(سوال نمبر 6040)
اگر کسی کے پاس مالک نصاب جتنی رقم بطور امانت رکھی ہوئی ہو تو کیا وہ زکوٰۃ لے سکتا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماے دین کہ اگر کوی شخص مالک نصاب ہو اور وہ اپنا سارا مال کسی ایسے قریبی کو دے دے کہ جس پر اسکو بھروسہ ہو کہ وہ مجھے کبھی سارا مال واپس دے دیگا، لھذا اب یہ شخص زکات وغیرہ لے سکتا ہے یا نہیں ؟مدلل جواب عنایت فرمایں
سائل:- اظہر مراد آباد انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
مذکورہ صورت میں زید جو مالک نصاب ہے اس پر زکات فرض ہے اور جنتے دنوں سے رشتے رشتے دار کے پاس بطور امامت پیسہ جمع کیا ہے سب سالوں کی زکات واجب ہے۔
رشتے دار اگر مالک نصاب نہیں ہے تو وہ زکات لے سکتے ہیں آپ کا مال بطور امانت اس کے پاس ہے وہ اس میں سے بدون اذن کچھ بھی صرف نہیں کر سکتے ہیں۔
(کتب فقہ عامہ)
قران مجید میں ہے
وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَـاةَ وَالَّذِينَ هُم بِآيَاتِنَا يُؤْمِنُونَO
اور میری رحمت ہر چیز پر وسعت رکھتی ہے، سو میں عنقریب اس (رحمت) کو ان لوگوں کے لئے لکھ دوں گا جو پرہیزگاری اختیار کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے رہتے ہیں اور وہی لوگ ہی ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیںo‘‘
( اعراف، 7 : 156)
١/ چاندی کا نصاب ساڑھے ۵۲/ تولہ، اُس تولہ کے حساب سے ہے جو تقریباً ۱۲/ گرام کا ہوتا ہے۔ اور اب مارکیٹ میں جو تولہ رائج ہے، وہ مکمل ۱۰/ گرام کا ہوتا ہے؛ اس لیے مارکیٹ میں فی الحال رائج تولہ کے حساب سے چاندی کا نصاب ۶۱/ تولہ، ۲/ گرام اور ۳۶۰/ ملی گرام ہوگا ۔
مذکورہ چاندی کا بھائو بازار سے معلوم کرلیں جتنی رقم بنے اس پر اگر سال گزر جائے تو زکات فرض ہے ۔
٢/ جو بھی زیور ہو موجودہ مارکیٹ میں جو رٹ ہو اس کا حساب لگایا جائے گا ۔
٣/ وہ زمین اگر کاشت کاری کی ہے پھر اس کی پیداوار پر عشر ہے اور اگر پلاٹ ہے تو
زکاة، زمین کے صرف اس پلاٹ پر واجب ہوتی ہے جو بلا کسی تردد صرف بیچنے کی نیت سے خریدا جائے اور پھر اس نیت پر برقرار بھی رہا جائے، اور جس پلاٹ میں بیچنے کی نیت بالکل نہ ہو یا بیچنے کی نیت برقرار نہ رہے یا خریدتے وقت ہی بیچنے کی نیت مشکوک ہو یا خریدنے کے بعد مشکوک ہوجائے، یعنی: خریدتے وقت بیچنے کے ساتھ مکان یا دوکان بنانے یا اولاد کو ہبہ کرنے وغیرہ کی بھی نیت ہو یا خریدنے کے بعد ان میں سے کوئی نیت بھی ہوجائے تو اس پر زکاة واجب نہیں:
قال في الدر (مع الرد وما اشتراہ لہا أي: للتجارة کان لہا لمقارنة النیة لعقد التجارة إھ وفي ص ۱۹۲ منہ: لا یبقی للتجارة ما أي: عبد مثلاً اشتراہ لہا فنوی بعد ذلک خدمتہ (الدر (مع الرد کتاب الزکاة قبل باب السائمة: ۳/۱۹۳، ۱۹۴)
والله ورسوله اعلم بالصواب
کتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی
اگر کسی کے پاس مالک نصاب جتنی رقم بطور امانت رکھی ہوئی ہو تو کیا وہ زکوٰۃ لے سکتا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماے دین کہ اگر کوی شخص مالک نصاب ہو اور وہ اپنا سارا مال کسی ایسے قریبی کو دے دے کہ جس پر اسکو بھروسہ ہو کہ وہ مجھے کبھی سارا مال واپس دے دیگا، لھذا اب یہ شخص زکات وغیرہ لے سکتا ہے یا نہیں ؟مدلل جواب عنایت فرمایں
سائل:- اظہر مراد آباد انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
مذکورہ صورت میں زید جو مالک نصاب ہے اس پر زکات فرض ہے اور جنتے دنوں سے رشتے رشتے دار کے پاس بطور امامت پیسہ جمع کیا ہے سب سالوں کی زکات واجب ہے۔
رشتے دار اگر مالک نصاب نہیں ہے تو وہ زکات لے سکتے ہیں آپ کا مال بطور امانت اس کے پاس ہے وہ اس میں سے بدون اذن کچھ بھی صرف نہیں کر سکتے ہیں۔
(کتب فقہ عامہ)
قران مجید میں ہے
وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَـاةَ وَالَّذِينَ هُم بِآيَاتِنَا يُؤْمِنُونَO
اور میری رحمت ہر چیز پر وسعت رکھتی ہے، سو میں عنقریب اس (رحمت) کو ان لوگوں کے لئے لکھ دوں گا جو پرہیزگاری اختیار کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے رہتے ہیں اور وہی لوگ ہی ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیںo‘‘
( اعراف، 7 : 156)
١/ چاندی کا نصاب ساڑھے ۵۲/ تولہ، اُس تولہ کے حساب سے ہے جو تقریباً ۱۲/ گرام کا ہوتا ہے۔ اور اب مارکیٹ میں جو تولہ رائج ہے، وہ مکمل ۱۰/ گرام کا ہوتا ہے؛ اس لیے مارکیٹ میں فی الحال رائج تولہ کے حساب سے چاندی کا نصاب ۶۱/ تولہ، ۲/ گرام اور ۳۶۰/ ملی گرام ہوگا ۔
مذکورہ چاندی کا بھائو بازار سے معلوم کرلیں جتنی رقم بنے اس پر اگر سال گزر جائے تو زکات فرض ہے ۔
٢/ جو بھی زیور ہو موجودہ مارکیٹ میں جو رٹ ہو اس کا حساب لگایا جائے گا ۔
٣/ وہ زمین اگر کاشت کاری کی ہے پھر اس کی پیداوار پر عشر ہے اور اگر پلاٹ ہے تو
زکاة، زمین کے صرف اس پلاٹ پر واجب ہوتی ہے جو بلا کسی تردد صرف بیچنے کی نیت سے خریدا جائے اور پھر اس نیت پر برقرار بھی رہا جائے، اور جس پلاٹ میں بیچنے کی نیت بالکل نہ ہو یا بیچنے کی نیت برقرار نہ رہے یا خریدتے وقت ہی بیچنے کی نیت مشکوک ہو یا خریدنے کے بعد مشکوک ہوجائے، یعنی: خریدتے وقت بیچنے کے ساتھ مکان یا دوکان بنانے یا اولاد کو ہبہ کرنے وغیرہ کی بھی نیت ہو یا خریدنے کے بعد ان میں سے کوئی نیت بھی ہوجائے تو اس پر زکاة واجب نہیں:
قال في الدر (مع الرد وما اشتراہ لہا أي: للتجارة کان لہا لمقارنة النیة لعقد التجارة إھ وفي ص ۱۹۲ منہ: لا یبقی للتجارة ما أي: عبد مثلاً اشتراہ لہا فنوی بعد ذلک خدمتہ (الدر (مع الرد کتاب الزکاة قبل باب السائمة: ۳/۱۹۳، ۱۹۴)
والله ورسوله اعلم بالصواب
کتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی
محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
لهان ١٨خادم ١٨خادم ١٨خادم ١٨خادم فاونديشن
شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال۔
31/07/2023
31/07/2023