(سوال نمبر 7042)
قرب الٰہی کیسے حاصل کیا جائے؟
_________(❤️)_________
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
قرب الٰہی کیسے حاصل کیا جائے؟
_________(❤️)_________
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ قریب الہی کا ذریعہ کیا ہے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں ۔
سائل:- حافظ محمد سالک رضا نوری انڈیا
_________(👇)_________
نحمده ونشكره و نصلي علي رسوله الأمين الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
قرب الہی اور محبت الہی اور رضائے الہی حاصل کرنے کا سہل و آسان طریقہ یہ ہے کہ وقت پر فرائض و واجبات کی ادائیگی کے ساتھ نوافل پر دوام اختیار کی جائے صحیح حدیث میں ہے
قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم إِنَّ اللّٰہَ قَالَ مَنْ عَادٰی لِيْ وَلِیًّا فَقَدْ آذَنْتُہٗ بِالْحَرْبِ۔ وَمَا تَقَرَّبَ إِلَيَّ عَبْدِيْ بِشَيْئٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِمَّا افْتَرَضْتُہٗ عَلَیْہِ۔ وَمَا یَزَالُ عَبْدِيْ یَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتّٰی أُحِبَّہُ، فَإِذَا أَحْبَبْتُہُ کُنْتُ سَمْعَہُ الَّذِيْ یَسْمَعُ بِہِ وَبَصَرَہُ الَّذِيْ یُبْصِرُ بِہِ وَیَدَہُ الَّتِيْ یَبْطِشُ بِھَا وَرِجْلَہُ الَّتِيْ یَمْشِيْ بِھَا، وَإِنْ سَأَلَنِيْ لَأَعْطِیَنَّہُ، وَلَــِٔنِ اسْتَعَاذَ بِيْ لَأُعِیْذَنَّہُ وَمَا تَرَدَّدْتُّ عَنْ شَيْئٍ أَنَا فَاعِلُہُ تَرَّدُدِيْ عَنْ نَفْسِ الْمُؤْمِنِ یَکْرَہُ الْمَوْتَ وَأَنَا أَکْرَہُ مَسَائَ تَہُ۔
_________(👇)_________
نحمده ونشكره و نصلي علي رسوله الأمين الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
قرب الہی اور محبت الہی اور رضائے الہی حاصل کرنے کا سہل و آسان طریقہ یہ ہے کہ وقت پر فرائض و واجبات کی ادائیگی کے ساتھ نوافل پر دوام اختیار کی جائے صحیح حدیث میں ہے
قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم إِنَّ اللّٰہَ قَالَ مَنْ عَادٰی لِيْ وَلِیًّا فَقَدْ آذَنْتُہٗ بِالْحَرْبِ۔ وَمَا تَقَرَّبَ إِلَيَّ عَبْدِيْ بِشَيْئٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِمَّا افْتَرَضْتُہٗ عَلَیْہِ۔ وَمَا یَزَالُ عَبْدِيْ یَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتّٰی أُحِبَّہُ، فَإِذَا أَحْبَبْتُہُ کُنْتُ سَمْعَہُ الَّذِيْ یَسْمَعُ بِہِ وَبَصَرَہُ الَّذِيْ یُبْصِرُ بِہِ وَیَدَہُ الَّتِيْ یَبْطِشُ بِھَا وَرِجْلَہُ الَّتِيْ یَمْشِيْ بِھَا، وَإِنْ سَأَلَنِيْ لَأَعْطِیَنَّہُ، وَلَــِٔنِ اسْتَعَاذَ بِيْ لَأُعِیْذَنَّہُ وَمَا تَرَدَّدْتُّ عَنْ شَيْئٍ أَنَا فَاعِلُہُ تَرَّدُدِيْ عَنْ نَفْسِ الْمُؤْمِنِ یَکْرَہُ الْمَوْتَ وَأَنَا أَکْرَہُ مَسَائَ تَہُ۔
(البخاري في کتاب الرقاق، باب: التواضع، رقم: ۶۵۰۲)
سیّدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ جل شانہ فرماتا ہے جو شخص میرے کسی ولی سے دشمنی رکھے گا میں اس کو یہ خبر کیے دیتا ہوں کہ میں اس سے لڑوں گا اور میرا بندہ جن جن عبادتوں سے میرا قرب حاصل کرتا ہے ان میں کوئی بھی عبادت مجھے اس عبادت سے زیادہ پسند نہیں ہے جو میں نے اس پر فرض کی ہے (اس کے نفلی امور، اللہ کو اس کے فرضی امور سے زیادہ پسند ہیں) اور میرا بندہ (فرض ادا کرنے کے بعد) نفل عبادتیں کرکے مجھ سے اتنا نزدیک ہوجاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں پھر تو یہ حال ہوتا ہے کہ میں ہی اس کا کان ہوتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھ ہوتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ ہوتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پاؤں ہوتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے وہ اگر مجھ سے کچھ مانگتا ہے تو میں اس کو دیتا ہوں وہ اگر کسی (دشمن یا شیطان) سے میری پناہ چاہتا ہے تو اس کو محفوظ رکھتا ہوں اور مجھے کسی کام میں جس کو میں کرنا چاہتا ہوں اتنا تردد نہیں ہوتا جتنا اپنے مسلمان بندے کی جان نکالنے میں ہوتا ہے۔ وہ تو موت کو (بوجہ تکلیف جسمانی کے) برا سمجھتا ہے اور مجھے بھی اس کو تکلیف دینا برا لگتا ہے۔
یاد رہے کہ نوافل سے قرب الٰہی حاصل کرنے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے عائد کردہ فرائض مثلاً نماز، روزہ، حج، زکاۃ وغیرہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ نوافل کی ادائیگی پر بھی دوام کرتے ہیں
فرائض کی ادائیگی اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہے اور ان کو ترک کرنے پر سزا کا اعلان بھی ہے بخلاف نوافل کے لیکن اگر ثواب کی تحصیل میں فرائض کے ساتھ ساتھ نوافل بھی شامل ہوجائیں تو فرائض کی وقعت دو چند ہوجاتی ہے اسی وجہ سے نوافل اللہ تعالیٰ کو محبوب لگتے ہیں اور اس کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں چنانچہ فرض کی حیثیت بنیاد کی ہے اور نفل کی عمارت کی سی فرائض کی شریعت کے مطابق ادائیگی اللہ تعالیٰ کے قرب کا سب سے بڑا عمل ہے کیونکہ ان کو پورا کرنے والا اللہ تعالیٰ کی سزا سے ڈرتے ہوئے بجا لاتا ہے لیکن رہا نوافل ادا کرنے والا تو وہ محبت الہی رضائے الٰہی کے لئے پڑھتا ہے
نوافل کے ذریعہ قرب حاصل کرنے کا مقصود اللہ کا پیار اس کو مل جاتا ہے
مذکورہ حدیث سے نماز کی قدر و منزلت بھی واضح ہوتی ہے اور چونکہ یہ اللہ تعالیٰ سے سرگوشی اور قرب کا محل ہے اور اس وقت اللہ اور اس کے بندے کے درمیان کوئی واسطہ نہیں ہوتا اس لیے اس سے اللہ کی محبت پیدا ہوتی ہے۔
بندے کی آنکھوں کو نماز سے بڑھ کر کوئی چیز ٹھنڈا نہیں کرسکتی
آقا علیہ السلام نے فرمایا
حُبِّبَ إِلَيَّ مِنْ دُنْیَاکُمْ؛ أَلنِّسَائُ وَالطِّیْبُ وَجُعِلَتْ قُرَّۃُ عَیْنِيْ فِيْ الصَّلَاۃِ۔
سیّدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ جل شانہ فرماتا ہے جو شخص میرے کسی ولی سے دشمنی رکھے گا میں اس کو یہ خبر کیے دیتا ہوں کہ میں اس سے لڑوں گا اور میرا بندہ جن جن عبادتوں سے میرا قرب حاصل کرتا ہے ان میں کوئی بھی عبادت مجھے اس عبادت سے زیادہ پسند نہیں ہے جو میں نے اس پر فرض کی ہے (اس کے نفلی امور، اللہ کو اس کے فرضی امور سے زیادہ پسند ہیں) اور میرا بندہ (فرض ادا کرنے کے بعد) نفل عبادتیں کرکے مجھ سے اتنا نزدیک ہوجاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں پھر تو یہ حال ہوتا ہے کہ میں ہی اس کا کان ہوتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھ ہوتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ ہوتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پاؤں ہوتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے وہ اگر مجھ سے کچھ مانگتا ہے تو میں اس کو دیتا ہوں وہ اگر کسی (دشمن یا شیطان) سے میری پناہ چاہتا ہے تو اس کو محفوظ رکھتا ہوں اور مجھے کسی کام میں جس کو میں کرنا چاہتا ہوں اتنا تردد نہیں ہوتا جتنا اپنے مسلمان بندے کی جان نکالنے میں ہوتا ہے۔ وہ تو موت کو (بوجہ تکلیف جسمانی کے) برا سمجھتا ہے اور مجھے بھی اس کو تکلیف دینا برا لگتا ہے۔
