مزارات کی حرمت وعظمت وحاضری کے آداب
_________(❤️)_________
کتبہ :-محمد گل ریز مصباحی بریلی شریف یوپی
خادم التدريس جامعة المدینه فیضان عطار ناگ پور
کتبہ :-محمد گل ریز مصباحی بریلی شریف یوپی
خادم التدريس جامعة المدینه فیضان عطار ناگ پور
_________(❤️)_________
تمام خوبیاں اللہ عزوجل کے لیے ہیں جس نے اپنی مخلوق پر بے شمار فضل وإحسان فرمایا اور اپنے بندوں میں سے بعض کو پسند فرماکر خاص فرمایا اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے محبوبیت کا أعزار بخشا یہی وہ لوگ ہیں جن سے زمانے کی زینت ہوتی ہے جن کی برکت سے بارشیں ہوتی ہیں جب لوگ سوتے ہیں تو یہ اللہ کی عبادت کرتے ہیں لوگ شکم سیر ہوتے ہیں لیکن یہ بھوکے ہوتے ہیں لوگ شکوے شکایت کرتے ہیں لیکن یہ لوگ خدا کی مدح و ثنا کرتے ہیں ان کی زندگی کا ہر ہر عمل دوسروں کے لیے نمونہ عمل ہوتا ہے یہی وہ نفوس قدسیہ ہیں جنھیں اللہ نے اپنی معرفت وپہچان عطا کی انہیں اپنے رازوں سے آگاہ فرمایا ان کے دلوں پر خاص تجلی ڈال کر انہیں چمکتا آفتاب بنادیا اور ان کو بصارت اور بصیرت یافتہ بنادیا یہ حضرات جب تک ظاھری دنیا میں رہتے ہیں امیر وغریب ان کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اپنی عقیدت ومحبت کا اظھار کرتے ہیں اور بعد وصال ان کے در پر حاضر ہوکر اپنی پریشانی کا اظھار کرتے ہیں تو اللہ تعالی اپنے ان نیک بندوں کے وسیلے سے ان کی مرادیں پوری فرماتا ہے یہ اللہ کے نیک بندے ظاھری دنیا میں رہتے ہوے قابل تعظیم ہیں بعد وصال جس جگہ انھیں دفن کیا جاے وہ جگہ بھی قابل تعظیم اور باعث برکت ہے اس لیے دنیا بھر کے مسلمان اللہ کے نیک بندوں کے مزارات پر حاضر ہوتے ہیں اور ادب وتعظيم کا اظھار کرتے ہیں
اللہ تعالی کی نشانیاں وہ چیزیں ہیں جن کے سبب معرفت الہی عزوجل حاصل ہوتی ہے جیسا کہ علماے کرام اور نیک پرہیزگار لوگ چاہے زندہ ہوں یا وفات پاچکے ہوں.
مزارات کی عظمت وحرمت یہ بھی ہے کہ ان پر گنبد بناے جائیں
دعوت اسلامی کی مطبوعہ کتاب فیضان مزارات اولیا ص 105 پر ہے کہ اولیاے کرام رحمھم اللہ السلام کی قبروں پر گنبد بنانا، اور ان کے لیے اعلی قسم کی لکڑی کے تابوت بنانا کہ عوام الناس ان کو بے ادبی کی نگاہ سے نہ دیکھیں یہ بھی ان کی تعظیم ہی ہے اگرچہ بدعت ہے لیکن بدعت حسنہ یعنی اچھی بدعت ہے. جیسا کہ فقہائے کرام رحمھم اللہ السلام فرماتے ہیں: "علماے کرام رحمھم اللہ تعالی کے لیے بڑے بڑے عمامے کھلے کھلے کپڑے پہننا جائز ہے تاکہ عام لوگ ان کو حقیر نہ سمجھیں اور ان کی تعظیم کریں" اگرچہ یہ ایسی بدعت ہے جس پر ہمارے اسلاف کا عمل نہ تھا.
امام عبد الغنی بن اسمعیل نابلسی دمشقی حنفی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب "کشف النور عن أصحاب القبور" میں فرماتے ہیں (یہ کتاب فیضان مزارات اولیاء کے نام سے مکتبہ المدینہ سے شایع ہوچکی ہے)." اگر چادریں چڑھانے اور عمامے وکپڑے وغیرہ رکھنے کا مقصد یہ ہے کہ عام لوگوں کی نظر میں ان کی عزت وعظمت میں زیادتی ہو، تاکہ لوگ صاحب مزار سے نفرت نہ کریں، اور غافل زائرین کے دلوں میں ان کا ادب واحترام پیدا ہو، کیونکہ ان کے دل مزارات اولیاء کرام رحمھم اللہ السلام کی بارگاہ میں حاضری دینے اور ان کا ادب واحترام کرنے سے خالی ہوتے ہیں، لہذا چادریں چڑھانا اور عمامے وغیرہ رکھنا بالکل جائز ہے اور اس سے منع نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے اور پرایک کے لیے اسی کا بدلہ ہے جو اس نے نیت کی، اگرچہ یہ ایسی بدعت ہے جس پر ہمارے اسلاف کا عمل نہ تھا..
