مجدد کسے کہتے ہیں اور ان کی شرائط کیا ہیں؟
☘⚜☘⚜☘⚜☘⚜☘⚜☘
اَلسَّــــلَامُ عَلَــــیْکُمْ وَرَحْـــمَتُہ اللُّہِ وَبَـــرَکَاتُہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیانِ عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ مجدد کسے کہتے ہیں اور ان کی شرائط کیا ہیں؟ بحوالہ مدلل ومفصل جواب ارسال فرماکر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں
سائل:- محمّد تحسین رضا نوری
☘⚜☘⚜☘⚜☘⚜☘⚜☘
وَعَلَیْڪُمْ اَلسَّــلَامْ وَرَحْمَةُ اللّٰہِ وَبَــرَڪَاتُہْ
الــجــواب بــعــون الـمـلـک الــوھــاب:
مجدد اعظم اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ بلا شبہہ چودہویں صدی کے مجدد تھے اعلیٰ حضرت کے عہد مبارک میں بھی اور اس کے بعد بھی الی یومنا ھذا علماۓ اہل سنت نے انہیں مجدد مانا مجدد لکھا حتی کہ علماۓ حرمین طیبین بھی, کسی کے مجدد ہونے پر اب کوئ دلیل منصوص نہیں ہو سکتی, وحی کا سلسلہ اب منقطع ہے,اب یہی دلیل ہے کہ اس عہد کے علما عوام و خواص جسے مجدد کہیں وہ مجدد ہے ,اس کے علاوہ علما نے مجدد کے لئے جو چیزیں بطور لوازم کے ذکر کی ہے وہ سب اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں مجتمع ہیں سردست حضرت ملا علی قاری کا ارشاد مرقاۃ شرح مشکوٰۃ سے نقل کرتے ہیں حدیث: "ان اللہ عز و جل یبعث لھذا الأمۃ علی رأس کل مائۃ سنۃ من یجدد لھا دینھا" (بیشک اللہ تعالیٰ ہر سو سال پر ایسے شخص کو مبعوث فرمائے گا جو اس امت کے لئے اس کے دین کو تروتازہ کرے)*
(مشکوٰۃ المصابیح کتاب العلم ص/36, مجلس برکات اشرفیہ)
"أی یبین السنۃ من البدعۃ و یکثر العلم و یعز أھلہ و یقمع البدعۃ و بکسر اھلھا" (یعنی سنت کو بدعت سے علاحدہ کرے اور علم دین کو پھیلاۓ اور علماء دین کو عزت دے اور بدعت کو اکھاڑے اور بدعتیوں کا زور توڑے)
(مرقاۃ شرح مشکوٰۃ,ج/1 ص/302)
چند باتیں جامع الاصول سے- لیکن شرط یہ ہے کہ یہ ہستی سارے فن میں مشار الیہ ہو,اور ہمارے مشائخ کے شیخ (خاتم الحفاظ علامہ جلال الدین سیوطی ) وہ ہیں جنہوں نے" در منثور" میں تفسیر ماثور کے علم کو زندہ کیا, اور تمام متفرق احادیث کو اپنے جامع میں اکٹھا کیا اور کوئ فن نہیں چھوڑا جس میں ان کا کوئ متن یا شرح نہ ہو, بلکہ ان کے لئے بہت سے زیادات ہوں اور بہت سی نئ نکتہ آفرینیاں ہیں یہ اس کے مستحق ہیں کہ قرن مذکور کے مجدد ہوں, جیسا کہ انہوں نے دعویٰ کیا ہے اور وہ اپنے دعویٰ میں مقبول و مشکور ہیں , میرے نزدیک زیادہ ظاہر ہے کہ مجدد ایک ہی شخص کا ہونا ضروری نہیں, من یجدد ,سے شخص واحد مراد نہیں بلکہ مراد جماعت ہے جس کا ہر فرد کسی شہر میں کسی فن کو یا علوم شرعیہ کے مختلف فنون کو تازہ کرے تقریر سے یا تحریر سے جو اسے میسر ہو اور یہ اس فن کی بقا اور نہ مٹنے کا سبب ہو,یہاں تک کہ قیامت آۓ"
(مرقاۃ شرح مشکوٰۃ: ج/1 ص/302 ملخصا,المکتبۃ الاشرفیہ)
اور علماۓ السلام نے بیان فرمایا ہے کہ مجدد کے لئے ضروری ہے کہ ایک صدی کے آخر اور دوسری صدی کے اول میں اس کے علم و فضل کی شہرت رہی ہو علماء کے درمیان اس کے احیاء سنت از الئہ بدعت اور دیگر دینی خدمات کا چرچا کیا جاتا ہو لہذا جس عالم کو آخری صدی کا زمانہ نہ ملا یا ملا لیکن وہ دینی خدمات انجام دینے میں مشہور نہ ہوا تو وہ مجددین کی فہرست میں شمار نہ ہوگا
اور دینی علوم و فنون اور جو علوم و فنون دینی علوم و فنون کے لئے ذریعہ ہیں سب کا جامع,ماہر اور سب کی تنقید و تصویب کا ملکئہ تامہ رکھتا ہو, سنت کی حمایت و نصرت اور بدعت کا استیصال اور اس کی بیخ کنی میں مصروف ہو, جفاظت دین کی ہر ممکن تدبیر اختیار کرے اسلام دشمن افکار اور تحریکات کے خلاف مصروف رہے جو کچھ ملا علی قاری نے لکھا ہے,یہ خاتم الحفاظ علامہ جلال الدین سیوطی نے مرقاۃ السعود میں اور شیخ السلام بدرالدین ابدال نے رسالئہ"مرضیہ " میں بھی لکھا ہے, مولانا عبدالحئ لکھنوی مجموعئہ فتاویٰ ج/2 ص/151 تا 152 میں لکھتے ہیں"اس " مائۃ " سے مراد باتفاق محدثین آخری صدی ہے"(مجموعہ فتاویٰ عبدالحئ ج/2 ص/151 تا 152)
اور مجدد کی شرائط و علامت یہ ہیں (1) علوم ظاہرہ اور باطنہ کا عالم ہو, (2) اس کے درس و تدریس,تالیف و تصنیف سے نفع شائع ذائع ہو, (3) احیاۓ سنت اور اماتت بدعت میں سرگرم ہو, (4) ایک صدی کے آخر اور دوسری صدی کے آغاز میں اس کے علم کی شہرت اور اس سے انتفاع معروف و مشہور ہو
پس اگر آخر صدی نہیں پائی ہے یا اس سے اس زمانے میں انتفاع شریعت حاصل نہ ہوا ہو تو وہ مجددین کی صف سے خارج سمجھا جاۓ گا اور اس حدیث کا مورد و مصداق نہ ہوگا ,اور اس کا شمار مجددین میں نہ ہوگا,اب آئیے مذکورہ بالا معیار پر اعلیٰ حضرت کو جانچے,
(1) آپ کی ولادت دو شنبہ 10 شوال 1272ھ میں ہوئ اور جمعہ 25 صفر 1340ھ میں انتقال فرمایا اس طرح تیرہویں صدی میں 28 سال دو مہینہ 20 دن چودہویں صدی میں 39 سال ایک مہینہ 25 دن آپ نے اپنی زندگی کے لمحات گزارے اس طرح تیرہویں صد ی کے آخری اور چودھویں صدی کا اول زمانہ پایا
(2) آٹھ سال کی عمر میں آپ نے وراثت کا ایک صحیح مسئلہ تحریر فرمایا ,دس سال کی عمر میں ھدایۃالنحو کی عربی شرح لکھی,شعبان 1286ھ میں اس وقت کے دینی نصاب میں مروجہ تمام علوم درسیہ سے فراغت کے بعد تیرہ سال دس مہینہ چار دن کی عمر میں والد ماجد نے منصب افتاء عطا فرمایا ,انہیں ایام میں رام پور سے آپ کے پاس ایک ایسا فتویٰ پہنچا جس پر علماۓ رامپور کے دستخط تھے
اعلیٰ حضرت نے اس سے اختلاف کیا اور مدلل اپنا جواب لکھا,اعلیٰ حضرت کے فتویٰ کو دیکھ کر علماۓ رام پور ششدر رہ گۓ اور انہوں نے اپنے فتویٰ سے رجوع کیا" اور اگر اور مزید تفصیل چاہتے ہیں تو حیات اعلیٰ حضرت مصنفہ ملک العلما مولانا ظفرالدیں صاحب بہاری "مجدداعظم "تصنیف مولانا موصوف کا مطالعہ کریں"
(فتاویٰ شارح بخاری کتاب العقائد ج /3 ص/347 تا 357)
🌹(واللّٰہ و رسولہ اعلم بالصواب)🌹
🍩🍩🍩🍩🍩🍩🍩🍩🍩🍩🍩
📝کتبــــــــــــہ؛📝
🖋حـضـرت حـافـظ وقــاری عـلامـہ ومـولانـا مـفــتـی مـحـمّـد آفتاب عالم رحمتی مصباحی دہلوی صــاحــب قــبــلہ مـدظـلــہ الــعــالــی والــنــورانــی خطیب و امام جامع مسجد مہا سمند (چھتیس گڑھ) (الــھــنـــد)