یاد رہے کہ نوافل سے قرب الٰہی حاصل کرنے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے عائد کردہ فرائض مثلاً نماز، روزہ، حج، زکاۃ وغیرہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ نوافل کی ادائیگی پر بھی دوام کرتے ہیں
فرائض کی ادائیگی اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہے اور ان کو ترک کرنے پر سزا کا اعلان بھی ہے بخلاف نوافل کے لیکن اگر ثواب کی تحصیل میں فرائض کے ساتھ ساتھ نوافل بھی شامل ہوجائیں تو فرائض کی وقعت دو چند ہوجاتی ہے اسی وجہ سے نوافل اللہ تعالیٰ کو محبوب لگتے ہیں اور اس کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں چنانچہ فرض کی حیثیت بنیاد کی ہے اور نفل کی عمارت کی سی فرائض کی شریعت کے مطابق ادائیگی اللہ تعالیٰ کے قرب کا سب سے بڑا عمل ہے کیونکہ ان کو پورا کرنے والا اللہ تعالیٰ کی سزا سے ڈرتے ہوئے بجا لاتا ہے لیکن رہا نوافل ادا کرنے والا تو وہ محبت الہی رضائے الٰہی کے لئے پڑھتا ہے
نوافل کے ذریعہ قرب حاصل کرنے کا مقصود اللہ کا پیار اس کو مل جاتا ہے
مذکورہ حدیث سے نماز کی قدر و منزلت بھی واضح ہوتی ہے اور چونکہ یہ اللہ تعالیٰ سے سرگوشی اور قرب کا محل ہے اور اس وقت اللہ اور اس کے بندے کے درمیان کوئی واسطہ نہیں ہوتا اس لیے اس سے اللہ کی محبت پیدا ہوتی ہے۔
بندے کی آنکھوں کو نماز سے بڑھ کر کوئی چیز ٹھنڈا نہیں کرسکتی
آقا علیہ السلام نے فرمایا
حُبِّبَ إِلَيَّ مِنْ دُنْیَاکُمْ؛ أَلنِّسَائُ وَالطِّیْبُ وَجُعِلَتْ قُرَّۃُ عَیْنِيْ فِيْ الصَّلَاۃِ۔
(صحیح الجامع الصغیر، رقم: ۳۱۱۹)
مجھے تمہاری دنیا میں سے عورتیں اور خوشبو پیاری ہیں اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے
جس چیز میں کسی کی ٹھنڈک ہو تو وہ اسے چھوڑنے کی خواہش ہرگز نہیں کرے گا کیونکہ اس میں اسے اپنی راحت کا سامان نظر آتا ہے۔ چونکہ عبادت گزار فتور و آفات کا نشانہ ہوتا ہے اس لیے وہ اللہ کی محبت تھکاوٹوں پر صبر کے ساتھ حاصل کرسکتا ہے،اللہ تعالیٰ کی معرفت محبت اور سلوک میں یہ حدیث بنیادی حیثیت کی حامل ہے کیونکہ باطنی فرائض، ایمان اور ظاہری فرائض اسلام ہیں اور ان دونوں کا مجموعہ احسان کہلاتا ہے جیسا کہ حدیث جبریل میں ہے نیز احسان اپنے تحت سالکین کے مقامات زہد اخلاص، مراقبہ وغیرہ لیے ہوتا ہے
اس حدیث سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ جو انسان فرائض کے ساتھ ساتھ نوافل کو بھی بجا لاتا ہے اس کی دعا کی قبولیت کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے یہ بات بھی ہے کہ گو بندہ اعلیٰ درجات پر فائز ہو بھی جائے تو اللہ تعالیٰ سے اس کا مانگنا منقطع نہیں ہوتا کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کے سامنے تواضع اور انکساری اور عبودیت کا اظہار ہے۔
یَتَقَرَّبُ إِلَيَّ.
تقرب کا معنی ہے قرب طلب کرنا۔ کہا گیا ہے کہ شروع میں اللہ تعالیٰ کا قرب بندے کو ایمان کی وجہ سے ملتا ہے پھر احسان کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا اپنے بندے کے قریب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں بندے کو اللہ کی پہچان حاصل ہوتی اور آخرت میں اس کی خوشنودی مل جاتی ہے اور ان کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم اور احسانات بھی حاصل ہوجاتے ہیں۔
بندہ حق کے اسی وقت مکمل طور پر قریب ہوسکتا ہے جب وہ مخلوق سے دوری اختیار کرے گا۔ اللہ تعالیٰ اپنے علم اور قدرت کے اعتبار سے تمام لوگوں کے قریب ہے لیکن خواص الناس کے قریب نصرت اور لطف کے اعتبار سے ہے اور اولیاء سے انس و محبت کے لحاظ سے۔
چنانچہ جب بندہ اپنے اللہ تعالیٰ کا محبوب بن جاتا ہے تو اللہ اس کی شیطان سے حفاظت کرتا اور اس کے اعضاء کو اپنی اطاعت میں لگا دیتا ہے۔ قرآن و ذکر کا سماع اسے دل میں مزین محبوب کردیتا ہے اور گانا اور آلات لہو کا سماع اس کی طرف مبغوض کردیتا ہے اور ان لوگوں میں اس کا شمار ہوجاتا ہے جن کے حق میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا
وَإِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ أَعْرَضُوْا عَنْہُ (القصص:۵۵)
اور جب وہ لغو سنتے ہیں (تو) اس سے اعراض کرتے ہیں۔
دوسرے مقام پر فرمایا
{وَّإِِذَا خَاطَبَہُمُ الْجَاہِلُوْنَ قَالُوْا سَلَامًا (الفرقان:۶۳)
اور جب ان سے جاہل لوگ ہم کلام ہوتے ہیں (تو وہ ان کو) سلام کہہ دیتے ہیں۔
ان آیات سے معلوم ہوا کہ اس طرح کے لوگ فحش و بے حیائی سے سلامتی والی بات کرتے ہوئے اعراض کرجاتے ہیں اور محارم سے اپنی نظر کو بچاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی نظر غوروفکر والی ہوجاتی ہے
جب انسان دنیا کی پیدا شدہ اشیاء کے ذریعہ خالق کی قدرت میں غورو فکر کی طاقت اور عبور حاصل کرلیتا ہے تو ایسے مشاہدہ پر اللہ کی تسبیح و تقدیس سے کام لیتا ہے اور اس کے ہاتھوں اور پاؤں سے ایسی حرکات سرزد ہوتی ہیں جو ساری کی ساری اللہ تعالیٰ کے لیے ہوتی ہیں اور فضول کاموں کے لیے نہ تو چلتا ہے اور نہ ہی اپنے ہاتھوں کو کام میں لاتا ہے۔ چنانچہ جب کسی بندے کی یہ حالت ہوجاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اسے ہاتھ پاؤں کی حرکات و سکنات اور تمام افعال میں ثواب سے نوازتا ہے۔
بِالنَّوَافِلَ حَتَّی أُحِبَّہٗ
یعنی جب آدمی نوافل کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتا رہتا ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو وہ پیارا لگنا شروع ہوجاتا ہے۔
نوافل سے مراد وہ زائد عبادت ہے جو کہ فرائض پر حاوی اور ان کو مکمل کرنے والی ہے۔
حدیث کا یہ معنی بھی کیا جاتا ہے کہ جب انسان فرائض کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ نوافل پر ہمیشگی کرتا ہے تو یہ کام اسے اللہ تعالیٰ کی محبت کی طرف پہنچا دیتا ہے یہ بات مشاہدہ میں بھی آئی ہے کہ جب انسان کسی کو واجب چیز ادا کرتا ہے یعنی کسی انسان کا قرض وغیرہ ادا کردے تو اتنا قریب نہیں ہوتا جتنا کہ اسے غیر واجب چیز یعنی ہدیہ و تحفہ وغیرہ دینے سے ہوتا ہے۔
نوافل کو مشروع قرار دینے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ فرائض کی کمی پوری ہوجائے تو بات واضح ہوگئی کہ نوافل کے ذریعہ تقرب اسی کو ملے گا جو فرائض کو بھی ادا کرتا ہوگا نہ کہ اسے جو ان کو چھوڑتا رہتا ہے۔ مثلاً بعض اکابرین کا قول ہے کہ جس انسان کو فرائض نوافل کے ادا کرنے سے مشغول کردیں تو وہ معذور سمجھا جائے گا مگر جسے نوافل کی ادائیگی فرائض سے مشغول کردے تو وہ مغرور سمجھا جائے گا۔