سیدی سرکار اعلی حضرت رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں "اور جب چادر موجود ہو اور وہ ہنوز پرانی یا خراب نہ ہوئی ہو کہ بدلنے کی حاجت ہو
تو بیکار چادر چڑھانا فضول ہے. بلکہ جو دام اس میں صرف کریں ولی اللہ کی روح مبارک کو ایصال ثواب کے لیے محتاج کو دیں. ہاں جہاں معمول ہوکہ چڑھائی ہوئی چادر جب حاجت سے زیادہ ہو، خدام، مساکین حاجت مند لے لیتے ہیں اور اس نیت سے ڈالے تو مضائقہ نہیں کہ یہ بھی تصدق ہوگیا. ".(احکام شریعت، حصہ اول، ص 89)
نیز کعبۃ اللہ شریف پر غلاف چڑھانا بھی جائز ہے، فقہاء کرام فرماتے ہیں : کعبہ اللہ شریف پر ریشمی غلاف چڑھانا جائز ہے اور صالحین وأولياء کرام رحمھم اللہ السلام کے مزارات اگر چہ کعبۃ اللہ نہیں اور نہ ہی احکام میں کعبۃ اللہ شریف کی طرح ہیں مگر قابل احترام ضرور ہیں کیونکہ ہمیں نماز میں کعبۃ اللہ شریف کی طرف منھ کرنے، اس کا طواف وأدب و احترام کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اللہ تعالی کی طرف سے ہم اس کے پابند ہیں ورنہ وہ محض پتھروں کا مجموعہ ہے
(فیضان مزارات اولیاء. ص 109)
(فیضان مزارات اولیاء ص 114)
تمام خوبیاں اللہ عزوجل کے لیے ہیں جس نے اپنی مخلوق پر بے شمار فضل وإحسان فرمایا اور اپنے بندوں میں سے بعض کو پسند فرماکر خاص فرمایا اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے محبوبیت کا أعزار بخشا یہی وہ لوگ ہیں جن سے زمانے کی زینت ہوتی ہے جن کی برکت سے بارشیں ہوتی ہیں جب لوگ سوتے ہیں تو یہ اللہ کی عبادت کرتے ہیں لوگ شکم سیر ہوتے ہیں لیکن یہ بھوکے ہوتے ہیں لوگ شکوے شکایت کرتے ہیں لیکن یہ لوگ خدا کی مدح و ثنا کرتے ہیں ان کی زندگی کا ہر ہر عمل دوسروں کے لیے نمونہ عمل ہوتا ہے یہی وہ نفوس قدسیہ ہیں جنھیں اللہ نے اپنی معرفت وپہچان عطا کی انہیں اپنے رازوں سے آگاہ فرمایا ان کے دلوں پر خاص تجلی ڈال کر انہیں چمکتا آفتاب بنادیا اور ان کو بصارت اور بصیرت یافتہ بنادیا یہ حضرات جب تک ظاھری دنیا میں رہتے ہیں امیر وغریب ان کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اپنی عقیدت ومحبت کا اظھار کرتے ہیں اور بعد وصال ان کے در پر حاضر ہوکر اپنی پریشانی کا اظھار کرتے ہیں تو اللہ تعالی اپنے ان نیک بندوں کے وسیلے سے ان کی مرادیں پوری فرماتا ہے یہ اللہ کے نیک بندے ظاھری دنیا میں رہتے ہوے قابل تعظیم ہیں بعد وصال جس جگہ انھیں دفن کیا جاے وہ جگہ بھی قابل تعظیم اور باعث برکت ہے اس لیے دنیا بھر کے مسلمان اللہ کے نیک بندوں کے مزارات پر حاضر ہوتے ہیں اور ادب وتعظيم کا اظھار کرتے ہیں
زیر نظر مضمون میں مزارات کی عظمت وحرمت اور حاضری کے آداب پر کچھ گفتگو کریں گے
چاہے وہ انسان زندہ ہو یا مردہ تعظیم میں دونوں برابر ہیں کیوں کہ زندہ اور مردہ اللہ تعالی کی مخلوق ہیں اور ان میں کوئی بھی کسی شی میں قطعا مؤثر حقیقی نہیں کیوں مؤثر حقیقی تو ہر حال میں صرف اللہ تعالی کی ذات ہے اور زندہ اور مردہ مؤثر حقیقی نہ ہونے میں یقیناً برابر ہیں لیکن احترام سب کے حق میں واجب ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ومن یعظم شعائر اللہ فأنھا من تقوی القلوب.. ترجمہ کنز الایمان. اور جو اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کرے تو یہ دلوں کی پرہیز گاری ہےاللہ تعالی کی نشانیاں وہ چیزیں ہیں جن کے سبب معرفت الہی عزوجل حاصل ہوتی ہے جیسا کہ علماے کرام اور نیک پرہیزگار لوگ چاہے زندہ ہوں یا وفات پاچکے ہوں.
