(سوال نمبر 2016)
کیا امام صاحب کو جمعہ میں فرض و سنن پڑھنے کے بعد نفل پڑھنا ضروری ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا امام صاحب کو جمعہ میں فرض و سنن پڑھنے کے بعد نفل پڑھنا ضروری ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ ایک امام مسجد ہیں جو نماز جمعہ پڑھاتے ہیں تو وہ فرض پڑھنے کے بعد چار سنت پھر دو سنت پڑھ کر دعا کر کے چلے جاتے ہیں۔ جو آخر کے دو نوافل ہیں وہ نہیں پڑھتے کیا ایسا کرنا ٹھیک ہے حدیث کی روشنی، میں جواب عنایت فرماے ۔
سائل:-مصرف احمد قرشی جموں وکشمیر سرنکوٹ فضل اباد انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل
جمعہ کی نماز میں سنت و نفل ملا کر کل چودہ رکعتیں ہیں جن میں سے چار رکعت جمعہ سے پہلے سنت مؤکدہ ہے دو رکعت نماز جمعہ یہ فرض ہے اس کے بعد چار رکعت طرفین ( یعنی امام ابو حنیفہ اور امام محمد رحمہما اللہ ) کے نزدیک اور چھ رکعت امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے نزدیک سنت مؤکدہ ہے اور یہی قول راجح ہے آخر میں دو رکعت نفل ہے.
چونکہ اخیر میں دو رکعات نفل ہے اس لئے امام صاحب اگر نہیں پڑھیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔نفل چھوڑنے سے امام کی امامت میں کوئی قباحت نہیں ہے
البتہ امام صاحب اس طرح نہ کریں کہ عوام اگر پڑھتے ہوں تو امام صاحب کو دیکھ کر وہ بھی پڑھنا چھوڑدیں یا اعتراض کریں یا عوام الناس بد ظن ہوں ۔جاہل عوام کا ضرورخیال رکھا جائے ۔
مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے
عن أبي عبد الرحمٰن قال قدم علینا ابن مسعود رضى اللّٰه ، فکان یأمرنا أن نصلى بعد الجمعة أربعاً ، فلما قدم علینا عليٌّ أمرنا أن نصلى ستّا ، فأخذنا بقول على ، وترکنا قول عبد اللّٰه ، قال کان یصلي رکعتین ثم أربعاً اھ
( مصنف ابن أبی شیبہ ج 4 ص 117 رقم حدیث 5410)
اسی طرح شرح معانی الآثار میں ہے کہ
عن علي، رضي الله عنه أنه قال من كان مصليًا بعد الجمعة فليصل ستًا " اھ (شرح معانی الآثار ج 1 ص 337 )
اور طحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے۔
و قال أبو یوسف یصلي أربعاً قبل الجمعة و ستّاً بعدها ، وفى الکرخى محمد مع أبى یوسف و فى المنظومة مع الإمام ثم عند أبى یوسف یصلى أربعًا ثم اثنین اھ (طحطاوی علی مراقی الفلاح ص 213 فصل في بیان النوافل قدیمي کتب خانہ کراچی)
غنیہ میں ہے
وعند أبى يوسف السنة بعد الجمعة ست ركعات وهو مروى عن على رضى اللّٰه تعالى عنه و الأفضل أن یصلی أربعاً ثم رکعتین للخروج عن الخلاف اھ۔
(غنیة المستملى ص 389 فصل فی النوافل / مجمع الأنھر ج 1 ص 130 ، دار الکتب العلمیہ بیروت )
مجتہد فی المسائل اعلی حضرت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
جمعہ کی نماز کے دو فرض کے بعد کی سنتوں کے تعداد میں اختلاف ہے اصل مذہب میں چار رکعت سنت مؤکدہ ہیں اور احوط چھ رکعت ہیں اھ (ماخوذ فتاویٰ رضویہ ج 3 ص 693 )
مصنف بہار شریعت رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
چار جمعہ سے پہلے چار بعد یعنی جمعہ کے دن جمعہ پڑھنے والے پر چودہ رکعتیں ہیں اور علاوہ جمعہ کے باقی دنوں میں ہر روز بارہ رکعتیں افضل یہ ہے کہ جمعہ کے بعد چار پڑھے پھر دو کہ دونوں حدیثوں پر عمل ہو جائے اھ
سائل:-مصرف احمد قرشی جموں وکشمیر سرنکوٹ فضل اباد انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل
جمعہ کی نماز میں سنت و نفل ملا کر کل چودہ رکعتیں ہیں جن میں سے چار رکعت جمعہ سے پہلے سنت مؤکدہ ہے دو رکعت نماز جمعہ یہ فرض ہے اس کے بعد چار رکعت طرفین ( یعنی امام ابو حنیفہ اور امام محمد رحمہما اللہ ) کے نزدیک اور چھ رکعت امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے نزدیک سنت مؤکدہ ہے اور یہی قول راجح ہے آخر میں دو رکعت نفل ہے.
