(سوال نمبر 289)
نماز جنازہ میں تین صف کرنے میں کیا حکمت ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نماز جنازہ میں تین صف کرنے میں کیا حکمت ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
١/ میت کو قبر میں اتار کر پڑے (تختہ) لگانے کے بعد بیری کی شاخ وغیرہ لگانے میں کیا حکمت ہے؟
٢/ اور نماز جنازہ میں تین پانچ سات یعنی طاق صفیں کریں تو کیا حکمت ہے،
٣/ اور میت کو مٹی دینے سے پہلے بیٹھ سکتے ہیں یا نہیں
السائل:- تہزیب عالم سیف پاکبڑہ مراداباد یوپی
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
١/ میت کو قبر میں اتار کر پڑے (تختہ) لگانے کے بعد بیری کی شاخ وغیرہ لگانے میں کیا حکمت ہے؟
٢/ اور نماز جنازہ میں تین پانچ سات یعنی طاق صفیں کریں تو کیا حکمت ہے،
٣/ اور میت کو مٹی دینے سے پہلے بیٹھ سکتے ہیں یا نہیں
السائل:- تہزیب عالم سیف پاکبڑہ مراداباد یوپی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الامین
وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ
الجواب بعونه تعالى عز وجل
١/ میت کو قبر میں اتار نے کے بعد اور تختہ وغیرہ سے ڈھکنے کے بعد بیری کی شاخ جو اس پر رکھتے ہیں اصلا شریعت میں اس کی کوئی اصل نہیں ہے ۔یہ ایک رسم ہے غالبا اس کی وجہ یہ ہے کہ کاٹادار شاخ ہونے کی وجہ سے سیار ،کتے یا اور دیگر حیوان تازہ قبر ہونے کی بناء پر اسے نہ کھود سکے ۔حفاظت قبر کے لئے ایسا کرتے ہیں جوکہ امر مباح ہے اس میں کوئی مضائقہ نہیں ۔۔البتہ نہ کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ۔
٢/ آقا علیہ السلام نے فرما یا جس میت پر تین صفیں نماز پڑھ لیں وہ بخش دیا جاتا ہے،
ایک حدیث میں آپ نے صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرما یا : کسی بھی مسلمان پر تین صفیں مسلمانوں کی نمازِ
جنازہ نہیں پڑھتیں؛ مگر اللہ اس کے لیے (جنت ) واجب کردیتا ہے ۔
ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں: مگر اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمادیتا یے
مالک بن ہبیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ دستور تھا کہ جب وہ جنازہ کی نماز پڑھنے والوں کی تعداد کم محسوس کرتے تو اسی حدیث کی وجہ سے ان لوگوں کو تین صفوں میں تقسیم کردیتے تھے۔
(سنن أبي داود (3/ 202)
عَنْ مَالِكِ بْنِ هُبَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَمُوتُ فَيُصَلِّي عَلَيْهِ ثَلَاثَةُ صُفُوفٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، إِلَّا أَوْجَبَ» ، قَالَ: فَكَانَ مَالِكٌ «إِذَا اسْتَقَلَّ أَهْلَ الْجَنَازَةِ جَزَّأَهُمْ ثَلَاثَةَ صُفُوفٍ لِلْحَدِيثِ»
(سنن الترمذي 3/ 338)
عن مرثد بن عبد الله اليزني، قال: كان مالك بن هبيرة، إذا صلى على جنازة، فتقال الناس عليها، جزأهم ثلاثة أجزاء، ثم قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من صلى عليه ثلاثة صفوف فقد أوجب،
وفي الباب عن عائشة، وأم حبيبة، وأبي هريرة، وميمونة زوج النبي صلى الله عليه وسلم.: حديث مالك بن هبيرة حديث حسن» هكذا رواه غير واحد، عن محمد بن إسحاق، وروى إبراهيم بن سعد، عن محمد بن إسحاق هذا الحديث، وأدخل بين مرثد، ومالك بن هبيرة رجلاً، ورواية هؤلاء أصح عندنا".