مزارات کی عظمت وحرمت یہ بھی ہے کہ ان پر گنبد بناے جائیں
دعوت اسلامی کی مطبوعہ کتاب فیضان مزارات اولیا ص 105 پر ہے کہ اولیاے کرام رحمھم اللہ السلام کی قبروں پر گنبد بنانا، اور ان کے لیے اعلی قسم کی لکڑی کے تابوت بنانا کہ عوام الناس ان کو بے ادبی کی نگاہ سے نہ دیکھیں یہ بھی ان کی تعظیم ہی ہے اگرچہ بدعت ہے لیکن بدعت حسنہ یعنی اچھی بدعت ہے. جیسا کہ فقہائے کرام رحمھم اللہ السلام فرماتے ہیں: "علماے کرام رحمھم اللہ تعالی کے لیے بڑے بڑے عمامے کھلے کھلے کپڑے پہننا جائز ہے تاکہ عام لوگ ان کو حقیر نہ سمجھیں اور ان کی تعظیم کریں" اگرچہ یہ ایسی بدعت ہے جس پر ہمارے اسلاف کا عمل نہ تھا.
قبروں پر قبہ بنانا:-
جامع الفتاوى میں قبر پر قبہ(یعنی گنبد وغیرہ) بنانے کے بارے میں ایک قول یہ ہے" میت مشایخ، علماء اور سادات کرام رحمھم اللہ السلام کی ہو تو ان کی تعظیم کے لیے قبہ بنانا مکروہ نہیں ".(رد المحتار، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب فی دفن المیت ج 3،ص 170)مزارات پر چادر چڑھانا:-
فقہائے کرام نے صالحین اور اولیاے کرام رحمھم اللہ السلام کی قبروں پر چادریں چڑھانے عمامے اور کپڑے وغیرہ رکھنے کو مکروہ کہا ہے، جیسا کہ" فتاوی حجۃ "میں ہے" قبروں پر چادریں چڑھانا مکروہ ہے." (رد المحتار، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب فی دفن المیت، ج 3.ص 171)امام عبد الغنی بن اسمعیل نابلسی دمشقی حنفی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب "کشف النور عن أصحاب القبور" میں فرماتے ہیں (یہ کتاب فیضان مزارات اولیاء کے نام سے مکتبہ المدینہ سے شایع ہوچکی ہے)." اگر چادریں چڑھانے اور عمامے وکپڑے وغیرہ رکھنے کا مقصد یہ ہے کہ عام لوگوں کی نظر میں ان کی عزت وعظمت میں زیادتی ہو، تاکہ لوگ صاحب مزار سے نفرت نہ کریں، اور غافل زائرین کے دلوں میں ان کا ادب واحترام پیدا ہو، کیونکہ ان کے دل مزارات اولیاء کرام رحمھم اللہ السلام کی بارگاہ میں حاضری دینے اور ان کا ادب واحترام کرنے سے خالی ہوتے ہیں، لہذا چادریں چڑھانا اور عمامے وغیرہ رکھنا بالکل جائز ہے اور اس سے منع نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے اور پرایک کے لیے اسی کا بدلہ ہے جو اس نے نیت کی، اگرچہ یہ ایسی بدعت ہے جس پر ہمارے اسلاف کا عمل نہ تھا..
سیدی سرکار اعلی حضرت رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں "اور جب چادر موجود ہو اور وہ ہنوز پرانی یا خراب نہ ہوئی ہو کہ بدلنے کی حاجت ہو
تو بیکار چادر چڑھانا فضول ہے. بلکہ جو دام اس میں صرف کریں ولی اللہ کی روح مبارک کو ایصال ثواب کے لیے محتاج کو دیں. ہاں جہاں معمول ہوکہ چڑھائی ہوئی چادر جب حاجت سے زیادہ ہو، خدام، مساکین حاجت مند لے لیتے ہیں اور اس نیت سے ڈالے تو مضائقہ نہیں کہ یہ بھی تصدق ہوگیا. ".(احکام شریعت، حصہ اول، ص 89)
بیت اللہ شریف سے بڑھ کر تعظیم:-
جب بیت اللہ شریف زادھا اللہ شرفا وتعظیما کی اس قدر تعظیم ہے جو ایک بے جان پتھر ہے تو اولیاء کرام رحمھم اللہ السلام کی کتنی تعظیم ہوگی جو بلاشبہ بیت اللہ شریف سے افضل ہیں، کیونکہ اولیاء کرام رحمھم اللہ السلام تو خالص اللہ تعالی کی عبادت کرنے کے مکلف ہیں اور بیت اللہ شریف مکلف نہیں کہ اس کی عبادت بغیر مکلف ہونے کے ہے اور اگر اولیاء کرام رحمھم اللہ السلام انتقال کرجائیں تو میت بظاہر ایک بے جان چیز کی طرح ہوتی ہے لیکن سب کا احترام کرنا لازم ہےنیز کعبۃ اللہ شریف پر غلاف چڑھانا بھی جائز ہے، فقہاء کرام فرماتے ہیں : کعبہ اللہ شریف پر ریشمی غلاف چڑھانا جائز ہے اور صالحین وأولياء کرام رحمھم اللہ السلام کے مزارات اگر چہ کعبۃ اللہ نہیں اور نہ ہی احکام میں کعبۃ اللہ شریف کی طرح ہیں مگر قابل احترام ضرور ہیں کیونکہ ہمیں نماز میں کعبۃ اللہ شریف کی طرف منھ کرنے، اس کا طواف وأدب و احترام کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اللہ تعالی کی طرف سے ہم اس کے پابند ہیں ورنہ وہ محض پتھروں کا مجموعہ ہے
(فیضان مزارات اولیاء. ص 109)
مزارات اولیاء پر چراغاں کرنا:-
اولیاء وصالحین کرام رحمھم اللہ السلام کے مزارات کے پاس لالٹین اور موم بتیاں وغیرہ روشن کرنا یہ بھی اولیاء کرام کی تعظیم وتوقیر میں سے ہے اور اس کا اچھا ہی مقصد ہے خاص طور پر اگر فقراء ولی کی خدمت کرتے ہوں تو انہیں رات کے وقت قرآن پاک، تسبیح، تہجد وغیرہ عبادات کے لیے چراغ روشن کرنے کی ضرورت ہوتی ہے.(فیضان مزارات اولیاء ص 114)
مزارات اولیاء کو چھونا:-
قبروں پر ہاتھ رکھنے اور اولیاء کرام رحمھم اللہ السلام کی پاکیزہ أرواح والی جگہوں سے برکت حاصل کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں"جامع الفتاوى" میں ہے قبروں پر ہاتھ رکھنا نہ تو سنت ہے اور نہ ہی مستحب مگر اس میں کوئی حرج نہیں.؛ (القنیہ ،کتاب السیر، باب فیما یتعلق بالمقابر الخ ص 227)مزارات پر حاضری کے آداب:-
مجدد اعظم فقیہ بے بدل امام اہل سنت امام احمد رضا علیہ الرحمۃ الرحمن بزرگان دین کے مزارات پر حاضری کا طریقہ یوں بیان فرماتے ہیں:مزارات شریفہ پر حاضری ہونے میں پائینتی کی طرف سے جاے اور کم. از کم. چار ہاتھ کے فاصلہ پر مواجہہ میں کھڑا ہو اور متوسط آواز با ادب سلام عرض کرے :السلام علیک یا سیدی و رحمۃ اللہ و برکاتہ. پھر درود غوثیہ تین بار، الحمد شریف ایک بار، آیت الکرسی ایک بار، سورہ اخلاص سات بار، پھر درود غوثیہ سات بار اور وقت فرصت دے تو سورہ یاسین اور سورہ ملک بھی پڑھ کر اللہ عزوجل سے دعا کرے کہ الہی! اس قراءت پر مجھے اتنا ثواب دے جو تیرے کرم کے قابل ہے، نہ اتنا جو میرے عمل کے قابل ہے اور اسے میری طرف سے اس بندہ مقبول کو نذر پہنچا پھر اپنا جو مطلب جائز شرعی ہو اُس کے لیے دُعا کرے اور صاحبِ مزار کی روح کو اللہ عزوجل کی بارگاہ میں اپنا وسیلہ قرار دے، پھر اسی طرح سلام کر کے واپس آئے. مزار کو نہ ہاتھ لگائے نہ بوسہ دے اور طواف بالاتفاق نا جائز ہے اور سجدہ حرام ہے. (فتاویٰ رضویہ (مخرّجہ)، ج 9ص 169)_________(❤️)_________
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا محمد گل ریز مصباحی
صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی بریلی شریف یوپی
خادم التدريس جامعة المدینه فیضان عطار ناگ پور