مفتی اعظم بہار مدظلہ العالی کی فقہائے احناف خصوصا مشائخ بریلی شریف کے اقوال کی روشنی میں قسط نمبر 12
________(❤️)_________
قسط دوازدہم کا نصف آخر
"وقتی اذان مسجد میں لاؤڈ اسپیکر سے قیامت تک ممنوع نہیں ہوسکتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد میں اذان سے منع نہیں فرمایا ہے۔"
الجواب :- اس عنوان کے تحت قسط دوازدہم کا نصف اول میں کافی دلائل لکھنے کا شرف حاصل ہوا جسے آپ لوگ ملاحظہ فرما چکے ہیں اس قسط میں مختصر بقایا حصہ پیش خدمتکررہاہُوں۔علماء فرماتے ہیں کہ
نصوص اپنے ظواہر پر محمول رہیں گے ۔جب تک دلیل معتمد سے صرف ثابت نہ ہو
اہل سنت کے عقائد میں داخل ہے کہ نصوص اپنے ظواہر پر محمول رہیں گے ۔جب تک دلیل معتمد سے صرف نہ ثابت ہو کہ عمومات شرع میں اپنی ہوس سے تخصیص کرنی، شریعت مطہرہ کے ساتھ لہو و لعب ہے ۔ورنہ ہر شخص جس عموم میں چاہے کوئی قید بڑھا دے ۔جو چاہے اپنی تخصیصات کرکے اپنے آپ کو احکام عامہ شرع سے باہر قرار دیدے ۔
عزیزم قائلین جواز
آپ سوال پر سوال کرتے جارہے ہیں آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ میں زیادہ واٹس ایپ پر نہیں آتا ہوں مجھے اور بھی کام رہتا ہے ۔ اور یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ ہر سوال کا جواب دیا جائے۔
بے ضرورت سوالات ممنوع ہے
"وقتی اذان مسجد میں لاؤڈ اسپیکر سے قیامت تک ممنوع نہیں ہوسکتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد میں اذان سے منع نہیں فرمایا ہے۔"
الجواب :- اس عنوان کے تحت قسط دوازدہم کا نصف اول میں کافی دلائل لکھنے کا شرف حاصل ہوا جسے آپ لوگ ملاحظہ فرما چکے ہیں اس قسط میں مختصر بقایا حصہ پیش خدمتکررہاہُوں۔علماء فرماتے ہیں کہ
نصوص اپنے ظواہر پر محمول رہیں گے ۔جب تک دلیل معتمد سے صرف ثابت نہ ہو
اہل سنت کے عقائد میں داخل ہے کہ نصوص اپنے ظواہر پر محمول رہیں گے ۔جب تک دلیل معتمد سے صرف نہ ثابت ہو کہ عمومات شرع میں اپنی ہوس سے تخصیص کرنی، شریعت مطہرہ کے ساتھ لہو و لعب ہے ۔ورنہ ہر شخص جس عموم میں چاہے کوئی قید بڑھا دے ۔جو چاہے اپنی تخصیصات کرکے اپنے آپ کو احکام عامہ شرع سے باہر قرار دیدے ۔
عزیزم قائلین جواز
آپ سوال پر سوال کرتے جارہے ہیں آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ میں زیادہ واٹس ایپ پر نہیں آتا ہوں مجھے اور بھی کام رہتا ہے ۔ اور یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ ہر سوال کا جواب دیا جائے۔
بے ضرورت سوالات ممنوع ہے
(فہرست فتاویٰ رضویہ جلد جدید پنجم ص 28)
اس کے تحت سرکار اعلی حضرت عظیم البرکت فرماتے ہیں کہ
شرع مطہر کسی وقت کسی سوال کے جواب سے عاجز نہیں مگر ایسی صورت میں قبل از وقوع بے اندیشہ صحیحہ وقوع فرض کر کے سوال کرنا وبال لانا ہے اور کبھی اسے مشکل میں مبتلا کر دیتا ہے۔حدیث میں ہے
نھی رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم عن نفسل المسائل یعنی رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے بے ضرورت مسائل پوچھنے سے منع کیا ہے
اس کے تحت سرکار اعلی حضرت عظیم البرکت فرماتے ہیں کہ
شرع مطہر کسی وقت کسی سوال کے جواب سے عاجز نہیں مگر ایسی صورت میں قبل از وقوع بے اندیشہ صحیحہ وقوع فرض کر کے سوال کرنا وبال لانا ہے اور کبھی اسے مشکل میں مبتلا کر دیتا ہے۔حدیث میں ہے
نھی رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم عن نفسل المسائل یعنی رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے بے ضرورت مسائل پوچھنے سے منع کیا ہے
(فتاویٰ رضویہ جلد جدید پنجم ص 343)
خیر اس کے بعد آپ سوال نہیں کریں گے خیال رکھیں۔
آپ کا سوال ہے کہ
