(سوال نمبر 265)
کیا عدم علم سے طلاق واقع نہیں ہوتی ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا عدم علم سے طلاق واقع نہیں ہوتی ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
کہ زید نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی اور بیوی بھی تین طلاق کا اقرار کرتی ہے لیکن اس کے باوجود وہ زبردستی اپنے شوہر کے گھر میں رہتی ہے اور کہتی ہے کہ ہم نہیں جانتے کہ طلاق کسے کہتے ہیں اس عورت کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے
بحوالہ جواب عنایت فرمائیں
سائل:- محمد رضا مجھائو ضلع سرہا نیپال۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين
کہ زید نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی اور بیوی بھی تین طلاق کا اقرار کرتی ہے لیکن اس کے باوجود وہ زبردستی اپنے شوہر کے گھر میں رہتی ہے اور کہتی ہے کہ ہم نہیں جانتے کہ طلاق کسے کہتے ہیں اس عورت کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے
بحوالہ جواب عنایت فرمائیں
سائل:- محمد رضا مجھائو ضلع سرہا نیپال۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعونہ تعالیٰ عزوجل
مسئلہ مسئولہ میں اگر معاملہ ایسا ہی ہے جیسا کہ سوال میں مذکور ہے کہ شوہر بے تیں طلاق دے کر اقرار بھی کیا ہے یعنی زید نے بقیام ہوش و حواس مع نیت تین طلاق ہندہ سے کہا میں نے تجھے تین طلاق دیا ،اور عورت بھی تین طلاق کا اقرار کر تی ہے
لہذا عورت کا عدم علم طلاق، وقوع طلاق میں مانع نہیں کہ نکاح کو جانتی ہے اور طلاق کو نہیں ،یہ بکواس ہے وہ تینوں واقع ہو گئیں۔ اب یہ بی بی اس پر قطعی حرام ہو گئی، دوبارہ اس وقت تک ان میں ازدواجی تعلقات قائم نہیں ہو سکتے، جب تک یہ عورت کسی اور سے نکاح و قربت نہ کرے۔ پھر وہ دوسرا خاوند نکاح و قربت کے بعد اس کو طلاق دے دے۔ پھر وہ عورت اس دوسرے خاوند کی عدت گزار کر اگر چاہے تو پہلے والے خاوند سے از سر نو نکاح کر سکتی ہے، جس نے تین طلاقیں دی تھیں۔
ازیں قبل دونوں کا ایک ساتھ میاں بیوی کی طرح رہنا حرام اور موجب قہر جبار ہے ۔
محلے کے امام و دانشوران شرعی مسئلہ بتا کر دونوں کے مابین تفریق کردے اگر دونوں پھر بھی نہ مانے تو سماجی بائیکاٹ کرے
اسی طرح بہار شریعت میں ہے
(بہار شریعت ح ٨ ص ١٧٩ دعوت اسلامی)(لبحرالرائق ،کتاب الطلاق، فصل فیما تحل بہ المطلقۃ، ج ۴ ، ص ۹۷ ، ۹۸)
آقا علیہ السلام نے ارشاد فرما یا
ثَلاَثٌ جِدُّهُنَّ جِدٌّ وَهَزْلُهُنَّ جِدٌّ النِّكَاحُ وَالطَّلاَقُ وَالرَّجْعَةُ.
تین چیزیں ایسی ہیں کہ ارادہ کے ساتھ کی جائیں یا مذاق میں کی جائیں (دونوں صورتوں میں) صحیح مراد ہیں: نکاح، طلاق اور رجوع۔
(أبو داود، السنن، كتاب الطلاق تفريع أبواب الطلاق، باب في الطلاق على الهزل، 2: 259، رقم: 2194، بيروت: دار الفكر)
ارشاد باری تعالیٰ ہے
الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ. (البقرة، 2 : 229)
طلاق (صرف) دو بار (تک) ہے، پھر یا تو (بیوی کو) اچھے طریقے سے (زوجیت میں) روک لینا ہے یا بھلائی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے،
یہ ایک یا دو طلاقیں رجعی ہیں۔ خواہ خاوند مال لے کر دے، جسے خلع کہتے ہیں یا بغیر مال لیے دے۔ عدت کے اندر اندر اگر دونوں فریق رضا مند ہوں اور خاوند چاہے تو رجوع کر کے ازدواجی تعلقات برقرار رکھ سکتا ہے۔ اگر عدت گزر گئی اور رجوع نہ کیا تو دوبارہ نکاح کر کے ازدواجی تعلقات قائم کر سکتے ہیں۔
ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے :
فَإِن طَلَّقَهَا فَلاَ تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّى تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ فَإِن طَلَّقَهَا فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يَتَرَاجَعَا إِن ظَنَّا أَن يُقِيمَا حُدُودَ اللّهِ.
