(سوال نمبر 2078)
ڈیڈ باڈی رکھنے والا فریجر ہے جو کہ مسلمانوں کے لئے ہے کیا غیر مسلم کو استعمال کے لئے دے سکتے ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان شرع متین مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ
ہمارے پاس ڈیڈ باڈی رکھنے والا فریجر ہے جس کو مسجد کے انتظامیہ کمیٹی نے اپنے قوم کے استعمال کے لیے دیا ہے جو کہ مسجد میں رکھا ہے , اب اس کو وقت ضرورت کسی غیر مسلم کو استعمال کے لیے دے سکتے ہیں یا نہیں؟
اس میں حکم شرع کیا ہے۔
سائل:- محمد اقصاد رضا ناگپور مہارشٹرا انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل
١/ مسجد کی انتظامیہ نے مسجد کا فریجر مسجد کی رقم سے خریدا ہے؟
٢/ یا اپنے پیسے سے ؟
٣/ یا فریجر کے نام پر چندہ کرکے خریدا ہے؟
٤/ پھر چندہ دہندہ نے اس نیت سے چبدہ دیا ہے کہ یہ فریجر ہمارے قوم مسلم میں استعمال ہو گا؟
٥/ یا ہر کوئی اسے استعمال کر سکتے ہیں مسلم اور غیر مسلم دونوں ۔؟
پہلی صورت میں مسجد کی رقم سے انتظامیہ مسجد کو فریجر خریدنا جائز نہیں ہے کہ یہ ضروریات مسجد سے نہیں ہے ۔
دوسری صورت میں اگر اپنے پیسے سے خریدا ہے اس نیت سے کہ مسلم غیر مسلم سب استعمال کر سکتے ہیں پھر غیر مسلم کو استعمال میں دینے میں حرج نہیں ہے ۔
تیسری صورت اگر چندہکرکے خریدا ہے پھر بھی غیر مسلم کو نہیں دے سکتے ہیں
چوتھی صورت میں بھی غیر مسلم کو استعمال کے لئے دینا جائز نہیں ہے
پانچویں صورت میں غیر مسلم کو استعمال کے لئے دے سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ جو چیز ایک بار فی سبیل اللہ وقف ہوجائے اسے اسی میں استعمال کرنا لازم و ضروری ہے ۔
اسی طرح دینے والے نے جس چیز کے لئے رقم دی ہے اسی میں استعمال کیا جائے دوسری جگہ نہیں
کیونکہ شرط الواقف کنص الشارع فی وجوب العمل بہ۔
واجب العمل ہونے میں واقف کی شرط شارع کی نص کی طرح ہے۔
فتاوی عالمگیری میں ہے
وعندهما حبس العين على حكم ملك الله تعالى على وجه تعود منفعته إلى العباد فيلزم ولايباع ولايوهب ولايورث، كذا في الهداية. وفي العيون واليتيمة: إن الفتوى على قولهما، كذا في شرح أبي المكارم للنقاية"(2 / 350، کتاب الوقف،)
کما فی الدر المختار
فإذا تم ولزم لایملك ولایملَّك ولایعار ولایرهن(الدر المختار)
قوله: لایملك أي لایکون مملوکًا لصاحبه، ولایملَّك: أي لایقبل التملیك لغیره بالبیع ونحوه، لاستحالة تملیك الخارج عن ملکه، ولایعار ولایرهن لاقتضائهما الملك"
(الدر المختار مع الشامي، کتاب الوقف، 4؍352 کراچی)
ہدایہ میں ہے:
إذا صح الوقف لم یجز بیعه ولا تملیکه، أما امتناع التملیك؛ فلما بینا من قوله علیه السلام: تصدق بأصلها، لایباع ولایورث ولایوهب"(الهدایة، کتاب الوقف، 3/14 بیروت)
اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں مجتہد فی المسائل اعلی حضرت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
وقف میں شرائط واقف کا اتباع واجب ہے،
اشباہ والنظائر میں ہے،
شرط الواقف کنص الشارع فی وجوب العمل بہ۔
واجب العمل ہونے میں واقف کی شرط شارع کی نص کی طرح ہے۔
(الاشباہ والنظائر الفن الثانی کتاب الوقف ادارۃ القرآن کراچی ۱/ ۳۰۵)
والله ورسوله اعلم بالصواب