اذان پنچوقتہ ذکر الہی ہے یا نہیں؟
الجواب ۔ بے شک اذان ذکر الہی ہے سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں کہ اذان ذکر الہی ہے
خیر اس کے بعد آپ سوال نہیں کریں گے خیال رکھیں۔
آپ کا سوال ہے کہ
اذان پنچوقتہ ذکر الہی ہے یا نہیں؟
الجواب ۔ بے شک اذان ذکر الہی ہے سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں کہ اذان ذکر الہی ہے
(فتاوی رضویہ جلد جدید پنجم ص 373)
سوال۔ پھر آپ کا دوسرا سوال ہوا کہ جب اذان ذکر الہی ہے تو کیا مسجد میں اذان دینے کو منع کرنا ذکر الہی کرنے سے منع کرنا نہیں کہلائے گا؟
الجواب ۔جی آپ کا سوال درست ہے لیکن ہر چیز کا ایک محل ہے اور اس کو اسی محل میں ادا کرنا ضروری ہے اسی اصول پر یہ کہا جائے گا کہ مسجد میں اذان دینی مسجد و دربار الہی کی گستاخی و بے ادبی ہے چونکہ مسجد کی بِنَا اذان دینے کے لئے نہیں ہوئی ہے اذان اعلام نماز کے لئے ہے تو اس کا محل مسجد سے باہر ہے نہ کہ اندر اسی لئے سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان بریلوی رضی آللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ اذان دینے کے لئے مسجد نہی بنی ہے کیونکہ اذان دینے کے لئے مسجد کی بنا ہوتی تو ضرور حضور پرنور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم مسجد کے اندر ہی اذان دلواتے یا کبھی بھی تو اس کا حکم فرماتے ۔مسجد جس کے لئے بنی زمانہ اقدس میں اسی کا مسجد میں ہونا کبھی ثابت نہ ہو یہ کیونکر معقول ہوسکتاہے۔تو وجہ وہی ہے کہ اذان حاضری دربار پکارنے کو ہے اور خود دربار حاضری پکارنے کو نہیں بنتا۔
مسجد میں چلانے سے خود حدیث میں ممانعت ہے اور فقہا نے یہ ممانعت ذکر الہی کو بھی عام رکھی ہے جب تک شارع علیہ السلام سے ثبوت نہ ہو
درمختار میں ہے ۔
یحرم فیہ ۔ای مسجد السوال و یکرہ الاعطاء ورفع صوت بذکر ۔الا للمتفقھۃ یعنی مسجد میں سوال کرنا حرام اور سائل کو دینا مکروہ ہے ۔مسائل فقیہ سیکھانے کے علاؤہ وہاں ذکر سے آواز کا بلند کرنا بھی مکروہ ہے (بحوالہ الدرمختار )
پھر سرکار اعلی حضرت عظیم البرکت فرماتے ہیں کہ
نہ کہ اذان کہ یہ تو خالص ذکر بھی نہیں کما فی البنایۃ شرح الھدایۃ للامام العینی
سوال۔ پھر آپ کا دوسرا سوال ہوا کہ جب اذان ذکر الہی ہے تو کیا مسجد میں اذان دینے کو منع کرنا ذکر الہی کرنے سے منع کرنا نہیں کہلائے گا؟
الجواب ۔جی آپ کا سوال درست ہے لیکن ہر چیز کا ایک محل ہے اور اس کو اسی محل میں ادا کرنا ضروری ہے اسی اصول پر یہ کہا جائے گا کہ مسجد میں اذان دینی مسجد و دربار الہی کی گستاخی و بے ادبی ہے چونکہ مسجد کی بِنَا اذان دینے کے لئے نہیں ہوئی ہے اذان اعلام نماز کے لئے ہے تو اس کا محل مسجد سے باہر ہے نہ کہ اندر اسی لئے سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان بریلوی رضی آللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ اذان دینے کے لئے مسجد نہی بنی ہے کیونکہ اذان دینے کے لئے مسجد کی بنا ہوتی تو ضرور حضور پرنور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم مسجد کے اندر ہی اذان دلواتے یا کبھی بھی تو اس کا حکم فرماتے ۔مسجد جس کے لئے بنی زمانہ اقدس میں اسی کا مسجد میں ہونا کبھی ثابت نہ ہو یہ کیونکر معقول ہوسکتاہے۔تو وجہ وہی ہے کہ اذان حاضری دربار پکارنے کو ہے اور خود دربار حاضری پکارنے کو نہیں بنتا۔
مسجد میں چلانے سے خود حدیث میں ممانعت ہے اور فقہا نے یہ ممانعت ذکر الہی کو بھی عام رکھی ہے جب تک شارع علیہ السلام سے ثبوت نہ ہو
درمختار میں ہے ۔
یحرم فیہ ۔ای مسجد السوال و یکرہ الاعطاء ورفع صوت بذکر ۔الا للمتفقھۃ یعنی مسجد میں سوال کرنا حرام اور سائل کو دینا مکروہ ہے ۔مسائل فقیہ سیکھانے کے علاؤہ وہاں ذکر سے آواز کا بلند کرنا بھی مکروہ ہے (بحوالہ الدرمختار )
