغت کی معروف و معتبر کتب المنجد اور مختار الصحاح وغیرہ میں یہ لکھے ہیں نزدیکی صحن حاضر ہونے کی جگہ جو چیز کھلم کھلا بےحجاب آنکھوں کے سامنے ہو اسے حاضر کہتے ہیں۔ اور ناظِر کے معنی مختار الصحاح میں آنکھ کے ڈھیلے کی سیاہی جبکہ نظر کے معنی کسی امر میں تفکّر و تدبّر کرنا، کسی چیز کا اندازہ کرنا اور آنکھ سے کسی چیز میں تامل کرنا لکھے ہیں۔ ان دونوں لفظوں کے لُغوی معنی کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کو پاک سمجھنا واجب ہے۔ بغیر تاویل ان الفاظ کو اللہ تعالیٰ پر نہیں بولا جاسکتا۔ اسی لئے اَسماءِ حُسنیٰ میں حاضِر و ناظِر بطورِ اسم یا صفت شامل نہیں ہیں۔ قراٰن و حدیث میں یہ الفاظ اللہ تعالیٰ کے لئے آئے ہیں اور نہ ہی صحابۂ کرام اور تابعین یا ائمۂ مجتہدین نے یہ الفاظ اللہ تعالیٰ کے لئے استعمال کئے ہیں۔(وقار الفتاویٰ، 66/1)
 فتاویٰ فیض الرّسول میں ہے 
اگر حاضر و ناظر بہ معنی شہید و بصیر اعتقاد رکھتے ہیں یعنی ہر موجود اللہ تعالیٰ کے سامنے ہے اور وہ ہر موجود کو دیکھتا ہے تو یہ عقیدہ حق ہے مگر اس عقیدے کی تعبیر لفظ حاضر و ناظر سے کرنا یعنی اللہ تعالیٰ کے بارے میں حاضر و ناظر کا لفظ استعمال کرنا نہیں چاہیے لیکن پھر بھی کوئی شخص اس لفظ کو اللہ تعالیٰ کے بارے میں بولے تو وہ کُفْر نہ ہوگا (فتاویٰ فیض الرّسول،3/1)
 اور مفتی شریفُ الحق امجدی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ لکھتے ہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کو حاضر و ناظر کہنے والا کافر تو نہیں مگر اللہ عَزَّوَجَلَّ کو حاضر و ناظر کہنا منع ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے اَسما توقیفی ہیں یعنی شریعت نے جن اسما کا اطلاق باری تعالیٰ پر کیا ہے اسی کا اطلاق دُرست اور جن اَسما کا اطلاق نہیں فرمایا ان سے احتراز چاہیے (فتاویٰ شارحِ بخاری،305/1)
٢/ راشد کا کہنا غلط ہے گناہ کبیرہ ہے توبہ و استغفار کریں اقا علیہ السلام اعلان نبوت سے پہلے دین ابراہیمی پر تھے اور دین ابراہیمی میں بھی غیر اللہ کا ذبیحہ حلال نہیں اسی طرح اقا علیہ السلام قبل اعلان نبوت بھی کبھی شرک کے قریب نہیں گئے بلکہ خالص توحید پرستی میں ریے غار حرا میں عبادت کرتے مذکورہ تصور نبوت میں نقص ماننا ہے اور نبوت میں نقص ماننا کفر یے اگر راشد اپنی بات پر قائم ہے تو خارج از اسلام ہے تجدید ایمان و نکاح کرے 
مشرکین بتوں کی عبادت کرتے تھے اور بتوں کے نام کی قربانی دیتے تھے سورہ کوثر میں نبی اکرم کی وساطت سے آپ کی امت کو توحیدِ خالص کا حکم دیا گیا کہ وہ رب العالمین جل جلالہ و عم نوالہ کے لئے عبادت کریں اور اسی کیلئے قربانی دیں۔
