Type Here to Get Search Results !

کیا ایک مشت سے کم داڑھی رکھنا سنت رسول یا سنت صحابہ ہے

 (سوال نمبر 282)
 کیا ایک مشت سے کم داڑھی رکھنا سنت رسول یا سنت صحابہ ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ 
کیا ایک مشت سے کم داڑھی رکھنا سنت رسول یا سنت صحابہ ہے؟ 
کیا ایک مشت داڈھی رکھنا قرآن وحدیث سے ثابت ہے؟ 
مدلل جواب دے کر شکریہ کا موقع عطاء فرمائیں عین نوازش ہوگی
سائل:- ظہیر الدین برکاتی بزم گلشن طیبہ اعظمی نگر بھیونڈی انڈیا 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الامین
وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ
الجواب باسمہ تعالی عزوجل
ایک مشت سے کم ڈاڑھی رکھنا خلاف سنت ہے اور خلاف سنت صحابہ ہے ۔مطلق ڈاڑھی رکھنا واجب ہے اور قبضہ بھر رکھنا سنت ہے 
مصنف شرح صحیح مسلم مفسر قرآن غلام رسول سعیدی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
 بعض علماء ڈاڑھی میں قبضہ کو واجب کہتے ہیں ‘ لیکن یہ صحیح نہیں ہے ‘ کیونکہ وجوب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے امر سے ثابت ہوتا ہے اور کسی حدیث میں یہ نہیں ہے کہ آپ نے قبضہ تک ڈاڑھی رکھنے کا امر فرمایا ہو۔ بعض علماء وجوب پر یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دائما قبضہ تک ڈاڑھی رکھی اور کبھی اس کا ترک نہیں کیا اور یہ وجوب کی دلیل ہے ‘ ہم کہتے ہیں کہ صرف دوام سے و جواب ثابت نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ نے اس فعل کے ترک پر انکار بھی فرمایا ہو جیسا کہ علامہ ابن نجیم نے فرمایا ہے اور علامہ ابن ھمام کی بھی یہی تحقیق ہے ‘ اور کسی حدیث میں یہ منقول نہیں ہے کہ آپ نے قبضہ سے کم ڈاڑھی رکھنے پر انکار فرمایا ہو ‘ نیز آپ وضوء میں ہمیشہ دائیں جانب سے ابتداء کرتے تھے اور یہ بالاتفاق واجب نہیں ہے بلکہ مستحب ہے ہمارا موقف یہ ہے کہ نفس ڈاڑھی رکھنا واجب ہے اور منڈانا حرام ہے کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک ڈاڑھی منڈانے والے مجوسی پر انکار فرمایا (المصنف ج ٨ ص ٣٧٩)
 نیز ڈاڑھی رکھنا اسلام اور مسلمانوں کا شعار ہے ‘ البتہ قبضہ تک ڈاڑھی رکھنا واجب نہیں ہے ‘ لیکن ڈاڑھی کی اتنی مقدار رکھنا ضروری ہے جس پر عرف میں ڈاڑھی کا اطلاق آسکے ‘ کیونکہ احکام میں عرف کا اعتبار ہے ‘ 
علامہ شامی نے لکھا ہے کہ امام ابوحنفیہ (رحمت اللہ علیہ ) کا قاعدہ یہ ہے کہ جس چیز کی شرعا مقدار معین نہ ہو اس میں مبتلا بہ کی رائے کا اعتبار ہوتا ہے۔
 (رد المختار ج ١ ص ١٢٨‘ مطبوعہ دارا حیاء التراث العربی ‘ بیروت ١٤٠٧ ھ)
خشخشی ڈاڑھی یا فرنچ کٹ ڈاڑھی سے یہ تقاضا پورا نہیں ہوتا ‘ یہ ایک فنی بحث ہے ورنہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ لمبی اور دراز ڈاڑھی رکھی جائے جو سینہ کے بالائی حصہ کو بھر لے کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ڈاڑھی لمبی تھی جو سینہ مبارک کو بھر لیتی تھی۔
(تفسیر تبیان القرآن - سورۃ نمبر 2 البقرة آیت نمبر 116)
میرا موقف یہی جو مذکور ہوا ۔
البتہ اعلی حضرت رضی اللہ عنہ نے مقدار لحیہ کے باب میں قبضہ کو واجب قرار دیا ہے 
مصنف بہار شریعت رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں 
داڑھی بڑھانا سنن انبیاء سابقین سے ہے۔ مونڈانا یا ایک مشت سے کم کرنا حرام ہے، ہاں ایک مشت سے زائد ہو جائے تو جتنی زیادہ ہے اس کو کٹوا سکتے ہیں
(بہار شریعت ح 16ص 588دعوت اسلامی )
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
6/1/2021

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area