پھر سرکار اعلی حضرت عظیم البرکت فرماتے ہیں کہ
نہ کہ اذان کہ یہ تو خالص ذکر بھی نہیں کما فی البنایۃ شرح الھدایۃ للامام العینی
(فتاویٰ رضویہ جلد جدید پنجم ص 411)
مسجد نماز پڑھنے کے لئے بنائی گئی ہے نہ کہ اذان دینے کے لئے
حضور تاج الشریعہ مفتی اختر رضا خان بریلوی قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں کہ کہیں منقول نہیں کہ حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی اذان مسجد کے اندر کہلوائی ہو (فتاویٰ تاج الشریعہ جلد سوم ص 67)
بے شک اذان ذکر الہی اور مسجد میں ذکر الہی جائز ہے مگر مسجد میں اذان بہ نیت ذکر نہیں دی جاتی بلکہ اعلام نماز کے لئےدی جاتی ہے اس لئے مسجد میں اذان جائز نہیں ہے
پھر آپ کا تیسرا سوال ہوا کہ کیا طلب بارش کے لئے یا دفع بلا کے لئے مسجد میں اذان دینی جائز ہے یا نہیں؟
سرکار اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں کہ
مسجد کے اندر وقتی اذان کہنا مکروہ ہے
مگر اذان بغرض طلب باراں یا دفع وبا بہ نیت اذان و اعلان و طلب مردمان نہیں ہوتی بلکہ بہ نیت ذکر اور ذکر مسجد میں جائز ہے پھر بھی اولی یہ ہے کہ بیرون مسجد فصیل وغیرہ پر ہو ۔اس میں اصلا کوئی حرج نہیں ۔کہ اذان ذکر الہی ہے ۔اور بارش رحمت الہی اور ذکر الہی باعث نزول رحمت الہی ہے
مسجد نماز پڑھنے کے لئے بنائی گئی ہے نہ کہ اذان دینے کے لئے
حضور تاج الشریعہ مفتی اختر رضا خان بریلوی قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں کہ کہیں منقول نہیں کہ حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی اذان مسجد کے اندر کہلوائی ہو (فتاویٰ تاج الشریعہ جلد سوم ص 67)
بے شک اذان ذکر الہی اور مسجد میں ذکر الہی جائز ہے مگر مسجد میں اذان بہ نیت ذکر نہیں دی جاتی بلکہ اعلام نماز کے لئےدی جاتی ہے اس لئے مسجد میں اذان جائز نہیں ہے
پھر آپ کا تیسرا سوال ہوا کہ کیا طلب بارش کے لئے یا دفع بلا کے لئے مسجد میں اذان دینی جائز ہے یا نہیں؟
سرکار اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں کہ
مسجد کے اندر وقتی اذان کہنا مکروہ ہے
مگر اذان بغرض طلب باراں یا دفع وبا بہ نیت اذان و اعلان و طلب مردمان نہیں ہوتی بلکہ بہ نیت ذکر اور ذکر مسجد میں جائز ہے پھر بھی اولی یہ ہے کہ بیرون مسجد فصیل وغیرہ پر ہو ۔اس میں اصلا کوئی حرج نہیں ۔کہ اذان ذکر الہی ہے ۔اور بارش رحمت الہی اور ذکر الہی باعث نزول رحمت الہی ہے
(تلخیص فتاویٰ رضویہ جلد اول ص 420 اور فتاویٰ رضویہ جلد جدید پنجم ص 373)
اس سے واضح ہوا کہ اذان مسجد میں بہ نیت اذان منع ہے نہ کہ بہ نیت ذکر منع ہے اور ذکر سے بلا دور ہوتی ہے اور ذکر دعا بھی ہے
اور ہر ذکر دعا ہے ملا علی قاری شرح مشکوٰۃ میں فرماتے ہیں کہ کل ذکر دعاء ہر ذکر دعا ہے (مرقاۃ جلد 5 ص 112)
اسی لئے دفع بلا اور طلب بارش کی نیت سے مسجد میں اذان جائز پھر بھی اولی ہے کہ ان امور کے لئے بھی خارج مسجد اذان دی جائے۔
پھر آپ کا چوتھا سوال ہوا کہ اعلی حضرت اور صدرالشریعہ نے صرف مکروہ فرمایا اور آپ مکروہ تحریمی فرمارہے ہیں؟
اس کا جواب یہ ہے کہ جب علمائے احناف مطلقا مکروہ کہتے ہیں تو اس سے مراد مکروہ تحریمی ہوتی ہے ۔
پھر آپ کا پانچواں سوال ہوا کہ بے وضو اذان کہنا کیسا ہے؟
سرکار اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان بریلوی رضی آللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ جائز ہے بایں معنے کہ اذان ہوجائے گی مگر چاہیئے نہیں ۔حدیث میں اس سے ممانعت آئی ہے ۔ولہذا علامہ شرنبلانی نے نظر بحدیث کراہت اختیار فرمائی ہے (فتاویٰ رضویہ جلد جدید پنجم ص 373)
