(سوال نمبر 2063)
جو سامان مسجد کیلئے صرف کردیا جائے اس سامان کو کسی غیرمسلم کو استعمال کےلئے دے سکتے ہے یا نہیں؟.....................................
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائےاکرام اس مسئلہ کے بارے میں
جو سامان مسجد کیلئے صرف کردیاجائے اس سامان کو کسی غیرمسلم کو استعمال کےلئے دے سکتے ہے یا نہیں لوگوں کا خدمت خلق کےلئے دے سکتے ہے اس حکم شرع کیا ہے
سائل:- محمد اقصاد رضا ناگپور مہارشٹرا انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمدهو نصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل
مسجد کے لیے وقف شدہ سامان مسجد کے علاوہ کسی اور مقصد میں یا ذاتی استعمال لانا شرعاً جائز نہیں خواہ مسجد انتظامیہ سے پوچھا ہو یا نہ ہو، البتہ مسجد میں بغرضِ عبادت مسجد کی اشیاء استعمال کی جا سکتی ہیں اس کے علاوہ نہیں کسی غیر مسلم کو بھی دینا ناجائز ہے کیوں کہ مسجدکی اشیاءجواس میں استعمال کے لیے ہوتی ہیں ،ان کواپنے گھروغیرہ میں استعمال کے لیے لے جانا یا متولی کو کسی دوسرے کو اجازت دینا شرعاً جائز نہیں ہے کہ غیرمحل میں ان کااستعمال کرناہے جو نا جائز وحرام ہے اگر کسی نے ایسا کیا ہے تو ایساکرنے والے گنہگارہیں ان پرلازم ہے کہ اپنے اس فعل سے توبہ کریں اورآئندہ ایسانہ کریں
البتہ مسجد کی خراب شدہ اشیاء جو قابل استعمال نہیں ان کو فروخت کر کے مسجد میں کام آنے والی دوسری چیز خریدنا یا ان کو مسجد کے کھاتے میں جمع کرنا جائزو درست ہے
البحرالرائق میں ہے
و فی الفتاویٰ الظھیریۃ سئل الحلوائ عن اوقاف المسجد اذا تعطلت و تعذر استغلالھا ھل للمتولی ان یبیعھا و یشتری بثمنھا اخری قال نعم
لیکن یہ ضروری ہے کہ ان اشیاء کو غیر مسلم کے ہاتھ فروخت نہ کرے اس لۓ کہ ہو سکتا ہے کہ وہ ادب ملحوظ نہ رکھے اور مواضع اہانت میں استعمال کرے اس لئے جب بھی مسجد کی کوئی چیز فروخت کرے تو کسی مسلمان کے ہاتھ اور اس شرط کے ساتھ کہ وہ بے ادبی کی جگہ نہ لگاۓ(فتاویٰ البحرالرائق ج/5 ص/252 .بکتاب الوقت)
مجتہد فی المسائل اعلی حضرت رضی اللہ عنہ سے
دریافت کیا گیا کہ مسجد کی کوئی چیز جو خراب ہو اور اسے بیچ کر اس کی قیمت مسجد میں دیں اور اگر کوئ دوسرا آدمی اس چیز کو خرید کر اپنے مکان پر رکھے تو یہ جائز ہے یا نہیں آپ نے فرمایا جائز ہے مگر بے ادبی کی جگہ نہ لگاۓ
اور در مختار میں ہے
حشیش المسجدو کناستہ لا یلقی فی موضع یخل باتعظیم
یعنی مسجد کی گھاس اور کوڑا ایسی جگہ نہ ڈالیں جہاں بے ادبی ہو
(در مختار ج/1 ص/322 کتاب الطھارۃ)
اور فتاویٰ رضویہ میں ہے حاکم اسلام اور جہاں وہ نہ ہو تو متولی مسجد و اہل محلہ کو جائز ہے کہ وہ چھپر کے اب حاجت مسجد سے فارغ ہیں کسی مسلمان کے ہاتھ مناسب داموں میں اسے بیچ ڈالیں اور خریدنے والا مسلمان اسے اپنا مکان نشست یا باورچی خانے یا اسے ہی کسی مکان پر جہاں بے تعظیمی نہ ہو ڈال سکتا ہے
اور پاخانہ وغیرہ مواضع بے حرمتی پر نہ ڈالنا چاہۓ کہ علماء نے اس کوڑے کی بھی تعظیم کا حکم دیا ہے جو مسجد سے جھاڑ کر پھینکا جاتا ہے
(فتاویٰ مرکز تربیت افتاء ج/1 ص/ 246)
والله ورسوله اعلم بالصواب
اور فتاویٰ رضویہ میں ہے حاکم اسلام اور جہاں وہ نہ ہو تو متولی مسجد و اہل محلہ کو جائز ہے کہ وہ چھپر کے اب حاجت مسجد سے فارغ ہیں کسی مسلمان کے ہاتھ مناسب داموں میں اسے بیچ ڈالیں اور خریدنے والا مسلمان اسے اپنا مکان نشست یا باورچی خانے یا اسے ہی کسی مکان پر جہاں بے تعظیمی نہ ہو ڈال سکتا ہے
اور پاخانہ وغیرہ مواضع بے حرمتی پر نہ ڈالنا چاہۓ کہ علماء نے اس کوڑے کی بھی تعظیم کا حکم دیا ہے جو مسجد سے جھاڑ کر پھینکا جاتا ہے
(فتاویٰ مرکز تربیت افتاء ج/1 ص/ 246)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
١١/٣/٢٠٢٢
١١/٣/٢٠٢٢