چونکہ اخیر میں دو رکعات نفل ہے اس لئے امام صاحب اگر نہیں پڑھیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔نفل چھوڑنے سے امام کی امامت میں کوئی قباحت نہیں ہے
البتہ امام صاحب اس طرح نہ کریں کہ عوام اگر پڑھتے ہوں تو امام صاحب کو دیکھ کر وہ بھی پڑھنا چھوڑدیں یا اعتراض کریں یا عوام الناس بد ظن ہوں ۔جاہل عوام کا ضرورخیال رکھا جائے ۔
مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے
عن أبي عبد الرحمٰن قال قدم علینا ابن مسعود رضى اللّٰه ، فکان یأمرنا أن نصلى بعد الجمعة أربعاً ، فلما قدم علینا عليٌّ أمرنا أن نصلى ستّا ، فأخذنا بقول على ، وترکنا قول عبد اللّٰه ، قال کان یصلي رکعتین ثم أربعاً اھ
( مصنف ابن أبی شیبہ ج 4 ص 117 رقم حدیث 5410)
اسی طرح شرح معانی الآثار میں ہے کہ
عن علي، رضي الله عنه أنه قال من كان مصليًا بعد الجمعة فليصل ستًا " اھ (شرح معانی الآثار ج 1 ص 337 )
اور طحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے۔
و قال أبو یوسف یصلي أربعاً قبل الجمعة و ستّاً بعدها ، وفى الکرخى محمد مع أبى یوسف و فى المنظومة مع الإمام ثم عند أبى یوسف یصلى أربعًا ثم اثنین اھ (طحطاوی علی مراقی الفلاح ص 213 فصل في بیان النوافل قدیمي کتب خانہ کراچی)
غنیہ میں ہے
وعند أبى يوسف السنة بعد الجمعة ست ركعات وهو مروى عن على رضى اللّٰه تعالى عنه و الأفضل أن یصلی أربعاً ثم رکعتین للخروج عن الخلاف اھ۔
(غنیة المستملى ص 389 فصل فی النوافل / مجمع الأنھر ج 1 ص 130 ، دار الکتب العلمیہ بیروت )
مجتہد فی المسائل اعلی حضرت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
جمعہ کی نماز کے دو فرض کے بعد کی سنتوں کے تعداد میں اختلاف ہے اصل مذہب میں چار رکعت سنت مؤکدہ ہیں اور احوط چھ رکعت ہیں اھ (ماخوذ فتاویٰ رضویہ ج 3 ص 693 )
مصنف بہار شریعت رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
چار جمعہ سے پہلے چار بعد یعنی جمعہ کے دن جمعہ پڑھنے والے پر چودہ رکعتیں ہیں اور علاوہ جمعہ کے باقی دنوں میں ہر روز بارہ رکعتیں افضل یہ ہے کہ جمعہ کے بعد چار پڑھے پھر دو کہ دونوں حدیثوں پر عمل ہو جائے اھ
(بہار شریعت ج 1 ص 663 سنن و نوافل کا بیان )
والله ورسوله اعلم بالصواب
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
٢٧/٢/٢٠٢٢
٢٧/٢/٢٠٢٢