(سوال نمبر 7061)
کیا نکاح ثابت کرنے کے لیے گواہ کا گواہی دینا ضروری ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ بکر کا بھائی زید ایک غیر مسلم لڑکی کو لے کر فرار ہو گیا پھر زید نے اسی لڑکی سے شادی کر کے تقریبا دو سال کے بعد تنہا اپنے گھر واپس آیا تو اس کے گھر والوں نے اسے گھر میں پناہ بھی دی ادھر اہل قریہ کا کہنا ہے کہ جب تک بکر اور اس کے بھائی زید کے متعلق حکم شرع نہیں لاؤ گے تب تک اہل قریہ بکر کے گھر سے قطع تعلق رکھیں گے صورت مسئلہ میں بکر اور زید اور اہل قریہ کے متعلق حکم شرع کیا ہے؟ علمائے کرام اس کا جواب قران و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں
سائل:- حافظ محمد نوشاد چشتی ستا مڑھی بہار انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره و نصلي علي رسوله الأمين الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
موجودہ دور میں حالات حاضرہ کے پیش نظر کسی کافرہ کو مسلمان کرکے بھی جلد بازی میں شادی نہیں کرنی چاہیے۔
مذکورہ صورت میں اگ زید نے ہندہ کو کلمہ پڑھا کر مسلمان کیا اور ہندہ نے راضی برضا اپنا دین چھوڑ کر مذہب اسلام قبول کیا پھر زید نے شرعی گواہ کی موجودگی میں عقد نکاح کیا پھر ہندہ زید کی بیوی ہے
یاد رہے اگر اہل محلہ شادی کی شرعی گواہی طلب کرے پھر زید پر واجب ہے کہ گواہ پیش کرے اگر شادی کی شرعی گواہ پیش نہ کرے پھر اہل محلہ اسے بائیکاٹ کرے تاآنکہ شرعی گواہ کے ساتھ نکاح نہ کرلے۔
چونکہ شرعی گواہ ہوتے ہی ہیں اسی لئے کہ ضرورت پڑنے پر نکاح کا ثبوت پیش کیا جایے۔(کتب فقہ عامہ)
زید سے شرعی نکاح کی گواہی طلب کی جائے اگر کردے فبہا نہ کرے پھر نکاح صحیح نہیں ہوا گواہان شرائط نکاح سے ہے۔۔
یاد رہے کہ نابالغ لڑکی کے لئے ولی اور دو معتبر گواہوں کے بغیر نکاح درست نہیں۔ اگر دو مرد موجود نہ ہوں تو کم سے کم ایک مرد اور دوعورتوں کا ہونا ضروری ہے اگر ایجاب و قبول کے وقت کوئی مرد نہ ہو صرف عورتیں ہوں تو نکاح صحیح نہ ہوگا
تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے
(وَ) شُرِطَ (حُضُورُ) شَاهِدَيْنِ (حُرَّيْنِ) أَوْ حُرٌّ وَحُرَّتَيْنِ (مُكَلَّفَيْنِ سَامِعَيْنِ قَوْلَهُمَا مَعًا) عَلَى الْأَصَحِّ (فَاهِمَيْنِ) أَنَّهُ نِكَاحٌ عَلَى الْمَذْهَبِ بَحْرٌ (مُسْلِمَيْنِ لِنِكَاحِ مُسْلِمَةٍ وَلَوْ فَاسِقَيْنِ أَوْ مَحْدُودَيْنِ فِي قَذْفٍ أَوْ أَعْمَيَيْنِ أَوْ ابْنَيْ الزَّوْجَيْنِ أَوْ ابْنَيْ أَحَدِهِمَا، وَإِنْ لَمْ يَثْبُتْ النِّكَاحُ بِهِمَا) بِالِابْنَيْن
(قَوْلُهُ: وَإِنْ لَمْ يَثْبُتْ النِّكَاحُ بِهِمَا) أَيْ بِالِابْنَيْنِ أَيْ بِشَهَادَتِهَا، فَقَوْلُهُ: بِالِابْنَيْنِ بَدَلٌ مِنْ الضَّمِيرِ الْمَجْرُورِ، وَفِي نُسْخَةٍ لَهُمَا أَيْ لِلزَّوْجَيْنِ، وَقَدْ أَشَارَ إلَى مَا قَدَّمْنَاهُ مِنْ الْفَرْقِ بَيْنَ حُكْمِ الِانْعِقَادِ، وَحُكْمِ الْإِظْهَارِ أَيْ يَنْعَقِدُ النِّكَاحُ بِشَهَادَتِهِمَا، وَإِنْ لَمْ يَثْبُتْ بِهَا عِنْدَ التَّجَاحُدِ وَلَيْسَ هَذَا خَاصًّا بِالِابْنَيْنِ كَمَا قَدَّمْنَاهُ". (الشامية، كِتَابُ النِّكَاحِ، ٣ / ٢١ - ٢٤، ط: دار الفكر)