☘⚜☘⚜☘⚜☘⚜☘⚜☘
اَلسَّــــلَامُ عَلَــــیْکُمْ وَرَحْـــمَتُہ اللُّہِ وَبَـــرَکَاتُہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیانِ عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ مجدد کسے کہتے ہیں اور ان کی شرائط کیا ہیں؟ بحوالہ مدلل ومفصل جواب ارسال فرماکر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں
سائل:- محمّد تحسین رضا نوری
☘⚜☘⚜☘⚜☘⚜☘⚜☘
وَعَلَیْڪُمْ اَلسَّــلَامْ وَرَحْمَةُ اللّٰہِ وَبَــرَڪَاتُہْ
الــجــواب بــعــون الـمـلـک الــوھــاب:
مجدد اعظم اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ بلا شبہہ چودہویں صدی کے مجدد تھے اعلیٰ حضرت کے عہد مبارک میں بھی اور اس کے بعد بھی الی یومنا ھذا علماۓ اہل سنت نے انہیں مجدد مانا مجدد لکھا حتی کہ علماۓ حرمین طیبین بھی, کسی کے مجدد ہونے پر اب کوئ دلیل منصوص نہیں ہو سکتی, وحی کا سلسلہ اب منقطع ہے,اب یہی دلیل ہے کہ اس عہد کے علما عوام و خواص جسے مجدد کہیں وہ مجدد ہے ,اس کے علاوہ علما نے مجدد کے لئے جو چیزیں بطور لوازم کے ذکر کی ہے وہ سب اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں مجتمع ہیں سردست حضرت ملا علی قاری کا ارشاد مرقاۃ شرح مشکوٰۃ سے نقل کرتے ہیں حدیث: "ان اللہ عز و جل یبعث لھذا الأمۃ علی رأس کل مائۃ سنۃ من یجدد لھا دینھا" (بیشک اللہ تعالیٰ ہر سو سال پر ایسے شخص کو مبعوث فرمائے گا جو اس امت کے لئے اس کے دین کو تروتازہ کرے)*
(مشکوٰۃ المصابیح کتاب العلم ص/36, مجلس برکات اشرفیہ)
"أی یبین السنۃ من البدعۃ و یکثر العلم و یعز أھلہ و یقمع البدعۃ و بکسر اھلھا" (یعنی سنت کو بدعت سے علاحدہ کرے اور علم دین کو پھیلاۓ اور علماء دین کو عزت دے اور بدعت کو اکھاڑے اور بدعتیوں کا زور توڑے)
(مرقاۃ شرح مشکوٰۃ,ج/1 ص/302)
چند باتیں جامع الاصول سے- لیکن شرط یہ ہے کہ یہ ہستی سارے فن میں مشار الیہ ہو,اور ہمارے مشائخ کے شیخ (خاتم الحفاظ علامہ جلال الدین سیوطی ) وہ ہیں جنہوں نے" در منثور" میں تفسیر ماثور کے علم کو زندہ کیا, اور تمام متفرق احادیث کو اپنے جامع میں اکٹھا کیا اور کوئ فن نہیں چھوڑا جس میں ان کا کوئ متن یا شرح نہ ہو, بلکہ ان کے لئے بہت سے زیادات ہوں اور بہت سی نئ نکتہ آفرینیاں ہیں یہ اس کے مستحق ہیں کہ قرن مذکور کے مجدد ہوں, جیسا کہ انہوں نے دعویٰ کیا ہے اور وہ اپنے دعویٰ میں مقبول و مشکور ہیں , میرے نزدیک زیادہ ظاہر ہے کہ مجدد ایک ہی شخص کا ہونا ضروری نہیں, من یجدد ,سے شخص واحد مراد نہیں بلکہ مراد جماعت ہے جس کا ہر فرد کسی شہر میں کسی فن کو یا علوم شرعیہ کے مختلف فنون کو تازہ کرے تقریر سے یا تحریر سے جو اسے میسر ہو اور یہ اس فن کی بقا اور نہ مٹنے کا سبب ہو,یہاں تک کہ قیامت آۓ"
(مرقاۃ شرح مشکوٰۃ: ج/1 ص/302 ملخصا,المکتبۃ الاشرفیہ)