(البقرۃ، 2 : 230)
پھر اگر اس نے (تیسری مرتبہ) طلاق دے دی تو اس کے بعد وہ اس کے لئے حلال نہ ہوگی یہاں تک کہ وہ کسی اور شوہر کے ساتھ نکاح کر لے، پھر اگر وہ (دوسرا شوہر) بھی طلاق دے دے تو اب ان دونوں (یعنی پہلے شوہر اور اس عورت) پر کوئی گناہ نہ ہوگا اگر وہ (دوبارہ رشتہ زوجیت میں) پلٹ جائیں بشرطیکہ دونوں یہ خیال کریں کہ (اب) وہ حدودِ الٰہی قائم رکھ سکیں گے،
والله ورسوله اعلم بالصواب
مسئلہ مسئولہ میں اگر معاملہ ایسا ہی ہے جیسا کہ سوال میں مذکور ہے کہ شوہر بے تیں طلاق دے کر اقرار بھی کیا ہے یعنی زید نے بقیام ہوش و حواس مع نیت تین طلاق ہندہ سے کہا میں نے تجھے تین طلاق دیا ،اور عورت بھی تین طلاق کا اقرار کر تی ہے
لہذا عورت کا عدم علم طلاق، وقوع طلاق میں مانع نہیں کہ نکاح کو جانتی ہے اور طلاق کو نہیں ،یہ بکواس ہے وہ تینوں واقع ہو گئیں۔ اب یہ بی بی اس پر قطعی حرام ہو گئی، دوبارہ اس وقت تک ان میں ازدواجی تعلقات قائم نہیں ہو سکتے، جب تک یہ عورت کسی اور سے نکاح و قربت نہ کرے۔ پھر وہ دوسرا خاوند نکاح و قربت کے بعد اس کو طلاق دے دے۔ پھر وہ عورت اس دوسرے خاوند کی عدت گزار کر اگر چاہے تو پہلے والے خاوند سے از سر نو نکاح کر سکتی ہے، جس نے تین طلاقیں دی تھیں۔
ازیں قبل دونوں کا ایک ساتھ میاں بیوی کی طرح رہنا حرام اور موجب قہر جبار ہے ۔
محلے کے امام و دانشوران شرعی مسئلہ بتا کر دونوں کے مابین تفریق کردے اگر دونوں پھر بھی نہ مانے تو سماجی بائیکاٹ کرے
اسی طرح بہار شریعت میں ہے
(بہار شریعت ح ٨ ص ١٧٩ دعوت اسلامی)(لبحرالرائق ،کتاب الطلاق، فصل فیما تحل بہ المطلقۃ، ج ۴ ، ص ۹۷ ، ۹۸)
آقا علیہ السلام نے ارشاد فرما یا
ثَلاَثٌ جِدُّهُنَّ جِدٌّ وَهَزْلُهُنَّ جِدٌّ النِّكَاحُ وَالطَّلاَقُ وَالرَّجْعَةُ.
تین چیزیں ایسی ہیں کہ ارادہ کے ساتھ کی جائیں یا مذاق میں کی جائیں (دونوں صورتوں میں) صحیح مراد ہیں: نکاح، طلاق اور رجوع۔
(أبو داود، السنن، كتاب الطلاق تفريع أبواب الطلاق، باب في الطلاق على الهزل، 2: 259، رقم: 2194، بيروت: دار الفكر)
ارشاد باری تعالیٰ ہے
الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ. (البقرة، 2 : 229)
طلاق (صرف) دو بار (تک) ہے، پھر یا تو (بیوی کو) اچھے طریقے سے (زوجیت میں) روک لینا ہے یا بھلائی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے،
یہ ایک یا دو طلاقیں رجعی ہیں۔ خواہ خاوند مال لے کر دے، جسے خلع کہتے ہیں یا بغیر مال لیے دے۔ عدت کے اندر اندر اگر دونوں فریق رضا مند ہوں اور خاوند چاہے تو رجوع کر کے ازدواجی تعلقات برقرار رکھ سکتا ہے۔ اگر عدت گزر گئی اور رجوع نہ کیا تو دوبارہ نکاح کر کے ازدواجی تعلقات قائم کر سکتے ہیں۔
ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے :
فَإِن طَلَّقَهَا فَلاَ تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّى تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ فَإِن طَلَّقَهَا فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يَتَرَاجَعَا إِن ظَنَّا أَن يُقِيمَا حُدُودَ اللّهِ.
(البقرۃ، 2 : 230)
پھر اگر اس نے (تیسری مرتبہ) طلاق دے دی تو اس کے بعد وہ اس کے لئے حلال نہ ہوگی یہاں تک کہ وہ کسی اور شوہر کے ساتھ نکاح کر لے، پھر اگر وہ (دوسرا شوہر) بھی طلاق دے دے تو اب ان دونوں (یعنی پہلے شوہر اور اس عورت) پر کوئی گناہ نہ ہوگا اگر وہ (دوبارہ رشتہ زوجیت میں) پلٹ جائیں بشرطیکہ دونوں یہ خیال کریں کہ (اب) وہ حدودِ الٰہی قائم رکھ سکیں گے،
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
٢٥/١٢/٢٠٢٠