ڈیڈ باڈی رکھنے والا فریجر ہے جو کہ مسلمانوں کے لئے ہے کیا غیر مسلم کو استعمال کے لئے دے سکتے ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان شرع متین مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ
ہمارے پاس ڈیڈ باڈی رکھنے والا فریجر ہے جس کو مسجد کے انتظامیہ کمیٹی نے اپنے قوم کے استعمال کے لیے دیا ہے جو کہ مسجد میں رکھا ہے , اب اس کو وقت ضرورت کسی غیر مسلم کو استعمال کے لیے دے سکتے ہیں یا نہیں؟
اس میں حکم شرع کیا ہے۔
سائل:- محمد اقصاد رضا ناگپور مہارشٹرا انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل
١/ مسجد کی انتظامیہ نے مسجد کا فریجر مسجد کی رقم سے خریدا ہے؟
٢/ یا اپنے پیسے سے ؟
٣/ یا فریجر کے نام پر چندہ کرکے خریدا ہے؟
٤/ پھر چندہ دہندہ نے اس نیت سے چبدہ دیا ہے کہ یہ فریجر ہمارے قوم مسلم میں استعمال ہو گا؟
٥/ یا ہر کوئی اسے استعمال کر سکتے ہیں مسلم اور غیر مسلم دونوں ۔؟
پہلی صورت میں مسجد کی رقم سے انتظامیہ مسجد کو فریجر خریدنا جائز نہیں ہے کہ یہ ضروریات مسجد سے نہیں ہے ۔
دوسری صورت میں اگر اپنے پیسے سے خریدا ہے اس نیت سے کہ مسلم غیر مسلم سب استعمال کر سکتے ہیں پھر غیر مسلم کو استعمال میں دینے میں حرج نہیں ہے ۔
تیسری صورت اگر چندہکرکے خریدا ہے پھر بھی غیر مسلم کو نہیں دے سکتے ہیں
چوتھی صورت میں بھی غیر مسلم کو استعمال کے لئے دینا جائز نہیں ہے
پانچویں صورت میں غیر مسلم کو استعمال کے لئے دے سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ جو چیز ایک بار فی سبیل اللہ وقف ہوجائے اسے اسی میں استعمال کرنا لازم و ضروری ہے ۔
اسی طرح دینے والے نے جس چیز کے لئے رقم دی ہے اسی میں استعمال کیا جائے دوسری جگہ نہیں
کیونکہ شرط الواقف کنص الشارع فی وجوب العمل بہ۔
واجب العمل ہونے میں واقف کی شرط شارع کی نص کی طرح ہے۔
فتاوی عالمگیری میں ہے
وعندهما حبس العين على حكم ملك الله تعالى على وجه تعود منفعته إلى العباد فيلزم ولايباع ولايوهب ولايورث، كذا في الهداية. وفي العيون واليتيمة: إن الفتوى على قولهما، كذا في شرح أبي المكارم للنقاية"(2 / 350، کتاب الوقف،)
کما فی الدر المختار
فإذا تم ولزم لایملك ولایملَّك ولایعار ولایرهن(الدر المختار)
قوله: لایملك أي لایکون مملوکًا لصاحبه، ولایملَّك: أي لایقبل التملیك لغیره بالبیع ونحوه، لاستحالة تملیك الخارج عن ملکه، ولایعار ولایرهن لاقتضائهما الملك"
(الدر المختار مع الشامي، کتاب الوقف، 4؍352 کراچی)
ہدایہ میں ہے:
إذا صح الوقف لم یجز بیعه ولا تملیکه، أما امتناع التملیك؛ فلما بینا من قوله علیه السلام: تصدق بأصلها، لایباع ولایورث ولایوهب"(الهدایة، کتاب الوقف، 3/14 بیروت)
اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں مجتہد فی المسائل اعلی حضرت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
وقف میں شرائط واقف کا اتباع واجب ہے،
اشباہ والنظائر میں ہے،
شرط الواقف کنص الشارع فی وجوب العمل بہ۔
واجب العمل ہونے میں واقف کی شرط شارع کی نص کی طرح ہے۔
(الاشباہ والنظائر الفن الثانی کتاب الوقف ادارۃ القرآن کراچی ۱/ ۳۰۵)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
15/3/2022
15/3/2022
11/8/1443