کیا داخل مسجد اذان دینے کو سرکار اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان بریلوی رضی آللہ تعالیٰ عنہ نے صرف مکروہ ہی فرمایا
الجواب ۔نہیں کہیں" مکروہ "فرمایا اور کسی جگہ" ممنوع "فرمایا ۔اور اسی طرح نبیرہ اعلی حضرت عظیم البرکت حضور تاج الشریعہ مفتی اختر رضا خان بریلوی رضی آللہ تعالیٰ عنہ نے کبھی" مکروہ" فرمایا (فتاویٰ تاج الشریعہ جلد سوم ص 55)
کبھی جائز نہیں ہے جیسےمسجد میں کوئی اذان دینا جائز نہیں ہے
اس سے واضح ہوا کہ اذان مسجد میں بہ نیت اذان منع ہے نہ کہ بہ نیت ذکر منع ہے اور ذکر سے بلا دور ہوتی ہے اور ذکر دعا بھی ہے
اور ہر ذکر دعا ہے ملا علی قاری شرح مشکوٰۃ میں فرماتے ہیں کہ کل ذکر دعاء ہر ذکر دعا ہے (مرقاۃ جلد 5 ص 112)
اسی لئے دفع بلا اور طلب بارش کی نیت سے مسجد میں اذان جائز پھر بھی اولی ہے کہ ان امور کے لئے بھی خارج مسجد اذان دی جائے۔
پھر آپ کا چوتھا سوال ہوا کہ اعلی حضرت اور صدرالشریعہ نے صرف مکروہ فرمایا اور آپ مکروہ تحریمی فرمارہے ہیں؟
اس کا جواب یہ ہے کہ جب علمائے احناف مطلقا مکروہ کہتے ہیں تو اس سے مراد مکروہ تحریمی ہوتی ہے ۔
پھر آپ کا پانچواں سوال ہوا کہ بے وضو اذان کہنا کیسا ہے؟
سرکار اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان بریلوی رضی آللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ جائز ہے بایں معنے کہ اذان ہوجائے گی مگر چاہیئے نہیں ۔حدیث میں اس سے ممانعت آئی ہے ۔ولہذا علامہ شرنبلانی نے نظر بحدیث کراہت اختیار فرمائی ہے (فتاویٰ رضویہ جلد جدید پنجم ص 373)
کیا داخل مسجد اذان دینے کو سرکار اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان بریلوی رضی آللہ تعالیٰ عنہ نے صرف مکروہ ہی فرمایا
الجواب ۔نہیں کہیں" مکروہ "فرمایا اور کسی جگہ" ممنوع "فرمایا ۔اور اسی طرح نبیرہ اعلی حضرت عظیم البرکت حضور تاج الشریعہ مفتی اختر رضا خان بریلوی رضی آللہ تعالیٰ عنہ نے کبھی" مکروہ" فرمایا (فتاویٰ تاج الشریعہ جلد سوم ص 55)
کبھی جائز نہیں ہے جیسےمسجد میں کوئی اذان دینا جائز نہیں ہے
(المرجوع السابق میں 58)
اور کسی جگہ مکروہ تحریمی فرمایا کہ
اندرون مسجد اذان دینا مکروہ تحریمی ہے خارج مسجد اذان کہی جائے
اور کسی جگہ مکروہ تحریمی فرمایا کہ
اندرون مسجد اذان دینا مکروہ تحریمی ہے خارج مسجد اذان کہی جائے
(المرجوع السابق میں 59)
حضور فقیہ ملت مفتی جلال الدین امجدی رحمہ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
جب کتب فقہ نے ضابطہ کلیہ بیان فرمادیا کہ مسجد کے اندر اذان دینا جائز نہیں
حضور فقیہ ملت مفتی جلال الدین امجدی رحمہ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
جب کتب فقہ نے ضابطہ کلیہ بیان فرمادیا کہ مسجد کے اندر اذان دینا جائز نہیں
(فتاوی فیض رسول جلد اول ص 209)
پھرحضور فقہ ملت فرماتے ہیں کہ
مسجد کے اندر اذان ممنوع ہے
پھرحضور فقہ ملت فرماتے ہیں کہ
مسجد کے اندر اذان ممنوع ہے
(فتاویٰ فیض رسول جلد اول ص 208)
ایک جگہ اور فرماتے ہیں کہ
جو لوگ مسجد کے اندر اذان پڑھنے کو صحیح سمجھتے ہیں وہ فقہ اور حدیث شریف کے بجائے رواج کے ماننے والے ہیں کہ ان کے پاس ہٹ دھرمی اور رواج کے سوا مسجد کے اندر اذان پڑھنے کا کوئی ثبوت نہیں (فتاویٰ فیض رسول جلد اول ص 223)
پس ظاہر ہوگیا کہ ہمارے علمائے کرام مسجد کے اندر اذان دینے کو کبھی "مکروہ" کہتے ہیں کبھی" ممنوع "فرماتے ہیں کبھی" جائز نہیں" کبھی" ناجائز" فرماتے ہیں کسی نے "مکروہ تنزیہی" نہیں کہا کیونکہ "مکروہ تنزیہی" نہ "ممنوع "ہے نہ "ناجائز" ہے اور نہ "منع" ہے.