کُنْتُ سَمْعُہٗ الَّذِیْ یَسْمَعُ بِہٖ...الخ: اس مقام پر یہ اشکال پیش کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آدمی کے ہاتھ پاؤں وغیرہ کیسے بن سکتا ہے؟
اس کے کئی طرق سے جواب دیے جاتے ہیں۔
(1) یہ ایک تمثیل ہے معنی یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے چونکہ اس نے میرے معاملہ میں ایثار کیا اس لیے میں اس کا کان اور آنکھ وغیرہ بن گیا اور جیسے یہ جوارح کو پسند کرتا ہے ایسے ہی میری اطاعت کو محبوب جانتا اور میری خدمت کو ترجیح دیتا ہے۔
(2) بندہ تمام کا تمام میرے ساتھ مشغول ہے چنانچہ اس کا کان میری رضا مندی کی بات کی طرف ہی جھکتا ہے اور اس کی آنکھ وہی چیز دیکھتی ہے جسے دیکھنے کا میں حکم دیتا ہوں۔
(3) میں اس کے مقاصد پورے کردوں گا یعنی گویا کہ وہ اپنے کان اور آنکھ وغیرہ سے اپنے مقاصد حاصل کرلے گا۔
(4) میں اس کی مدد ایسے ہی کروں گا جیسے دشمن کے مقابلہ میں اس کے کان، آنکھ، ہاتھ اور پاؤں وغیرہ مدد کرتے ہیں۔
(5) میں اس کے کانوں اور آنکھوں کا محافظ بن جاؤں گا اور وہ ان سے وہی کام لے گا جو حلال ہے۔
(6) صرف میرا ذکر سنے گا اور لذت بھی صرف میری کتاب کی تلاوت سے حاصل کرے گا۔ وہ میری مناجات کو پسند کرے گا اور اس کے مدنظر صرف اور صرف میری بادشاہت کے عجائبات ہی ہوں گے، نیز اپنے ہاتھ پاؤں کا استعمال میری پسندیدہ جگہوں میں ہی کرے گا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ جن علماء کا قول معتبر ہے ان کا اتفاق ہے کہ بندے کی نصرت و تائید سے کنایہ ہے
امام خطابی رحمہ اللہ کے بقول یہ ایک مثال ہے اور اس کا معنی ہے کہ اللہ تعالیٰ بندے کو ان اعمال کی توفیق بخشتا ہے جو ان اعضاء سے ادا کیے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان جوارح کی حفاظت فرماتا ہے یعنی غلط سننے اور دیکھنے اور حرام پکڑنے اور باطل کی طرف چلنے سے انہیں محفوظ رکھتا ہے۔
(7) امام خطابی کا ہی قول ہے: اس سے بندے کی دعاء کے قبول ہونے کی تیزی اور مطلوب کے حصول کی تیزی مراد ہے کیوں کہ انسان کی تمام مساعی انہی اعضاء اور جوارح کے ساتھ ہوتی ہے۔
مجھے تمہاری دنیا میں سے عورتیں اور خوشبو پیاری ہیں اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے
جس چیز میں کسی کی ٹھنڈک ہو تو وہ اسے چھوڑنے کی خواہش ہرگز نہیں کرے گا کیونکہ اس میں اسے اپنی راحت کا سامان نظر آتا ہے۔ چونکہ عبادت گزار فتور و آفات کا نشانہ ہوتا ہے اس لیے وہ اللہ کی محبت تھکاوٹوں پر صبر کے ساتھ حاصل کرسکتا ہے،اللہ تعالیٰ کی معرفت محبت اور سلوک میں یہ حدیث بنیادی حیثیت کی حامل ہے کیونکہ باطنی فرائض، ایمان اور ظاہری فرائض اسلام ہیں اور ان دونوں کا مجموعہ احسان کہلاتا ہے جیسا کہ حدیث جبریل میں ہے نیز احسان اپنے تحت سالکین کے مقامات زہد اخلاص، مراقبہ وغیرہ لیے ہوتا ہے
اس حدیث سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ جو انسان فرائض کے ساتھ ساتھ نوافل کو بھی بجا لاتا ہے اس کی دعا کی قبولیت کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے یہ بات بھی ہے کہ گو بندہ اعلیٰ درجات پر فائز ہو بھی جائے تو اللہ تعالیٰ سے اس کا مانگنا منقطع نہیں ہوتا کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کے سامنے تواضع اور انکساری اور عبودیت کا اظہار ہے۔
یَتَقَرَّبُ إِلَيَّ.
