(سوال نمبر 273)
یک زمانہ صحبت با اولیاء بہتر از صد سالہ طاعت بے ریا
اس شعر کا مطلب کیا ہے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
یک زمانہ صحبت با اولیاء، بہتر از صد سالہ طاعت بے ریاء
اس شعر میں مولانا جلال الدین رومی علیہ الرحمہ نے کس حدیث شریف کی طرف اشارہ فرمایا ہے اور کونسی آیت قرآنی کی تشریح فرمائی ہے بحوالہ جواب عنایت فرمائیں کرم ہوگا ؟
سائل:- محمد تیسیر الدین تحسین رضا القادری الرفاعی غفرلہ القوی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل
مسئلہ مسئولہ میں علامہ رومی کا اس شعر میں معنا کتاب و سنت دونوں کی طرف اشارہ بیان ہے
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ(۱۱۹)
اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو جائو
(یعنی نیک لوگوں کی صحبت اختیار کروں )
علامہ رومی فرماتے ہیں
یک زمانہ صحبت با اولیا
بہتر از صد سالہ طاعت بے ریا
اللہ کے ولی کی صحبت کے چند لمحے
سو سال کی بے ریا عبادت سے بھی بہتر ہے۔
سابقہ امت کا کوئی شخص اللہ کے ولیوں کی طرف جارہا تھا اور راستہ میں اس کا انتقال ہوگیا ، اور اسے رحمت کے فرشتے لے گئے۔ جبکہ وہ سو آدمیوں کا قاتل تھا ،
غار میں اللہ تعالی اصحاب کہف کو دائیں اور بائیں بدلتا تھا اسی طرح ان کی صحبت میں رہنے والے کتے کا بھی ۔
تین سو نو سال کے بعد بھی اصحاب کہف اللہ کے ولی غار میں صحیح و سلامت رہے ان ولیوں کی صحبت میں رہنے والا کتا بھی تین سو نو سال کے بعد صحیح و سلامت رہا ۔
نیز قرآن پاک میں جہاں جہاں اصحاب کہف اللہ کے ولیوں کا ذکر آیا انکی صحبت میں رہنے والے کتے کا بھی ذکر آیا ۔معلوم ہوا کہ صحبت اولیاء صاحب صحبت کو چند لمحوں میں کہاں سے کہاں پہنچا دیتی ہے
مگر ریا اور دیکھا وا کرنے والے انسان (شہید، عالم، سخی) زندگی بھر نیکی کرنے کے بعد بھی گھسیٹ کر دوزخ میں ڈال دئے جائیں گے۔
جیسا کہ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے
صحیح بخاری ، صحیح مسلم ، سنن ابن ماجہ ، مسند امام احمد ،مصنف ابن ابی شیبہ ،سنن کبری للبیہقی ،معجم کبیر طبرانی ، شعب الایمان للبیہقی ،مسند ابو یعلی ،صحیح ابن حبان ،جامع الاحادیث للسیوطی ، الجامع الکبیر للسیوطی اور کنز العمال وغیرہ میں موجود ہے:
عَنْ أَبِى سَعِيدٍ - رضى الله عنه - عَنِ النَّبِىِّ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ كَانَ فِى بَنِى إِسْرَائِيلَ رَجُلٌ قَتَلَ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ إِنْسَانًا ثُمَّ خَرَجَ يَسْأَلُ ، فَأَتَى رَاهِبًا فَسَأَلَهُ ، فَقَالَ لَهُ هَلْ مِنْ تَوْبَةٍ قَالَ لاَ . فَقَتَلَهُ ، فَجَعَلَ يَسْأَلُ ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ ائْتِ قَرْيَةَ كَذَا وَكَذَا . فَأَدْرَكَهُ الْمَوْتُ فَنَاءَ بِصَدْرِهِ نَحْوَهَا ، فَاخْتَصَمَتْ فِيهِ مَلاَئِكَةُ الرَّحْمَةِ وَمَلاَئِكَةُ الْعَذَابِ ، فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَى هَذِهِ أَنْ تَقَرَّبِى . وَأَوْحَى اللَّهُ إِلَى هَذِهِ أَنْ تَبَاعَدِى . وَقَالَ قِيسُوا مَا بَيْنَهُمَا . فَوُجِدَ إِلَى هَذِهِ أَقْرَبُ بِشِبْرٍ ، فَغُفِرَ لَهُ