حضور سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان بریلوی رضی آللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
اذان مسجد میں منع ہے (فتاویٰ رضویہ جلد جدید ہشتم ص 73)
اس سے واضح ہوا کہ مسجد میں اذان "منع "ہے اور جو منع ہوگا وہ "مکروہ تنزیہی" نہیں ہے کہ سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان بریلوی رضی آللہ تعالیٰ عنہ ردالمحتار میں ہمارے ائمہ ثلاثہ کا اجماع بتایا ہے کہ
مکروہ تنزیہی ممنوع نہیں (تلخیص فتاوی رضویہ جلد اول ص 108)
اور سرکار اعلی حضرت عظیم البرکت فرماتے ہیں کہ
مکروہ تنزیہی لغۃ و شرعا منہی عنہ نہیں اگرچہ نحویوں کے طور پر اس میں صیغہ نہی ہو
ایک جگہ اور فرماتے ہیں کہ
جو لوگ مسجد کے اندر اذان پڑھنے کو صحیح سمجھتے ہیں وہ فقہ اور حدیث شریف کے بجائے رواج کے ماننے والے ہیں کہ ان کے پاس ہٹ دھرمی اور رواج کے سوا مسجد کے اندر اذان پڑھنے کا کوئی ثبوت نہیں (فتاویٰ فیض رسول جلد اول ص 223)
پس ظاہر ہوگیا کہ ہمارے علمائے کرام مسجد کے اندر اذان دینے کو کبھی "مکروہ" کہتے ہیں کبھی" ممنوع "فرماتے ہیں کبھی" جائز نہیں" کبھی" ناجائز" فرماتے ہیں کسی نے "مکروہ تنزیہی" نہیں کہا کیونکہ "مکروہ تنزیہی" نہ "ممنوع "ہے نہ "ناجائز" ہے اور نہ "منع" ہے.
حضور سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان بریلوی رضی آللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
اذان مسجد میں منع ہے (فتاویٰ رضویہ جلد جدید ہشتم ص 73)
اس سے واضح ہوا کہ مسجد میں اذان "منع "ہے اور جو منع ہوگا وہ "مکروہ تنزیہی" نہیں ہے کہ سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان بریلوی رضی آللہ تعالیٰ عنہ ردالمحتار میں ہمارے ائمہ ثلاثہ کا اجماع بتایا ہے کہ
مکروہ تنزیہی ممنوع نہیں (تلخیص فتاوی رضویہ جلد اول ص 108)
اور سرکار اعلی حضرت عظیم البرکت فرماتے ہیں کہ
مکروہ تنزیہی لغۃ و شرعا منہی عنہ نہیں اگرچہ نحویوں کے طور پر اس میں صیغہ نہی ہو
(تلخیص فتاویٰ رضویہ جلد اول ص 106)
فتاوی رضویہ میں ہے کہ مکروہ تنزیہی جواز اباحت رکھتا ہے نہ کہ گناہ و حرمت
فتاوی رضویہ میں ہے کہ مکروہ تنزیہی جواز اباحت رکھتا ہے نہ کہ گناہ و حرمت
(فتویٰ رضویہ جلد ہفتم جدید ص 479)
پھر فرماتے ہیں کہ مکروہ تنزیہی قسم مباح ہے (المرجوع السابق ص 156)
بس تحقیق صحیح یہی ہے کہ مکروہ تنزیہی" نہ" ممنوع" ہے نہ "ناجائز " نہ "گناہ" اور نہ" منع" یے بلکہ قسم" مباح" ہے یعنی جائز ہے ہاں پسندیدہ نہیں ہے اور "مکروہ تنزیہی" جائز ہے تو پھر سرکار اعلی حضرت کیوں فرماتے ہیں کہ مسجد کے اندر اذان منع ہے ؟پھر حضور فقیہ ملت کیوں فرماتے کہ مسجد کے اذان دینا جائز نہیں؟ پھر حضور تاج الشریعہ کیوں فرماتے کہ مسجد میں اذان دینا جائز نہیں ؟ مسجد میں اذان دینا مکروہ تحریمی ہے ؟ ان تمام تصریحات سے واضح ہوا کہ مسجد میں اذان دینا "مکروہ تحریمی" ہے جائز؛ نہیں ہے بلکہ ناجائز ہے کسی بھی حال میں "مکروہ تنزیہی" نہیں ہے ۔ اس قول پر کہ مسجد کے اندر اذان دینا مکروہ تنزیہی ہے؛ اڑا رہنا ہٹ دھرمی ہے اور علم فقہ و حدیث اور قواعد فقہی سے جہالت و غفلت ہے ۔اس کے علاوہ کُچھ نہیں ہے ۔
سوال
اس مکروہ کو کس پر محمول کیا جائے گا یعنی مکروہ تحریمی پر یا مکروہ تنزیہی پر
مکروہ تحریمی پر محمول کیا جائے گا ۔حلیہ کے حوالہ سے ہے کہ
تحمل الکراہۃ علی التنزیھیۃ بعدم دلیل التحریمۃ یعنی جب تحریمی پر دلیل نہ ہو تو مکروہ کو مکروہ تنزیہی پر محمول کیا جاتا ہے ( فتاوی رضویہ جلد جدید ہشتم ص 357)