(السنن الكبرى للبيهقي (4/ 48)
عن مرثد بن عبد الله، عن مالك بن هبيرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما صلى ثلاثة صفوف من المسلمين على رجل مسلم يستغفرون له إلا أوجب،
فكان مالك إذا صلى على جنازة يعني فتقال أهلها صفهم صفوفًا ثلاثة ثم يصلي عليها. لفظ حديث جرير بن حازم وفي رواية يزيد بن هارون " إلا غفر له ".
كما في الدر المختار وحاشية ابن عابدين)
ولهذا قال في المحيط: ويستحب أن يصف ثلاثة صفوف، حتى لو كانوا سبعة يتقدم أحدهم للإمامة، ويقف وراءه ثلاثة ثم اثنان ثم واحد. اهـ. فلو كان الصف الأول أفضل في الجنازة أيضا لكان الأفضل جعلهم صفا واحدًا ولكره قيام الواحد وحده كما كره في غيرها، هذا ما ظهر لي"
(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - 870/4257)
نماز جنازہ میں افضل وبہتر یہ ہے کہ کم ازکم تین صفیں بنائی جائیں بلکہ اگر نمازی صرف سات آدمی ہوں تو امام کے پیچھے تین آدمی پھر دو آدمیوں کی صف اور تیسری میں صف میں صرف ایک آدمی کھڑا ہوجائے:
اورا گر نمازی زیادہ ہوں، تین سے زائد صفیں بنانے کی ضرورت پڑجائے تو صفیں تین سے زائد بنالی جائیں، البتہ طاق کا لحاظ رکھا جائے تو بہتر ہے یعنی: پانچ، سات یا نو صفیں بنالی جائیں۔
قال في مجمع الأنہر (۱:۲۷۰ دارالکتب العلمیہ بیروت): واعلم أن الأفضل أن تکون الصفوف ثلاثة لقولہ علیہ الصلاة والسلام: ”من اصطف علیہ ثلاثة صفوف من المسلمین غفرلہ“ اھ وقال في الہندیة)
إذا کان القوم سبعة قاموا ثلاثة صفوف یتقدم واحد وثلاثة بعدہ واثنان بعدہم وواحد بعدہما کذافي التتارخانیة اھ ومثلہ في رد المحتار
ومراقي الفلاح (مع حاشیة الطحطاوي ص۵۹۲ ط دارالکتب العلمیہ بیروت) وحاشیة الطحطاوي علی المراقي (ص۵۸۳، ۵۸۴)
٣/ میت کو مٹی دینے سے قبل جلوس میں کوئی قباحت نہیں ۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الامین
وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ
الجواب بعونه تعالى عز وجل
١/ میت کو قبر میں اتار نے کے بعد اور تختہ وغیرہ سے ڈھکنے کے بعد بیری کی شاخ جو اس پر رکھتے ہیں اصلا شریعت میں اس کی کوئی اصل نہیں ہے ۔یہ ایک رسم ہے غالبا اس کی وجہ یہ ہے کہ کاٹادار شاخ ہونے کی وجہ سے سیار ،کتے یا اور دیگر حیوان تازہ قبر ہونے کی بناء پر اسے نہ کھود سکے ۔حفاظت قبر کے لئے ایسا کرتے ہیں جوکہ امر مباح ہے اس میں کوئی مضائقہ نہیں ۔۔البتہ نہ کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ۔
٢/ آقا علیہ السلام نے فرما یا جس میت پر تین صفیں نماز پڑھ لیں وہ بخش دیا جاتا ہے،
ایک حدیث میں آپ نے صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرما یا : کسی بھی مسلمان پر تین صفیں مسلمانوں کی نمازِ
جنازہ نہیں پڑھتیں؛ مگر اللہ اس کے لیے (جنت ) واجب کردیتا ہے ۔
ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں: مگر اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمادیتا یے