اللہ کی چنیدہ مخلوق ہیں۔نبی اکرمﷺ اللہ کی وحدانیت پر اس زمانے میں بھی ایمان رکھتے تھے جب لوگ شرک کی گمراہیوں میں بھٹکے ہوئے تھے اور قریش کی اکثریت کافر تھی۔اس بات پر یقین اور بھی پختہ ہو جاتا ہے جب انسان ان تاریخی واقعات کا بھی مشاہدہ کرتا ہے جو سیرت کی کتب میں منقول ہیں اور ان کا تعلق قبل از اعلان رسالت سے ہے کہ آپ دین حنیف کے پیرو تھے۔آپ ﷺ نے کبھی کسی بت کے سامنے سجدہ نہیں اس سب کے ساتھ ساتھ آپ کو پروردگار نے اخلاق حمیدہ عطا فرمائے یہاں تک کہ آپ بعثت سے پہلے ہی صادق اور امین کے لقب سے پکارے گئے۔اس وقت کے مکی معاشرے کا مشاہدہ کیا جائے تو اس میں ظالم اپنی طاقت سے محتاجوں اور کمزوروں پر ظلم کر رہے تھے۔
سیرت نبی ﷺ میں ایسے واقعات مذکور ہیں جن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آپ ﷺ بعثت سے پہلے بھی اللہ پر ایمان رکھتے تھے اور چنے ہوئے تھے۔ آپ کی زندگی میں پروردگار کے متعلق کوئی شک و شبہ نہ تھا بلکہ آپ پیدائش کے ساتھ ہی کامل ایمان کے ساتھ دنیا میں تشریف لائے اور اپنے رب کوجانتے تھے 
 آپﷺ کا لات اور عزی سے نفرت کرنا اور ان دونوں پر قسم نہ اٹھانا
جب آپﷺ اپنے چچا حضرت ابوطالبؑ کے ساتھ شام کا سفر کر رہے تھے اور یہ آپ کا پہلا سفر تھا اور آپ کو راستے میں ایک راہب ملا تھا جس کا نام بحیرا بیان کیا جاتا ہے۔اس نے پوچھا تھا اے جوان لات اور عزی کے واسطے مجھے وہ بتاو گے جو میں تم سے دریافت کروں؟ آپﷺ نے فرمایازتم مجھ سے لات اور عزی کے ذریعے سوال نہ کرو،خدا کی قسم میں ان سے زیادہ کسی چیز نفرت نہیں کرتا جتنی ان دونوں سے کرتا ہوں۔اس پر اس بحیرا نامی راہب نے کہا تمہیں اللہ کی قسم تم مجھے ان سوالات کے جواب دو جو میں تم سے پوچھوں؟ اس پر آپﷺ تم مجھ سے پوچھو جس کا آغاز تم نام خدا سے کر رہے ہو۔
اسی طرح کا ایک اور واقعہ بھی بیان کیا جاتا ہے جس میں آپﷺ شام ہی تشریف لے جا رہے تھے اور آپ ﷺ کے پاس کافی سامان تجارت بھی تھا۔ آپ ﷺ سے کہا گیا کہ لات و عزی کی قسم اٹھائیں۔آپﷺ نے فرمایا میں کبھی بھی ان دونوں کی قسم نہیں اٹھاوں گا،مجھے ان سے دوری کا حکم دیا گیا ہے۔بعض روایات میں ہے کہ آپ ﷺ فرمایا کہ تیری ماں تیرے غم میں روئے اور یہ کلام عرب میں کسی کے لیے کہنا بڑی بات ہے۔پھر اس بندے نے کہا کہ آپ کی بات ہی معتبر ہے۔پھر اس شخص نے حضرت خدیجہؑ کے غلام میسرہ جو کہ تجارت میں حضرت خدیجہ کی طرف سے آیا اس سے کہا کہ خدا کی قسم یہ نبی ہیں
٣/شیطان و جن کو علم غیب ماننا کفر ہے 
میرے آقا اعلیٰ حضرت اِمامِ اَہلسنّت مولیٰناشاہ امام اَحمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں حاضِرات کرکے مُوَکَّلَان جِنّ سے (آئندہ کی باتیں) پوچھتے ہیں فُلاں مقدمہ میں کیا ہوگا ؟ فُلاں کام کا انجام کیا ہوگا ؟ یہ حرام ہے ۔ جِنّ غیب سے نِرے یعنی مکمَّل طور پر جاہِل ہیں ان سے آئندہ کی بات پوچھنی عَقلاً حماقت اور شرعاً حرام اور ان کی غیب دانی کا اِعتِقاد ہو تو یعنی یہ عقیدہ رکھنا کہ جِنّ کو علمِ غیب ہے یہ کُفرہے (فتاویٰ افریقہ، ص۱۷۸) (بحوالہ کفریہ کلمات ص 71 دعوت اسلامی)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
29/08/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area