اور یہاں ائمہ کرام سے نہی کا حکم موجود ہے پھر اگر مکروہ تنزیہی پر محمول کیا جائے گا تو خود سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان بریلوی رضی آللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ مکروہ تنزیہی ممنوع نہیں اور جب ممنوع نہیں تو ناجائز نہیں ہے جب کہ سرکار سیدی اعلی حضرت نے مسجد میں اذان دینے کو ممنوع قرار دیا اور حضور تاج الشریعہ نے ناجائز اور مکروہ تحریمی فرمایا اور حضور فقیہ ملت نے ناجائز فرمایا اور "ناجائز" یا "جائز نہیں" مکروہ تنزیہی کو نہیں کہا جاتا ہے کہ مکروہ تنزیہی قسم مباح سے ہے ۔
چلیے مان لیا جائے کہ فقہا نے صرف مکروہ کہا لیکن حضور مجدد اعظم امام اہل سنت حضور امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف نے مکروہ و ممنوع کی تصریح فرمائی اب جانے کہ آپ کے نزدیک مکروہ سے مکروہ تنزیہی مراد ہے تو پھر ممنوع سے کیا مراد لیں گے کیونکہ مکروہ تنزیہی قسم اباحت میں داخل ہے اور ممنوع قسم ممانعت میں داخل ہے تو جو مکروہ تنزیہی ہے وہ ممنوع نہیں اور جو ممنوع ہے وہ جائز نہیں اس لئے صحیح حکم یہی ہے کہ مکروہ و ممنوع سے مراد مکروہ تحریمی ہے جیسا کہ فقہا فرماتے ہیں ۔*ممنوع کس کے مقابل میں آتا ہے؟
الجواب ۔فتاوی بریلی شریف میں ہے کہ ممنوع کبھی مکروہ تحریمی کے مقابل بولا جاتا ہے اور اس کا کرنا عبادت کو ناقص کردیتا ہے اور کرنے والا گنہگار ہوتا ہے اگرچہ اس کا گناہ حرام سے کم ہے اور کئی بار اس کا ارتکاب کبیرہ ہے اور حرام یہ فرض کا مقابل ہے اس کا ایک بار بھی قصدا کرنا گناہ کبیرہ و فسق اور بچنا فرض ہے
پھر فرماتے ہیں کہ مکروہ تنزیہی قسم مباح ہے (المرجوع السابق ص 156)
بس تحقیق صحیح یہی ہے کہ مکروہ تنزیہی" نہ" ممنوع" ہے نہ "ناجائز " نہ "گناہ" اور نہ" منع" یے بلکہ قسم" مباح" ہے یعنی جائز ہے ہاں پسندیدہ نہیں ہے اور "مکروہ تنزیہی" جائز ہے تو پھر سرکار اعلی حضرت کیوں فرماتے ہیں کہ مسجد کے اندر اذان منع ہے ؟پھر حضور فقیہ ملت کیوں فرماتے کہ مسجد کے اذان دینا جائز نہیں؟ پھر حضور تاج الشریعہ کیوں فرماتے کہ مسجد میں اذان دینا جائز نہیں ؟ مسجد میں اذان دینا مکروہ تحریمی ہے ؟ ان تمام تصریحات سے واضح ہوا کہ مسجد میں اذان دینا "مکروہ تحریمی" ہے جائز؛ نہیں ہے بلکہ ناجائز ہے کسی بھی حال میں "مکروہ تنزیہی" نہیں ہے ۔ اس قول پر کہ مسجد کے اندر اذان دینا مکروہ تنزیہی ہے؛ اڑا رہنا ہٹ دھرمی ہے اور علم فقہ و حدیث اور قواعد فقہی سے جہالت و غفلت ہے ۔اس کے علاوہ کُچھ نہیں ہے ۔
سوال
اس مکروہ کو کس پر محمول کیا جائے گا یعنی مکروہ تحریمی پر یا مکروہ تنزیہی پر
مکروہ تحریمی پر محمول کیا جائے گا ۔حلیہ کے حوالہ سے ہے کہ
تحمل الکراہۃ علی التنزیھیۃ بعدم دلیل التحریمۃ یعنی جب تحریمی پر دلیل نہ ہو تو مکروہ کو مکروہ تنزیہی پر محمول کیا جاتا ہے ( فتاوی رضویہ جلد جدید ہشتم ص 357)
اور یہاں ائمہ کرام سے نہی کا حکم موجود ہے پھر اگر مکروہ تنزیہی پر محمول کیا جائے گا تو خود سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان بریلوی رضی آللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ مکروہ تنزیہی ممنوع نہیں اور جب ممنوع نہیں تو ناجائز نہیں ہے جب کہ سرکار سیدی اعلی حضرت نے مسجد میں اذان دینے کو ممنوع قرار دیا اور حضور تاج الشریعہ نے ناجائز اور مکروہ تحریمی فرمایا اور حضور فقیہ ملت نے ناجائز فرمایا اور "ناجائز" یا "جائز نہیں" مکروہ تنزیہی کو نہیں کہا جاتا ہے کہ مکروہ تنزیہی قسم مباح سے ہے ۔