ترجمہ: حضرت ابوسعید خدری رضی اﷲعنہ سے روایت ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم سے پہلے والوں میں ایک شخص نے نناوے (99) قتل کئے، اور وقت کے سب سے بڑے عالم کے متعلق دریافت کیا، تو اسے ایک راہب کا پتہ بتایا گیا اور وہ شخص اس راہب کے پاس گیا اور پوچھا کہ میں نناوے انسانی جانوں کا قاتل ہوں ، کیا میرے لئے توبہ کا کوئی طریقہ ہے؟ راہب نے کہا: تیرے لئے توبہ کی کوئی صورت نہیں! تو اس شخص نے راہب کو قتل کردیا اور سو (100) جانوں کا قاتل ٹہرا- پھر وقت کے سب سے بڑے عالم کے متعلق دریافت کیا ، تو اسے ایک عالم کا پتہ بتادیا گیا اور وہ اس عالم کے پاس گیا اور پوچھا کہ میں سو(100) انسانی جانوں کا قاتل ہوں ، کیا میرے لئے توبہ کی کوئی گنجائش ہے؟ اس عالم نے کہا: کیوں نہیں! تمہارے اور تمہاری توبہ کے درمیان کونسی چیز حائل ہے؟ تم فلاں جگہ چلے جاؤ ! وہاں اﷲتعالی کے کچھ برگزیدہ نیک بندے ہیں جو اﷲ تعالی کی عبادت میں مصروف رہتے ہیں، تم بھی ان کے ساتھ اﷲتعالی کی عبادت میں مصروف ہوجاؤ اور اپنے وطن واپس نہ آؤ! یہاں برے لوگ رہتے ہیں ، وہ شخص روانہ ہوگیا. ابھی وہ راستہ ہی میں تھا کہ پیام اجل آگیا وقت اخیر جب اس میں چلنے کی طاقت نہ رہی تو وہ اپنے سینہ کے بل صالحین کرام کی بستی کی طرف بڑھنے لگا، یہاں تک کہ اس کا انتقال ہوگیا، رحمت کے فرشتوں اور عذاب کے فرشتوں میں باہم تنازع ہوا کہ اس کی روح کو ن لے جائے گا . رحمت کے فرشتوں نے کہا کہ یہ شخص صدق دل سے توبہ کرکے اﷲکی رضا کی خاطر آرہا تھا. عذاب کے فرشتوں نے کہا: اس نے کبھی کوئی نیک عمل نہیں کیا ایسے میں ایک فرشتہ آدمی کی شکل میں ان کے پاس آیا، فرشتوں نے اپنا فیصلہ اس کے حوالہ کردیا، اُس فرشتہ نے کہا کہ زمین کی پیمائش کرو، یہ جس بستی کے قریب ہو اُسے ان ہی میں شمار کرلو (اگر صالحین کی بستی کے قریب تھا تو رحمت کا مستحق ہے اور اگر گنہگاروں کی بستی کے قریب تھا تو اسے عذاب کے فرشتے لے جائینگے )زمین کی پیمائش کی گئی تو نیک لوگوں سے اس کا فاصلہ قریب نکلا لہٰذا رحمت کے فرشتے اس کی روح لے گئے.صحیح بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ اللہ تعالی نے صالحین سے قریب والی زمین کو حکم فرمایا کہ وہ قریب ہوجائے اور گنہگاروں سے قریب والی زمین کو حکم فرمایا کہ دور ہوجائے۔
(صحیح بخاری شریف کتاب احادیث الانبیاء ، حدیث نمبر: 3470- صحیح مسلم شریف،کتاب التوبۃ، باب قبول توبۃ القاتل وإن کثر قتلہ. حدیث نمبر: 7184-، سنن ابن ماجہ ،حدیث نمبر: 2720- مسند امام احمد ، حدیث نمبر: 11453- مصنف ابن ابی شیبہ ،ج:8،ص:109-سنن کبری للبیہقی ، ج:8،ص:17- معجم کبیر طبرانی ، حدیث نمبر: 16229- شعب الایمان للبیہقی ، حدیث نمبر: 6800 مسند ابو یعلی ، حدیث نمبر: 997-صحیح ابن حبان ، حدیث نمبر: 613-جامع الاحادیث للسیوطی ، حدیث نمبر: 7852 -الجامع الکبیر للسیوطی، حدیث نمبر: 1202- کنز العمال ، حدیث نمبر: 10157- زجاجۃ المصابیح ، باب الاستغفار والتوبۃ)
صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ کے حوالے سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ روز قیامت لوگوں میں سے سب سے پہلے جس کے خلاف فیصلہ سنایا جائے گا وہ شخص ہو گا جسے دنیا میں شہید کیا گیا اسے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیا جائے گا اللہ تعالیٰ اسے اپنی نعمتیں یاد دلائیں گے تو وہ ان نعمتوں کا اعتراف کرے گا تو اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائیے گا تو ان نعمتوں کے ہوتے ہوئے کیا کام سر انجام دیا تو وہ کہے گا کہ میں نے تیرے لیے جنگ کی یہاں تک کہ شہید کر دیا گیا اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو نے جھوٹ بولا تو نے تو جنگ محض اس لئے کی تھی کہ تجھے بہادر کہا جائے تو وہ کہہ دیا گیا۔پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا تو اسے منہ کے بل گھسیٹا جائے گا یہاں تک کہ اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا اور دوسرے اس شخص کو اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیا جائے گا جس نے علم حاصل کیا اور تعلیم دی اور قرآن مجید پڑھا۔اللہ سبحانہ تعالیٰ اسے اپنی نعمتیں یاد دلائیے گا تو ان نعمتوں کا اعتراف کرے گا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو نے ان نعمتوں کے ہوتے ہوئے کیا کارنامہ سر انجام دیا تو وہ کہے گا کہ میں نے علم حاصل کیا لوگوں کو تعلیم دی تیرے لیے قرآن مجید پڑھا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو نے جھوٹ بولا تو نے تو علم اس لیے حاصل کیا کہ تجھے عالم کہا جائے تو یہ کہہ دیا گیا پھر اس کے بارے میں حکم دیا جا ئے گا اور اسے منہ کے بل گھسیٹا جائے گا یہاں تک کہ وہ جہنم میں پھینک دیا جائے گا اور تیسرا وہ شخص اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیا جائے گا جسے اللہ تعالیٰ نے فراوانی عطا کی اور اسے ہر قسم کا مال عطا کیا اللہ تعالیٰ اسے اپنی نعمتیں یاد دلائیں گے اور ان نعمتوں کا اعتراف کرے گا تو اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا تو ان نعمتوں کے ہوتے ہوئے کیا کارنامہ سر انجام دیا؟ تو وہ کہے گا یا اللہ! میں نے کوئی ایسی راہ نہیں چھوڑی جہاں خرچ کرنا تجھے پسند ہو اور میں نے نہ کیا ہو! اللہ تعالیٰ فرمائیے گا تو جھوٹ بولا تو نے تو یہ اس لیے کیا کہ تجھے سخی کہا جائے تو یہ کہہ دیا گیا پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا اور اسے منہ کے بل گھسیٹا جائے گا پھر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔
(تبیان القرآن - سورۃ 18 الكهف آیت 18)
مفتی مجیب قادری صاحب نے جو جواب دیا شرع کی کسوٹی پر وہ درست ہے، البتہ یہ مقام مزید تشریح کا مقتضی ہے لہذا چند سطور فقیر ک طرف سے۔اس کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہے کہ اللہ کے ولی کی صحبت اور توجہ باطنی سے طالب صادق ایک لمحے میں وہ مقام حاصل کر لیتا ہے جو سوسال تک ریا سے پاک عبادت کے ذریعے ممکن نہیں۔کیوں کہ کوئی شیخ کامل ان کے مقام کو بڑھانے والا نہیں ہو تا۔صحبت اولیا سے لطائف عشرہ ذاکر وشاغل ہو جاتے ہیں۔ نفس کا حجاب اتر جاتا ہے اور مشاہدہ کے درجہ میں پہونچ جا تا ہے یہ کوئی ضروری نہیں کہ عبادت کے ذریعے بندہ اس منزل پر پہونچ جاے۔ صحبت سے مراد صرف نشست وبرخواست نہیں ہے بلہ ان کی ہمنشینی اور اکتساب فیض کے لمحات ہیں۔
محمدرضا قادری خادم التدریس الجامعة الأشرفية مبارك پور اعظم گڑھ یوپی
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
10/1/2020