تقرب کا معنی ہے قرب طلب کرنا۔ کہا گیا ہے کہ شروع میں اللہ تعالیٰ کا قرب بندے کو ایمان کی وجہ سے ملتا ہے پھر احسان کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا اپنے بندے کے قریب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں بندے کو اللہ کی پہچان حاصل ہوتی اور آخرت میں اس کی خوشنودی مل جاتی ہے اور ان کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم اور احسانات بھی حاصل ہوجاتے ہیں۔
بندہ حق کے اسی وقت مکمل طور پر قریب ہوسکتا ہے جب وہ مخلوق سے دوری اختیار کرے گا۔ اللہ تعالیٰ اپنے علم اور قدرت کے اعتبار سے تمام لوگوں کے قریب ہے لیکن خواص الناس کے قریب نصرت اور لطف کے اعتبار سے ہے اور اولیاء سے انس و محبت کے لحاظ سے۔
چنانچہ جب بندہ اپنے اللہ تعالیٰ کا محبوب بن جاتا ہے تو اللہ اس کی شیطان سے حفاظت کرتا اور اس کے اعضاء کو اپنی اطاعت میں لگا دیتا ہے۔ قرآن و ذکر کا سماع اسے دل میں مزین محبوب کردیتا ہے اور گانا اور آلات لہو کا سماع اس کی طرف مبغوض کردیتا ہے اور ان لوگوں میں اس کا شمار ہوجاتا ہے جن کے حق میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا
وَإِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ أَعْرَضُوْا عَنْہُ (القصص:۵۵)
اور جب وہ لغو سنتے ہیں (تو) اس سے اعراض کرتے ہیں۔
دوسرے مقام پر فرمایا
{وَّإِِذَا خَاطَبَہُمُ الْجَاہِلُوْنَ قَالُوْا سَلَامًا (الفرقان:۶۳)
اور جب ان سے جاہل لوگ ہم کلام ہوتے ہیں (تو وہ ان کو) سلام کہہ دیتے ہیں۔
ان آیات سے معلوم ہوا کہ اس طرح کے لوگ فحش و بے حیائی سے سلامتی والی بات کرتے ہوئے اعراض کرجاتے ہیں اور محارم سے اپنی نظر کو بچاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی نظر غوروفکر والی ہوجاتی ہے
جب انسان دنیا کی پیدا شدہ اشیاء کے ذریعہ خالق کی قدرت میں غورو فکر کی طاقت اور عبور حاصل کرلیتا ہے تو ایسے مشاہدہ پر اللہ کی تسبیح و تقدیس سے کام لیتا ہے اور اس کے ہاتھوں اور پاؤں سے ایسی حرکات سرزد ہوتی ہیں جو ساری کی ساری اللہ تعالیٰ کے لیے ہوتی ہیں اور فضول کاموں کے لیے نہ تو چلتا ہے اور نہ ہی اپنے ہاتھوں کو کام میں لاتا ہے۔ چنانچہ جب کسی بندے کی یہ حالت ہوجاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اسے ہاتھ پاؤں کی حرکات و سکنات اور تمام افعال میں ثواب سے نوازتا ہے۔
بِالنَّوَافِلَ حَتَّی أُحِبَّہٗ
یعنی جب آدمی نوافل کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتا رہتا ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو وہ پیارا لگنا شروع ہوجاتا ہے۔
نوافل سے مراد وہ زائد عبادت ہے جو کہ فرائض پر حاوی اور ان کو مکمل کرنے والی ہے۔
حدیث کا یہ معنی بھی کیا جاتا ہے کہ جب انسان فرائض کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ نوافل پر ہمیشگی کرتا ہے تو یہ کام اسے اللہ تعالیٰ کی محبت کی طرف پہنچا دیتا ہے یہ بات مشاہدہ میں بھی آئی ہے کہ جب انسان کسی کو واجب چیز ادا کرتا ہے یعنی کسی انسان کا قرض وغیرہ ادا کردے تو اتنا قریب نہیں ہوتا جتنا کہ اسے غیر واجب چیز یعنی ہدیہ و تحفہ وغیرہ دینے سے ہوتا ہے۔