چلیے مان لیا جائے کہ فقہا نے صرف مکروہ کہا لیکن حضور مجدد اعظم امام اہل سنت حضور امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف نے مکروہ و ممنوع کی تصریح فرمائی اب جانے کہ آپ کے نزدیک مکروہ سے مکروہ تنزیہی مراد ہے تو پھر ممنوع سے کیا مراد لیں گے کیونکہ مکروہ تنزیہی قسم اباحت میں داخل ہے اور ممنوع قسم ممانعت میں داخل ہے تو جو مکروہ تنزیہی ہے وہ ممنوع نہیں اور جو ممنوع ہے وہ جائز نہیں اس لئے صحیح حکم یہی ہے کہ مکروہ و ممنوع سے مراد مکروہ تحریمی ہے جیسا کہ فقہا فرماتے ہیں ۔*ممنوع کس کے مقابل میں آتا ہے؟
الجواب ۔فتاوی بریلی شریف میں ہے کہ ممنوع کبھی مکروہ تحریمی کے مقابل بولا جاتا ہے اور اس کا کرنا عبادت کو ناقص کردیتا ہے اور کرنے والا گنہگار ہوتا ہے اگرچہ اس کا گناہ حرام سے کم ہے اور کئی بار اس کا ارتکاب کبیرہ ہے اور حرام یہ فرض کا مقابل ہے اس کا ایک بار بھی قصدا کرنا گناہ کبیرہ و فسق اور بچنا فرض ہے
(فتاویٰ بریلی جلد دوم ص 384)
ہمارے علمائے کرام فرماتے ہیں کہ ممنوع مکروہ تحریمی کے مقابل میں آتا ہے ۔اب آپ فیصلہ فرمائیں کہ مکروہ وممنوع سے کیا مراد ہوسکتا ہے ۔
اور سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام اہل سنت حضور مجدد اعظم سیدنا امام احمد رضا خان قادری قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
منع مکروہ تحریمی ہے
لقولہ یمنع منہ و انما المنع عن المکروہ تحریما واما کراھۃ التنزیہۃ فتجامع الاباحۃ یعنی کیونکہ اس کا قول ہے اس سے منع کیا گیا ہے اور منع مکروہ تحریمی سے ہوتا ہے کراہت تنزیہی تو اباحت کے ساتھ جمع ہوتا ہے (فتاویٰ رضویہ جلد جدید ہشتم ص 93)
پس داخل مسجد اذان دینا خواہ لاؤڈ اسپیکر کے ساتھ یا بغیر لاؤڈ سپیکر سے "ناجائز "اور "مکروہ تحریمی" ہے یہی تحقیق مشائخ بریلی شریف کا ہے۔
اب کسی کا لاؤڈ اسپیکر سے ممانعت کی دلیل طلب کرنا مناسب بات نہیں ہے کیونکہ جب مسجد میں اذان دینا ہی جائز نہیں تو ناجائز کام لاؤڈ اسپیکر سے جائز کیسے ہوسکتا ہے؟
پھر بھی کوئی شخص ضد کریں کہ قیامت تک لاؤڈ اسپیکر سے اذان کی ممانعت ثابت نہیں ہوسکتی ہے اس کے لئے حضور حجۃالاسلام کا یہ پیغام کافی ہے ۔
حضور حجۃالاسلام حضرت علامہ مفتی محمد حامد رضا خان بریلوی قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
ہر بات اپنے ہی مرتبے کی دلیل چاہتی ہے جو فرق مراتب نہ کرے اور ایک مرتبے کی بات کو اس سے آعلی درجے کی دلیل مانگے جاہل، بے وقوف ہے یا مکار فلیسوف ۔
ہر سخن وقتے و ہر نکتہ مقامے دارد
گر فرق مراتب نکنی زندیقی
اور بالخصوص قرآن بلکہ حدیث ہی میں تصریح صریح ہونے کی تو اصلا ضرورت نہیں حتی کہ مراتب اعلی ضرورت دین میں بھی بہت باتیں ضروریات دین سے ہیں ۔جن کا منکر یقینا کافر مگر بالتصریح ان کا ذکر آیات و احادیث میں نہیں ۔اس کی نظیر یوں سمجھنا چاہیے کہ :کوئی کہے فلاں بیگ کا باپ قوم کا مرزا تھا زید کہے کہ اس کا ثبوت کیا ہے ؟ ہمیں قرآن میں لکھا دیکھا دو کہ مرزا تھا ورنہ ہم نہ مانیں گے کہ قرآن کے تواتر کے برابر کوئی تواتر نہیں ہے ایسے سفیہ کو مجنون سے بہتر اور کیا لقب دیا جاسکتا ہے
ہمارے علمائے کرام فرماتے ہیں کہ ممنوع مکروہ تحریمی کے مقابل میں آتا ہے ۔اب آپ فیصلہ فرمائیں کہ مکروہ وممنوع سے کیا مراد ہوسکتا ہے ۔
اور سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام اہل سنت حضور مجدد اعظم سیدنا امام احمد رضا خان قادری قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