اور علماۓ السلام نے بیان فرمایا ہے کہ مجدد کے لئے ضروری ہے کہ ایک صدی کے آخر اور دوسری صدی کے اول میں اس کے علم و فضل کی شہرت رہی ہو علماء کے درمیان اس کے احیاء سنت از الئہ بدعت اور دیگر دینی خدمات کا چرچا کیا جاتا ہو لہذا جس عالم کو آخری صدی کا زمانہ نہ ملا یا ملا لیکن وہ دینی خدمات انجام دینے میں مشہور نہ ہوا تو وہ مجددین کی فہرست میں شمار نہ ہوگا
اور دینی علوم و فنون اور جو علوم و فنون دینی علوم و فنون کے لئے ذریعہ ہیں سب کا جامع,ماہر اور سب کی تنقید و تصویب کا ملکئہ تامہ رکھتا ہو, سنت کی حمایت و نصرت اور بدعت کا استیصال اور اس کی بیخ کنی میں مصروف ہو, جفاظت دین کی ہر ممکن تدبیر اختیار کرے اسلام دشمن افکار اور تحریکات کے خلاف مصروف رہے جو کچھ ملا علی قاری نے لکھا ہے,یہ خاتم الحفاظ علامہ جلال الدین سیوطی نے مرقاۃ السعود میں اور شیخ السلام بدرالدین ابدال نے رسالئہ"مرضیہ " میں بھی لکھا ہے, مولانا عبدالحئ لکھنوی مجموعئہ فتاویٰ ج/2 ص/151 تا 152 میں لکھتے ہیں"اس " مائۃ " سے مراد باتفاق محدثین آخری صدی ہے"(مجموعہ فتاویٰ عبدالحئ ج/2 ص/151 تا 152)
اور مجدد کی شرائط و علامت یہ ہیں (1) علوم ظاہرہ اور باطنہ کا عالم ہو, (2) اس کے درس و تدریس,تالیف و تصنیف سے نفع شائع ذائع ہو, (3) احیاۓ سنت اور اماتت بدعت میں سرگرم ہو, (4) ایک صدی کے آخر اور دوسری صدی کے آغاز میں اس کے علم کی شہرت اور اس سے انتفاع معروف و مشہور ہو
پس اگر آخر صدی نہیں پائی ہے یا اس سے اس زمانے میں انتفاع شریعت حاصل نہ ہوا ہو تو وہ مجددین کی صف سے خارج سمجھا جاۓ گا اور اس حدیث کا مورد و مصداق نہ ہوگا ,اور اس کا شمار مجددین میں نہ ہوگا,اب آئیے مذکورہ بالا معیار پر اعلیٰ حضرت کو جانچے,
(1) آپ کی ولادت دو شنبہ 10 شوال 1272ھ میں ہوئ اور جمعہ 25 صفر 1340ھ میں انتقال فرمایا اس طرح تیرہویں صدی میں 28 سال دو مہینہ 20 دن چودہویں صدی میں 39 سال ایک مہینہ 25 دن آپ نے اپنی زندگی کے لمحات گزارے اس طرح تیرہویں صد ی کے آخری اور چودھویں صدی کا اول زمانہ پایا
(2) آٹھ سال کی عمر میں آپ نے وراثت کا ایک صحیح مسئلہ تحریر فرمایا ,دس سال کی عمر میں ھدایۃالنحو کی عربی شرح لکھی,شعبان 1286ھ میں اس وقت کے دینی نصاب میں مروجہ تمام علوم درسیہ سے فراغت کے بعد تیرہ سال دس مہینہ چار دن کی عمر میں والد ماجد نے منصب افتاء عطا فرمایا ,انہیں ایام میں رام پور سے آپ کے پاس ایک ایسا فتویٰ پہنچا جس پر علماۓ رامپور کے دستخط تھے
اعلیٰ حضرت نے اس سے اختلاف کیا اور مدلل اپنا جواب لکھا,اعلیٰ حضرت کے فتویٰ کو دیکھ کر علماۓ رام پور ششدر رہ گۓ اور انہوں نے اپنے فتویٰ سے رجوع کیا" اور اگر اور مزید تفصیل چاہتے ہیں تو حیات اعلیٰ حضرت مصنفہ ملک العلما مولانا ظفرالدیں صاحب بہاری "مجدداعظم "تصنیف مولانا موصوف کا مطالعہ کریں"
(فتاویٰ شارح بخاری کتاب العقائد ج /3 ص/347 تا 357)
🌹(واللّٰہ و رسولہ اعلم بالصواب)🌹
🍩🍩🍩🍩🍩🍩🍩🍩🍩🍩🍩
📝کتبــــــــــــہ؛📝
🖋حـضـرت حـافـظ وقــاری عـلامـہ ومـولانـا مـفــتـی مـحـمّـد آفتاب عالم رحمتی مصباحی دہلوی صــاحــب قــبــلہ مـدظـلــہ الــعــالــی والــنــورانــی خطیب و امام جامع مسجد مہا سمند (چھتیس گڑھ) (الــھــنـــد)