Type Here to Get Search Results !

کیا قبر میں میت سے سوال و جواب کے وقت آقا علیہ السلام بنفس نفیس خود تشریف لاتے ہیں؟

 (سوال نمبر 266)
کیا قبر میں میت سے سوال و جواب کے وقت آقا علیہ السلام بنفس نفیس خود تشریف لاتے ہیں؟
_________(❤️)_________
السلام علیکم ور حمتہ اللہ وبرکاتہ 
مفتی صاحب قبلہ میں جانتا ہوں آپ فتاوی تحریر کرنے میں مصروف ہیں 
جس طرح جلد ترین آپ جواب دیتے ہیں یہ صلاحیت و لیاقت ہر کسی میں نہیں ہوتی ہے۔ لہذا قبر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف لانے اور نہ لانے کے بارے میں امام محلہ اور جامع مسجد کے درمیان بہت دنوں سے اختلاف چل رہا ہے۔ 
میں آپکی تحقیق و تصدیق کا شدت سے منتظر ہوں، لھذا نظر عنایت فرمائیں، 
سائل:-  محمد ظہیر احمد نعمانی 
.....................................
وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ علیہ وبرکاتہ 
الجواب بعونہ تعالیٰ عزوجل 
مسئلہ مسئولہ کے بابت حدیث پاک میں ہے ۔
ما کنت تقول فی ھذا الرجل۔
اس میں ہذا کی وضع محسوس مبصر کے لیے ہے، جو قریب ہو، یہ اس کا حقیقی معنی ہے۔ اس معنی کی بنا پر ترجیح اسی کو ہے کہ میت کے اور آقا علیہ السلام کے درمیان سے حجاب اٹھ جاتاہے اور میت کو آپ کا وجود مبارک قریب نظر آنے لگتا ہے۔ پھر ہذا کے ساتھ سوال ہوتا ہے، اور یہ کہنا کہ مکشوف ہونے پر کوئی دلیل نہیں یہ صحیح نہیں، کیوں کہ یہی ہذا کا لفظ ہے۔ جب اس کا حقیقی معنی یہی ہے تو مکشوف ماننا پڑے گا تاکہ حقیقی معنی بن سکے کیوںکہ حقیقی معنی مقدم ہے جب تک حقیقی معنی بن سکے مجازی نہیں لیا جا سکتا۔ 
مؤمن جواب دے گا۔ کہ وہ خدا کا رسول ہے۔ اور کافر کوئی جواب نہیں دے گا۔ اور یہ مطلب صحیح ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ کیا کافر اس لیے جواب نہیں دے گا کہ اس کو جواب کا علم نہیں ہو گا۔ یا اس لیے جواب نہیں دے گا کہ وہ انکار پر اڑ جائے گا۔ پہلی صورت تو ٹھیک نہیں کیونکہ سوال سے اس کو علم ہو چکا ہے کہ وہ خدا کا رسول ہے۔ تو پھر یہ کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ جواب کا اس کو علم نہیں۔ اور دوسری صورت بھی ٹھیک نہیں کیونکہ عذاب کے وقت اڑے کہاں۔
نیز احادیث میں صاف آیا ہے کہ کافر کہے گا
(ھَاہ ھَاہ لَا اَدْرِیْ)یعنی ہائے ہائے مجھے پتہ نہیں۔یہ بے علمی کا اظہار بتا رہا ہے کہ پہلے معنی (جو تم میں رسول بنا کر بھیجا گیا) ٹھیک نہیں اگر کہا جائے کہ کشوف مراد لینا ٹھیک نہیں، کیونکہ صحابہ رضی اللہ عنہم جنہوں نے آقا علیہ السلام کو دیکھا ہے ان کے سامنے آقا علیہ السلام کا وجود کرنا تو مفید ہو سکتا ہے، کیو ں کہ وہ پہنچا ن سکتے ہیں، جنہوں نے نہیں دیکھا ان کے سامنے آپ کو وجود کرنا کیا فائدہ، نیز جن کافروں نے آپ کو دیکھا ہوا ہے جییے ابو جہل وغیرہ تو وہ پہنچان کر کہہ سکتے ہیں کہ وہ خدا کا رسول ہے۔ ان کے ہاہ ہاہ لا ادری کہنے کا کیا معنی، تو اس کا جواب یہ ہے کہ جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کو نہیں دیکھا وہ بھی رسول اللہ ﷺ کے وجود مبارک کو دیکھ کر پہچان لیں گے کہ یہ خدا کا رسول ہے۔ کیوںکہ احادیث میں آیا ہے کہ مومن جب کہے گا کہ یہ آقا علیہ السلام ہیں تو منکر نکیر کہیں گے، تجھے کیسے معلوم ہوا کہ یہ اللہ کے رسول ہیں، تو وہ جواب میں کہے گا کہ میں نے اللہ کی کتاب پڑھی۔ پس ایمان لایا اور ان کی تصدیق کی، یعنی اللہ کی کتاب میں جو ان کے اوصاف ہیں یا ان کا حلیہ بتایا گیا ہے اسے دیکھ کر مومن فراست ایمانی سے اندازہ کرے گا۔ کہ یہ وہی رسول ہیں جن پر ایمان لایا ہوں۔ رہے کفار جنہوں نے آقا علیہ السلام کو دیکھا ہے تو وہ صرف آقا علیہ السلام کی شکل مبارک سے واقف ہیں۔ آپ کی رسالت سے واقف نہیں کیوں کہ ان کو ایمان نہیں بالفرض وہ دنیا میں رسالت سے واقف بھی ہوں تو بھی ایمان نہ لانے کی وجہ سے نا واقفوں میں اٹھتے ہیں۔ پس ترجیح اسی کو ہے کہ آقا علیہ السلام مکشوف ہو کر سامنے ہوتے ہیں۔‌امام قسطلانی رحمت اللہ علیہ آخری سوال ،
ما کنت تقول فی ھذا الرجل  
کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں 
قیل یکشف للمیت حتی یری النبی صلی اللہ علیہ وسلم 
،یعنی بعض لوگوں نے کہا کہ میت کے لئے پردہ اٹھا دیا جائے گا یہاں تک کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لے گا 
(ارشاد الساری شرح بخاری جلد دوم صفحہ 464) 
اور حضرت ملا علی قاری علیہ رحمۃ الباری تحریر فرماتے ہیں ، 
قیل یصور صورتہ علیہ الصلاۃ والسلام فیشار الیہ ، یعنی 
بعض لوگوں نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت پیش کی جائے گی تو اس کی طرف اشارہ کرکے پوچھا جائے گا (مرقات شرح مشکوٰۃ ج اول ص 204) 
اور حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ، 
 ھذا (یہ) کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اشارہ کرنا یاتو اس وجہ سے ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مقدس مشہور ہے اور حضور کا تصور ہمارے دلوں میں موجود ہے اگر چہ وہ ہمارے سامنے رونق افروز نہیں ،اور یا تو اس وجہ سے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی کھلم کھلا پیش کی جاتی ہے اس طرح کہ قبر میں حضور کی شبیہ مبارک لاءی جاتی ہے (اشعتہ اللمعات فارسی جلد اول ص 115)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area