منع مکروہ تحریمی ہے
لقولہ یمنع منہ و انما المنع عن المکروہ تحریما واما کراھۃ التنزیہۃ فتجامع الاباحۃ یعنی کیونکہ اس کا قول ہے اس سے منع کیا گیا ہے اور منع مکروہ تحریمی سے ہوتا ہے کراہت تنزیہی تو اباحت کے ساتھ جمع ہوتا ہے (فتاویٰ رضویہ جلد جدید ہشتم ص 93)
پس داخل مسجد اذان دینا خواہ لاؤڈ اسپیکر کے ساتھ یا بغیر لاؤڈ سپیکر سے "ناجائز "اور "مکروہ تحریمی" ہے یہی تحقیق مشائخ بریلی شریف کا ہے۔
اب کسی کا لاؤڈ اسپیکر سے ممانعت کی دلیل طلب کرنا مناسب بات نہیں ہے کیونکہ جب مسجد میں اذان دینا ہی جائز نہیں تو ناجائز کام لاؤڈ اسپیکر سے جائز کیسے ہوسکتا ہے؟
پھر بھی کوئی شخص ضد کریں کہ قیامت تک لاؤڈ اسپیکر سے اذان کی ممانعت ثابت نہیں ہوسکتی ہے اس کے لئے حضور حجۃالاسلام کا یہ پیغام کافی ہے ۔
حضور حجۃالاسلام حضرت علامہ مفتی محمد حامد رضا خان بریلوی قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
ہر بات اپنے ہی مرتبے کی دلیل چاہتی ہے جو فرق مراتب نہ کرے اور ایک مرتبے کی بات کو اس سے آعلی درجے کی دلیل مانگے جاہل، بے وقوف ہے یا مکار فلیسوف ۔
ہر سخن وقتے و ہر نکتہ مقامے دارد
گر فرق مراتب نکنی زندیقی
اور بالخصوص قرآن بلکہ حدیث ہی میں تصریح صریح ہونے کی تو اصلا ضرورت نہیں حتی کہ مراتب اعلی ضرورت دین میں بھی بہت باتیں ضروریات دین سے ہیں ۔جن کا منکر یقینا کافر مگر بالتصریح ان کا ذکر آیات و احادیث میں نہیں ۔اس کی نظیر یوں سمجھنا چاہیے کہ :کوئی کہے فلاں بیگ کا باپ قوم کا مرزا تھا زید کہے کہ اس کا ثبوت کیا ہے ؟ ہمیں قرآن میں لکھا دیکھا دو کہ مرزا تھا ورنہ ہم نہ مانیں گے کہ قرآن کے تواتر کے برابر کوئی تواتر نہیں ہے ایسے سفیہ کو مجنون سے بہتر اور کیا لقب دیا جاسکتا ہے
(فتاویٰ حجۃ السلام ص 134.135.136)
بس واضح ہوا کہ لاؤڈ اسپیکر سے اذان کی ممانعت کا ثبوت مانگنا مجنوں پن ہے جیسا کہ حضور حجۃ السلام نے کسی مسئلہ کی وضاحت میں تحریر فرمائی ۔
حضور حجۃالاسلام فرماتے ہیں کہ ۔جو شخص کسی بات کا مدعی ہو اس کا بار ثبوت اسی کے ذمہ ہوتا ہے ۔ اپنے دعویٰ کا ثبوت نہ دے اور دوسروں سے الٹا ثبوت مانگتا پھرے وہ پاگل ومجنون کہلاتا ہے یا مکار فتین (فتویٰ حجۃ السلام ص 136)
________(❤️)_________
کتبہ -حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ثناء اللہ خاں ثناء القادری
بس واضح ہوا کہ لاؤڈ اسپیکر سے اذان کی ممانعت کا ثبوت مانگنا مجنوں پن ہے جیسا کہ حضور حجۃ السلام نے کسی مسئلہ کی وضاحت میں تحریر فرمائی ۔
حضور حجۃالاسلام فرماتے ہیں کہ ۔جو شخص کسی بات کا مدعی ہو اس کا بار ثبوت اسی کے ذمہ ہوتا ہے ۔ اپنے دعویٰ کا ثبوت نہ دے اور دوسروں سے الٹا ثبوت مانگتا پھرے وہ پاگل ومجنون کہلاتا ہے یا مکار فتین (فتویٰ حجۃ السلام ص 136)
________(❤️)_________
کتبہ -حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ثناء اللہ خاں ثناء القادری
صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی مرپاوی سیتا مڑھی بہار
14 جمادی الاول 1444
مطابق 9 دسمبر 2022
نشر کی تاریخ:-
14/08/2023
14 جمادی الاول 1444
مطابق 9 دسمبر 2022
نشر کی تاریخ:-
14/08/2023
26/01/1445
________(❣️)_________
بہ واسطہ:- حضرت علامہ مولانا محمّد جنید عالم شارق مصباحی
بہ واسطہ:- حضرت علامہ مولانا محمّد جنید عالم شارق مصباحی
صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی ساکن بیتاہی ،
خطیب و امام حضرت بلال جامع مسجد کوئیلی سیتا مڑھی بہار