نوافل کو مشروع قرار دینے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ فرائض کی کمی پوری ہوجائے تو بات واضح ہوگئی کہ نوافل کے ذریعہ تقرب اسی کو ملے گا جو فرائض کو بھی ادا کرتا ہوگا نہ کہ اسے جو ان کو چھوڑتا رہتا ہے۔ مثلاً بعض اکابرین کا قول ہے کہ جس انسان کو فرائض نوافل کے ادا کرنے سے مشغول کردیں تو وہ معذور سمجھا جائے گا مگر جسے نوافل کی ادائیگی فرائض سے مشغول کردے تو وہ مغرور سمجھا جائے گا۔
کُنْتُ سَمْعُہٗ الَّذِیْ یَسْمَعُ بِہٖ...الخ: اس مقام پر یہ اشکال پیش کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آدمی کے ہاتھ پاؤں وغیرہ کیسے بن سکتا ہے؟
اس کے کئی طرق سے جواب دیے جاتے ہیں۔
(1) یہ ایک تمثیل ہے معنی یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے چونکہ اس نے میرے معاملہ میں ایثار کیا اس لیے میں اس کا کان اور آنکھ وغیرہ بن گیا اور جیسے یہ جوارح کو پسند کرتا ہے ایسے ہی میری اطاعت کو محبوب جانتا اور میری خدمت کو ترجیح دیتا ہے۔
(2) بندہ تمام کا تمام میرے ساتھ مشغول ہے چنانچہ اس کا کان میری رضا مندی کی بات کی طرف ہی جھکتا ہے اور اس کی آنکھ وہی چیز دیکھتی ہے جسے دیکھنے کا میں حکم دیتا ہوں۔
(3) میں اس کے مقاصد پورے کردوں گا یعنی گویا کہ وہ اپنے کان اور آنکھ وغیرہ سے اپنے مقاصد حاصل کرلے گا۔
(4) میں اس کی مدد ایسے ہی کروں گا جیسے دشمن کے مقابلہ میں اس کے کان، آنکھ، ہاتھ اور پاؤں وغیرہ مدد کرتے ہیں۔
(5) میں اس کے کانوں اور آنکھوں کا محافظ بن جاؤں گا اور وہ ان سے وہی کام لے گا جو حلال ہے۔
(6) صرف میرا ذکر سنے گا اور لذت بھی صرف میری کتاب کی تلاوت سے حاصل کرے گا۔ وہ میری مناجات کو پسند کرے گا اور اس کے مدنظر صرف اور صرف میری بادشاہت کے عجائبات ہی ہوں گے، نیز اپنے ہاتھ پاؤں کا استعمال میری پسندیدہ جگہوں میں ہی کرے گا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ جن علماء کا قول معتبر ہے ان کا اتفاق ہے کہ بندے کی نصرت و تائید سے کنایہ ہے
امام خطابی رحمہ اللہ کے بقول یہ ایک مثال ہے اور اس کا معنی ہے کہ اللہ تعالیٰ بندے کو ان اعمال کی توفیق بخشتا ہے جو ان اعضاء سے ادا کیے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان جوارح کی حفاظت فرماتا ہے یعنی غلط سننے اور دیکھنے اور حرام پکڑنے اور باطل کی طرف چلنے سے انہیں محفوظ رکھتا ہے۔
(7) امام خطابی کا ہی قول ہے: اس سے بندے کی دعاء کے قبول ہونے کی تیزی اور مطلوب کے حصول کی تیزی مراد ہے کیوں کہ انسان کی تمام مساعی انہی اعضاء اور جوارح کے ساتھ ہوتی ہے۔
(فتح الباری، ص: ۳۴۳، ۱۱۔ شرح متن الاربعین النوویۃ، ص: ۱۲۷)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
12/08/2023