کیا نکاح ثابت کرنے کے لیے گواہ کا گواہی دینا ضروری ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ بکر کا بھائی زید ایک غیر مسلم لڑکی کو لے کر فرار ہو گیا پھر زید نے اسی لڑکی سے شادی کر کے تقریبا دو سال کے بعد تنہا اپنے گھر واپس آیا تو اس کے گھر والوں نے اسے گھر میں پناہ بھی دی ادھر اہل قریہ کا کہنا ہے کہ جب تک بکر اور اس کے بھائی زید کے متعلق حکم شرع نہیں لاؤ گے تب تک اہل قریہ بکر کے گھر سے قطع تعلق رکھیں گے صورت مسئلہ میں بکر اور زید اور اہل قریہ کے متعلق حکم شرع کیا ہے؟ علمائے کرام اس کا جواب قران و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں
سائل:- حافظ محمد نوشاد چشتی ستا مڑھی بہار انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره و نصلي علي رسوله الأمين الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
موجودہ دور میں حالات حاضرہ کے پیش نظر کسی کافرہ کو مسلمان کرکے بھی جلد بازی میں شادی نہیں کرنی چاہیے۔
مذکورہ صورت میں اگ زید نے ہندہ کو کلمہ پڑھا کر مسلمان کیا اور ہندہ نے راضی برضا اپنا دین چھوڑ کر مذہب اسلام قبول کیا پھر زید نے شرعی گواہ کی موجودگی میں عقد نکاح کیا پھر ہندہ زید کی بیوی ہے
یاد رہے اگر اہل محلہ شادی کی شرعی گواہی طلب کرے پھر زید پر واجب ہے کہ گواہ پیش کرے اگر شادی کی شرعی گواہ پیش نہ کرے پھر اہل محلہ اسے بائیکاٹ کرے تاآنکہ شرعی گواہ کے ساتھ نکاح نہ کرلے۔
چونکہ شرعی گواہ ہوتے ہی ہیں اسی لئے کہ ضرورت پڑنے پر نکاح کا ثبوت پیش کیا جایے۔(کتب فقہ عامہ)
زید سے شرعی نکاح کی گواہی طلب کی جائے اگر کردے فبہا نہ کرے پھر نکاح صحیح نہیں ہوا گواہان شرائط نکاح سے ہے۔۔
یاد رہے کہ نابالغ لڑکی کے لئے ولی اور دو معتبر گواہوں کے بغیر نکاح درست نہیں۔ اگر دو مرد موجود نہ ہوں تو کم سے کم ایک مرد اور دوعورتوں کا ہونا ضروری ہے اگر ایجاب و قبول کے وقت کوئی مرد نہ ہو صرف عورتیں ہوں تو نکاح صحیح نہ ہوگا
تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے
(وَ) شُرِطَ (حُضُورُ) شَاهِدَيْنِ (حُرَّيْنِ) أَوْ حُرٌّ وَحُرَّتَيْنِ (مُكَلَّفَيْنِ سَامِعَيْنِ قَوْلَهُمَا مَعًا) عَلَى الْأَصَحِّ (فَاهِمَيْنِ) أَنَّهُ نِكَاحٌ عَلَى الْمَذْهَبِ بَحْرٌ (مُسْلِمَيْنِ لِنِكَاحِ مُسْلِمَةٍ وَلَوْ فَاسِقَيْنِ أَوْ مَحْدُودَيْنِ فِي قَذْفٍ أَوْ أَعْمَيَيْنِ أَوْ ابْنَيْ الزَّوْجَيْنِ أَوْ ابْنَيْ أَحَدِهِمَا، وَإِنْ لَمْ يَثْبُتْ النِّكَاحُ بِهِمَا) بِالِابْنَيْن
(قَوْلُهُ: وَإِنْ لَمْ يَثْبُتْ النِّكَاحُ بِهِمَا) أَيْ بِالِابْنَيْنِ أَيْ بِشَهَادَتِهَا، فَقَوْلُهُ: بِالِابْنَيْنِ بَدَلٌ مِنْ الضَّمِيرِ الْمَجْرُورِ، وَفِي نُسْخَةٍ لَهُمَا أَيْ لِلزَّوْجَيْنِ، وَقَدْ أَشَارَ إلَى مَا قَدَّمْنَاهُ مِنْ الْفَرْقِ بَيْنَ حُكْمِ الِانْعِقَادِ، وَحُكْمِ الْإِظْهَارِ أَيْ يَنْعَقِدُ النِّكَاحُ بِشَهَادَتِهِمَا، وَإِنْ لَمْ يَثْبُتْ بِهَا عِنْدَ التَّجَاحُدِ وَلَيْسَ هَذَا خَاصًّا بِالِابْنَيْنِ كَمَا قَدَّمْنَاهُ". (الشامية، كِتَابُ النِّكَاحِ، ٣ / ٢١ - ٢٤، ط: دار الفكر)
فقط والله أعلم
والله ورسوله اعلم بالصواب
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
14/08/2023