(سوال نمبر 2050)
بزرگوں کے مزاروں پر جو کھانا یا لنگر ملتا ہے
کیا آدمی اس کھانے یا لنگر کو آگے بیچ سکتا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماے اسلام اور مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں
بزرگوں کے مزاروں پر جو کھانا یا لنگر ملتا ہے کیا آدمی اس کھانا یا لنگر کو آگے بیچ سکتا ہے؟
سائل:- اسرار حسین شاہ شہر اٹک پاکستان
.....................................
نحمده و نصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل
مزارات پر جو کھانا اور لنگر ہوتے ہیں اگر کسی نے مخصوص دعوت دی ہو اور یہ بھی اجازت دی ہو کہ یہاں لوگ کھائیں گے بھی اور جسے ساتھ لےجانا ہو وہ ساتھ لے جا سکتے ہیں ۔پھر لےجانے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ صاحب دعوت نے خود اذن دی ہے اور اگر اجازت نہ دی ہو تو لے جانا جائز نہیں ہے ۔
اسی طرح لوگوں نے درگاہ کے منتظمین کو رقم دی ہو کہ یہاں کھانا بنوا کر یہاں کے لوگوں میں تقسیم کر دیں اور صراحت نہ کریں کہ یہاں سے باہر بھی لے جا سکتا ہے پھر بھی باہر لے جانا جائز نہیں ہے حتی منتظمین درگاہ کے اذن سے بھی باہر نہیں لے جا سکتے ۔چونکہ منتظمین فقط امین طعام دعوت ہے مالک نہیں ہے ۔البتہ زیادہ ہوجائے اور درگاہ کے سارے لوگ کھا کر سیراب ہو ہوگئیں ہوں پھر اذن منتظمین سے باہر لے جا سکتے ہیں کہ کھانا پھینکنا سہی نہیں ۔اور بیچنا تو قطعا جائز نہیں ہے کہ چندہ دہندہ اور معطی کے مقصود کے خلاف ہے جو جائز نہیں ہے ۔
حدیث پاک میں ہے
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ألا تظلموا ألا لا يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه۔
صاحب مرآت رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں
غیر کا مال بغیر اجازت لینا کس طرح درست ہوسکتا ہے، یوں ہی کسی کے باغ کےک پھل اس کی اجازت کے بغیر نہ توڑے نہ کھائے،نہ اٹھائے نہ لے جائے۔(المرات ج 5 ص 36 المکتة المدینہ)
والله ورسوله اعلم بالصواب
بزرگوں کے مزاروں پر جو کھانا یا لنگر ملتا ہے
کیا آدمی اس کھانے یا لنگر کو آگے بیچ سکتا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماے اسلام اور مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں
بزرگوں کے مزاروں پر جو کھانا یا لنگر ملتا ہے کیا آدمی اس کھانا یا لنگر کو آگے بیچ سکتا ہے؟
سائل:- اسرار حسین شاہ شہر اٹک پاکستان
.....................................
نحمده و نصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل
مزارات پر جو کھانا اور لنگر ہوتے ہیں اگر کسی نے مخصوص دعوت دی ہو اور یہ بھی اجازت دی ہو کہ یہاں لوگ کھائیں گے بھی اور جسے ساتھ لےجانا ہو وہ ساتھ لے جا سکتے ہیں ۔پھر لےجانے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ صاحب دعوت نے خود اذن دی ہے اور اگر اجازت نہ دی ہو تو لے جانا جائز نہیں ہے ۔
اسی طرح لوگوں نے درگاہ کے منتظمین کو رقم دی ہو کہ یہاں کھانا بنوا کر یہاں کے لوگوں میں تقسیم کر دیں اور صراحت نہ کریں کہ یہاں سے باہر بھی لے جا سکتا ہے پھر بھی باہر لے جانا جائز نہیں ہے حتی منتظمین درگاہ کے اذن سے بھی باہر نہیں لے جا سکتے ۔چونکہ منتظمین فقط امین طعام دعوت ہے مالک نہیں ہے ۔البتہ زیادہ ہوجائے اور درگاہ کے سارے لوگ کھا کر سیراب ہو ہوگئیں ہوں پھر اذن منتظمین سے باہر لے جا سکتے ہیں کہ کھانا پھینکنا سہی نہیں ۔اور بیچنا تو قطعا جائز نہیں ہے کہ چندہ دہندہ اور معطی کے مقصود کے خلاف ہے جو جائز نہیں ہے ۔
حدیث پاک میں ہے
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ألا تظلموا ألا لا يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه۔
صاحب مرآت رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں
غیر کا مال بغیر اجازت لینا کس طرح درست ہوسکتا ہے، یوں ہی کسی کے باغ کےک پھل اس کی اجازت کے بغیر نہ توڑے نہ کھائے،نہ اٹھائے نہ لے جائے۔(المرات ج 5 ص 36 المکتة المدینہ)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
٦/٣/٢٠٢٢
٦/٣/٢٠٢٢