مالک بن ہبیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ دستور تھا کہ جب وہ جنازہ کی نماز پڑھنے والوں کی تعداد کم محسوس کرتے تو اسی حدیث کی وجہ سے ان لوگوں کو تین صفوں میں تقسیم کردیتے تھے۔
(سنن أبي داود (3/ 202)
عَنْ مَالِكِ بْنِ هُبَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَمُوتُ فَيُصَلِّي عَلَيْهِ ثَلَاثَةُ صُفُوفٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، إِلَّا أَوْجَبَ» ، قَالَ: فَكَانَ مَالِكٌ «إِذَا اسْتَقَلَّ أَهْلَ الْجَنَازَةِ جَزَّأَهُمْ ثَلَاثَةَ صُفُوفٍ لِلْحَدِيثِ»
(سنن الترمذي 3/ 338)
عن مرثد بن عبد الله اليزني، قال: كان مالك بن هبيرة، إذا صلى على جنازة، فتقال الناس عليها، جزأهم ثلاثة أجزاء، ثم قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من صلى عليه ثلاثة صفوف فقد أوجب،
وفي الباب عن عائشة، وأم حبيبة، وأبي هريرة، وميمونة زوج النبي صلى الله عليه وسلم.: حديث مالك بن هبيرة حديث حسن» هكذا رواه غير واحد، عن محمد بن إسحاق، وروى إبراهيم بن سعد، عن محمد بن إسحاق هذا الحديث، وأدخل بين مرثد، ومالك بن هبيرة رجلاً، ورواية هؤلاء أصح عندنا".
(السنن الكبرى للبيهقي (4/ 48)
عن مرثد بن عبد الله، عن مالك بن هبيرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما صلى ثلاثة صفوف من المسلمين على رجل مسلم يستغفرون له إلا أوجب،
فكان مالك إذا صلى على جنازة يعني فتقال أهلها صفهم صفوفًا ثلاثة ثم يصلي عليها. لفظ حديث جرير بن حازم وفي رواية يزيد بن هارون " إلا غفر له ".
كما في الدر المختار وحاشية ابن عابدين)
ولهذا قال في المحيط: ويستحب أن يصف ثلاثة صفوف، حتى لو كانوا سبعة يتقدم أحدهم للإمامة، ويقف وراءه ثلاثة ثم اثنان ثم واحد. اهـ. فلو كان الصف الأول أفضل في الجنازة أيضا لكان الأفضل جعلهم صفا واحدًا ولكره قيام الواحد وحده كما كره في غيرها، هذا ما ظهر لي"
(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - 870/4257)
نماز جنازہ میں افضل وبہتر یہ ہے کہ کم ازکم تین صفیں بنائی جائیں بلکہ اگر نمازی صرف سات آدمی ہوں تو امام کے پیچھے تین آدمی پھر دو آدمیوں کی صف اور تیسری میں صف میں صرف ایک آدمی کھڑا ہوجائے:
اورا گر نمازی زیادہ ہوں، تین سے زائد صفیں بنانے کی ضرورت پڑجائے تو صفیں تین سے زائد بنالی جائیں، البتہ طاق کا لحاظ رکھا جائے تو بہتر ہے یعنی: پانچ، سات یا نو صفیں بنالی جائیں۔
قال في مجمع الأنہر (۱:۲۷۰ دارالکتب العلمیہ بیروت): واعلم أن الأفضل أن تکون الصفوف ثلاثة لقولہ علیہ الصلاة والسلام: ”من اصطف علیہ ثلاثة صفوف من المسلمین غفرلہ“ اھ وقال في الہندیة)
إذا کان القوم سبعة قاموا ثلاثة صفوف یتقدم واحد وثلاثة بعدہ واثنان بعدہم وواحد بعدہما کذافي التتارخانیة اھ ومثلہ في رد المحتار
ومراقي الفلاح (مع حاشیة الطحطاوي ص۵۹۲ ط دارالکتب العلمیہ بیروت) وحاشیة الطحطاوي علی المراقي (ص۵۸۳، ۵۸۴)
٣/ میت کو مٹی دینے سے قبل جلوس میں کوئی قباحت نہیں ۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال