(سوال نمبر 251)
موجودہ دور میں باندی رکھنا کیسا ہے؟
_________(❤️)_________
السلام وعلیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
موجودہ دور میں باندی رکھنا کیسا ہے؟
_________(❤️)_________
السلام وعلیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ پہلے عرب میں لوگ غلام اور باندیاں رکھتے تھے اور باندیوں کے ساتھ صحبت بھی کرتے تھے تو کیا یہ ان کے لیئے جائز تھا اور کیا حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے کبھی منع فرمایا تھا یا نہیں اور آج بھی کیا یہ جائز ہے؟ لہٰذا علماء کرام سے گزارش ہے کی مکمل وضاحت کے ساتھ جواب عنایت فرماکر شکریہ کا موقع عنایت فرمایں نوازش ہوگی
فقط والسلام
سائل:- محمد رفیق احمد مقام نواب گنج ضلع بہرائچ شریف یوپی
_________(❤️)_________
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين
فقط والسلام
سائل:- محمد رفیق احمد مقام نواب گنج ضلع بہرائچ شریف یوپی
_________(❤️)_________
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعونه تعالى عز وجل
مسئلہ مسئولہ میں یہ بات درست ہے کہ پہلے عرب ممالک میں غلام کی خرید و فروخت اور باندیاں رکھتے اور باندیوں سے ہمبستری کرنا جائز تھا جو کہ اب موجودہ دور میں دونوں جائز نہیں ہے آقا علیہ السلام نے خرید و فروخت سے منع فرما یا اور باندی کی مخصوص حالت تھی اسے سمجھنے کے لئے قدرے تفصیل میں جانا ہوگا ۔
اللہ سبحانہ و تعالی فرما تا ہے
وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلاَّ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ (النساء، 4: 24)
’اور شوہر والی عورتیں (بھی تم پر حرام ہیں) سوائے ان (جنگی قیدی عورتوں) کے جو تمہاری مِلک میں آ جائیں‘
أی هن محرمات الا ما ملکت اليمين بالسبی من أرض الحرب فان تلک حلال للذی تقع فی سمهه وان کان له زوج. أی فهن لکم حلال اذا انقضت عدتهن.
یعنی خاوندوں والیاں تم پر حرام ہیں مگر وہ باندیاں خواہ خاوندوں والی ہوں جو دارالحرب سے قید ہو کر تمہاری ملکیت میں آ گئیں کہ وہ جس کے حصہ میں آہیں اس کے لئے حلال ہیں۔ اگرچہ ان کے خاوند (دارالحرب میں ہوں)۔ یعنی وہ تمہارے لئے حلال ہیں جب ان کی عدت گزر جائے۔
اسی طرح سورہ مومنون میں اللہ پاک کا ارشاد ہے:
إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَo ففَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْعَادُونَ
سوائے اپنی بیویوں کے یا ان باندیوں کے جو ان کے ہاتھوں کی مملوک ہیں، بے شک (احکامِ شریعت کے مطابق ان کے پاس جانے سے) ان پر کوئی ملامت نہیں۔ پھر جو شخص ان (حلال عورتوں) کے سوا کسی اور کا خواہش مند ہوا تو ایسے لوگ ہی حد سے تجاوز کرنے والے (سرکش) ہیں۔
(المؤمنون، 23: 6، 7)
یہ دو آیات اس باب میں قطعی دلیل ہیں کہ کسی شخص کے لئے جائز قربت کی صرف دو صورتیں ہیں: ایک نکاح اور دوسری شرعی باندی (ملکِ یمین)۔ جب اﷲ تعالیٰ نے خود ان قربت کی دو صورتوں کو جائز قرار دے کر باقی تمام دروازے حرام کر دیئے تو کون ہے جو اﷲ کے حلال کو حرام یا حرام کو حلال قررا دے؟ حلال و حرام ہونے کا سبب اﷲ کا حکم ہے جس نے نکاح اور ملکِ یمین کو صحتِ قربت کا ذریعہ قرار دے کر باقی تمام صورتوں کو حرام و ممنوع قرار دے دیا۔
لہذا ان مخصوص باندی جو دار لحرب میں فتح جنگ کے بعد بطور قید حاصل ہو اور دوسری بیوی ان دو کے سوا شریعت میں ہمبستری کی تیسری کوئی صورت نہیں ہے ۔
معلوم ہوا خرید و فروخت والی باندی سے ہمبستری قطعا حلال نہیں ۔
اقا علیہ السلام نے فرما یا کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:
ثلثة انا خصمهم يوم القيامة رجل أعطی بی ثم عذر، ورجل باغ حرا فاکل ثمنه، ورجل استاجر أجيرا فاستو فی منه ولم يعط اجره.(بخاری، 1: 297)
’قیامت کے دن تین قسم کے لوگوں کے ساتھ میں خود جھگڑوں گا:
١/ اس سے جس نے میرے نام پر کسی سے معاہدہ کیا پھر اس کی خلاف ورزی کی، ٢/ وہ جس نے کسی آزاد انسان کو بیچ کر اس کی قیمت ہڑپ کی
٣/ وہ جس نے کسی مزدور سے کام پورا لیا اور پوری اجرت نہ دی۔.
اس حدیث پاک سے کسی بھی آزاد مرد کا بیچنا جائز نہیں ہے ۔
یاد رہے باندی اور لوندی سے مراد وہ آزاد عورت نہیں ہے جنہیں خرید و فروخت کے ذریعے کام میں لایا جائے،
بلکہ باندی سے مراد شرعی باندی ہے یعنی وہ غیر مسلم عورتیں جو بعد جہاد بطور غنیمت ملی ہو پھر اسلام قبول کرنے کے بعد باندی ہی رہے گی
آگر وہ عورت پہلے سے مسلمان ہوں تو انہیں گرفتار کرکے باندی بنانا جائز نہیں ہے) ان گرفتار عورتوں کو یا تو مفت میں رہا کردیا جاتا تھا یا معاوضہ لے کر چھوڑدیا جاتا تھا یا ان کے بدلے مسلمان قیدیوں کو دشمن کی قید سے چھڑادیا جاتا لیکن اگر انہیں احسان کے طورپر آزاد کردینا ملکی مصلحت کے خلاف ہو اوروہ فدیہ بھی نہ اداکریں اور تبادلہ اسیران کی بھی صورت نہ بن سکے توپھر اسلامی علاقہ (یعنی دارالاسلام) میں لانے کے بعد خلیفہ وقت انہیں غازیوں میں تقسیم کردیتا ہے، اس تقسیم کی حکمت بھی ملکی اور تمدنی مصالح،معاشرے کی بہبود اورخود ان باندیوں کاتحفظ اورانہیں معاشرے کا ایک معزز رکن بناتا ہوتا ہے،
تقسیم کے بعد آقا اگر اس باندی کا کسی سے نکاح کردے تو وہ اپنے مالک کے لیے حرام اورصرف اپنے شوہر کے لیے حلال ہوتی ہے اوراگر آقا چاہے تو اسے آزاد کرکے اس سے نکاح کرسکتا ہے یا بغیر نکاح کے محض استبراءِ رحم کرنے اس سے ازدواجی تعلق قائم کرسکتا ہے اوراگر اس تعلق کے نتیجے میں اولاد پیدا ہوگئی تو وہ باندی مالک کے مرنے کے بعد آپ ہی آپ آزاد ہوجاتی ہے۔
الجواب بعونه تعالى عز وجل
مسئلہ مسئولہ میں یہ بات درست ہے کہ پہلے عرب ممالک میں غلام کی خرید و فروخت اور باندیاں رکھتے اور باندیوں سے ہمبستری کرنا جائز تھا جو کہ اب موجودہ دور میں دونوں جائز نہیں ہے آقا علیہ السلام نے خرید و فروخت سے منع فرما یا اور باندی کی مخصوص حالت تھی اسے سمجھنے کے لئے قدرے تفصیل میں جانا ہوگا ۔
اللہ سبحانہ و تعالی فرما تا ہے
وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلاَّ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ (النساء، 4: 24)
’اور شوہر والی عورتیں (بھی تم پر حرام ہیں) سوائے ان (جنگی قیدی عورتوں) کے جو تمہاری مِلک میں آ جائیں‘
أی هن محرمات الا ما ملکت اليمين بالسبی من أرض الحرب فان تلک حلال للذی تقع فی سمهه وان کان له زوج. أی فهن لکم حلال اذا انقضت عدتهن.
یعنی خاوندوں والیاں تم پر حرام ہیں مگر وہ باندیاں خواہ خاوندوں والی ہوں جو دارالحرب سے قید ہو کر تمہاری ملکیت میں آ گئیں کہ وہ جس کے حصہ میں آہیں اس کے لئے حلال ہیں۔ اگرچہ ان کے خاوند (دارالحرب میں ہوں)۔ یعنی وہ تمہارے لئے حلال ہیں جب ان کی عدت گزر جائے۔
اسی طرح سورہ مومنون میں اللہ پاک کا ارشاد ہے:
إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَo ففَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْعَادُونَ
سوائے اپنی بیویوں کے یا ان باندیوں کے جو ان کے ہاتھوں کی مملوک ہیں، بے شک (احکامِ شریعت کے مطابق ان کے پاس جانے سے) ان پر کوئی ملامت نہیں۔ پھر جو شخص ان (حلال عورتوں) کے سوا کسی اور کا خواہش مند ہوا تو ایسے لوگ ہی حد سے تجاوز کرنے والے (سرکش) ہیں۔
(المؤمنون، 23: 6، 7)
یہ دو آیات اس باب میں قطعی دلیل ہیں کہ کسی شخص کے لئے جائز قربت کی صرف دو صورتیں ہیں: ایک نکاح اور دوسری شرعی باندی (ملکِ یمین)۔ جب اﷲ تعالیٰ نے خود ان قربت کی دو صورتوں کو جائز قرار دے کر باقی تمام دروازے حرام کر دیئے تو کون ہے جو اﷲ کے حلال کو حرام یا حرام کو حلال قررا دے؟ حلال و حرام ہونے کا سبب اﷲ کا حکم ہے جس نے نکاح اور ملکِ یمین کو صحتِ قربت کا ذریعہ قرار دے کر باقی تمام صورتوں کو حرام و ممنوع قرار دے دیا۔
لہذا ان مخصوص باندی جو دار لحرب میں فتح جنگ کے بعد بطور قید حاصل ہو اور دوسری بیوی ان دو کے سوا شریعت میں ہمبستری کی تیسری کوئی صورت نہیں ہے ۔
معلوم ہوا خرید و فروخت والی باندی سے ہمبستری قطعا حلال نہیں ۔
اقا علیہ السلام نے فرما یا کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:
ثلثة انا خصمهم يوم القيامة رجل أعطی بی ثم عذر، ورجل باغ حرا فاکل ثمنه، ورجل استاجر أجيرا فاستو فی منه ولم يعط اجره.(بخاری، 1: 297)
’قیامت کے دن تین قسم کے لوگوں کے ساتھ میں خود جھگڑوں گا:
١/ اس سے جس نے میرے نام پر کسی سے معاہدہ کیا پھر اس کی خلاف ورزی کی، ٢/ وہ جس نے کسی آزاد انسان کو بیچ کر اس کی قیمت ہڑپ کی
٣/ وہ جس نے کسی مزدور سے کام پورا لیا اور پوری اجرت نہ دی۔.
اس حدیث پاک سے کسی بھی آزاد مرد کا بیچنا جائز نہیں ہے ۔
یاد رہے باندی اور لوندی سے مراد وہ آزاد عورت نہیں ہے جنہیں خرید و فروخت کے ذریعے کام میں لایا جائے،
بلکہ باندی سے مراد شرعی باندی ہے یعنی وہ غیر مسلم عورتیں جو بعد جہاد بطور غنیمت ملی ہو پھر اسلام قبول کرنے کے بعد باندی ہی رہے گی
آگر وہ عورت پہلے سے مسلمان ہوں تو انہیں گرفتار کرکے باندی بنانا جائز نہیں ہے) ان گرفتار عورتوں کو یا تو مفت میں رہا کردیا جاتا تھا یا معاوضہ لے کر چھوڑدیا جاتا تھا یا ان کے بدلے مسلمان قیدیوں کو دشمن کی قید سے چھڑادیا جاتا لیکن اگر انہیں احسان کے طورپر آزاد کردینا ملکی مصلحت کے خلاف ہو اوروہ فدیہ بھی نہ اداکریں اور تبادلہ اسیران کی بھی صورت نہ بن سکے توپھر اسلامی علاقہ (یعنی دارالاسلام) میں لانے کے بعد خلیفہ وقت انہیں غازیوں میں تقسیم کردیتا ہے، اس تقسیم کی حکمت بھی ملکی اور تمدنی مصالح،معاشرے کی بہبود اورخود ان باندیوں کاتحفظ اورانہیں معاشرے کا ایک معزز رکن بناتا ہوتا ہے،
تقسیم کے بعد آقا اگر اس باندی کا کسی سے نکاح کردے تو وہ اپنے مالک کے لیے حرام اورصرف اپنے شوہر کے لیے حلال ہوتی ہے اوراگر آقا چاہے تو اسے آزاد کرکے اس سے نکاح کرسکتا ہے یا بغیر نکاح کے محض استبراءِ رحم کرنے اس سے ازدواجی تعلق قائم کرسکتا ہے اوراگر اس تعلق کے نتیجے میں اولاد پیدا ہوگئی تو وہ باندی مالک کے مرنے کے بعد آپ ہی آپ آزاد ہوجاتی ہے۔
غلام و باندی کا دستور اسلام سے قبل قدیم زمانے سے چلا آرہا تھا اور ہر قوم میں یہ عادت پائی جاتی تھی خواہ عیسائی ہوں یا یہودی، ہنود ہوں یا دیگر اقوام، اسی طرح عربوں میں یہ دستور کثرت سے رائج تھا، حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل غلام یا باندی بنانے کے مختلف طریقے لوگوں میں رائج تھے۔
١/ جنگی قیدیوں کو غلام یا باندی بنانے کا طریقہ۔
٢/ لوگ، فقر وفاقہ کے باعث یا قرض کے دباؤ میں آکر اپنے بچوں کو یا خود اپنے آپ کو کسی کے ہاتھ فروخت کر دیتے اور وہ ان کو اپنا غلام یا باندی بنا لیتے۔
٣/ کسی جرم کی پاداش یا قمار بازی میں ہارے جانے کی صورت میں لوگ غلام بنالیے جاتے تھے۔
٤/ یوں بھی کسی کو چرا کر لے آتے اور زبردستی غلام یا باندی بنالیتے وغیرہ۔
آقا علیہ السلام نے غلامی کی ان تمام صورتوں کو سخت ناجائز اور موجبِ عذابِ الٰہی قرار دیا اور صرف ایک صورت کو باقی رکھا یعنی وہ کفار جو جنگ میں
گرفتا رکیے جائیں، مسلمان حاکم کو اختیار ہے کہ اگر مقتضائے مصلحت و سیاست بہتر سمجھے تو ان کفار قیدیوں کو غلام/باندی بنالے۔ اور جو افراد پہلے سے غلامی کی زنجیر میں ہوں، انہیں بھی مختلف کفارات میں آزاد کرنے کے احکام قرآنِ مجید اور احادیثِ نبویہ میں آئے ہیں۔ احادیثِ مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ غلامی درحقیقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب اور سزا کی ایک صورت ہے جو کفر کی جزا کے طور پر پچھلی امتوں میں جاری کی گئی، اور مسلمانوں کے لیے بھی کسی کو ابتداءً غلام بنانے کی اجازت اسی حالت میں باقی رکھی گئی کہ جو کافر اسلام کے مقابلے پر آجائیں تو ایسے حربی کافروں کو مخصوص احوال میں غلام بنانے کی اجازت دی گئی۔ خلاصہ یہ ہے کہ دینِ اسلام میں ابتداءً غلام بنانے کا حکم یا ترغیب نہیں ہے، بلکہ مخصوص احوال میں اس کی گنجائش دی ہے جو اجازت کے درجے میں ہے۔
چوں کہ غلام بنانا اسلام میں بطورِ حکم نہیں، بلکہ بطورِ اجازت ہے، تو مسلمانوں کو اس بات کی اجازت ہے کہ جب وہ قرینِ مصلحت سمجھیں، غلام بنانے کا سلسلہ موقوف رکھیں، موجودہ دور میں اقوامِ متحدہ کی سطح پر تمام رکن ممالک کے مابین غلامی کا سلسلہ موقوف کرنے کا معاہدہ ہوچکا ہے، اس لیے اس دور میں مسلمانوں نے بھی یہ سلسلہ بالکل موقوف کردیا ہے، لہٰذا جو ممالک اس معاہدے میں شامل ہیں انہیں معاہدے کی رو سے اس کی پاس داری کرنی لازم ہے۔
لہذا موجودہ دور میں کسی عورت کو باندی یا لونڈی نہیں بنایا جا سکتا ؛ اس لیے کہ غلام/باندی بنانے کی اجازت جن صورتوں میں ہے یہ ان میں داخل نہیں ہے، اس کے لیے جو شرائط ہیں کہ شرعی جہاد ہو ، امام المسلمین کی رائے ہو اورمسلمانوں اورغیر مسلموں میں کوئی ایسا معاہدہ نہ ہو جس کی رو سے ایک دوسرے کے قیدیوں کو غلام نہ بنایا
جاسکتا ہو وغیرہ وغیرہ
موجودہ دور میں یہ شرائط مکمل نہیں ہیں، اس لیے کسی عورت کو باندی بنانا جائز نہیں ہے
والله ورسوله أعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ:- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی
محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان 18سرہا نیپال
خادم دارالافتاء البرکاتی علماء فاونڈیشن ضلع سرہا نیپال ۔
26/12/2020