Type Here to Get Search Results !

کیا انبیاء علیہم السلام سے گناہ سرزد ہو سکتا ہے؟

کیا انبیاء علیہم السلام سے گناہ سرزد ہو سکتا ہے؟
________(❤️)_________
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کیا انبیاء علیہم السلام سے گناہ سرزد ہو سکتے ہیں، یا نہیں، تو پھر آدم علیہ السلام کی طرف گناہ کی نسبت کیوں کی جاتی ہے، 
سائلہ:- بنت مہرالدین چشتی
________(💛)_________
وعلیکم السلام و رحمۃاللہ وبرکاتہ
الجواب ھو الھادی الی الصواب:-
انبیاء علیہم السلام معصوم ہوتے ہیں ان سے گناہ کا صدور نہیں ہوتا۔
 اللہ قرآن پاک میں فرماتا ہے:
ان عبادی لیس لک علیھم سلطان
ترجمہ: اے ابلیس میرے خاص بندوں پر تیری دسترس نہیں،
معلوم ہوا کی انبیاء تک شیطان کی پہنچ نہیں، اور نہ تو وہ انہیں گمراہ کرسکتا ہے،
 اور نہ انہیں بے راہ چلا سکے پھر گناہ کیونکر سرزد ہو، 
صدر الشریعہ بہار شریعت جلد 1 صفحہ 38 پر فرماتے ہیں:
نبی کا معصوم ہونا ضروری ہے، اور یہ عصمت نبی اور ملک کا خاصہ ہے، نبی اور فرشتوں کے سوا کوئی معصوم نہیں، عصمت انبیاء کے یہ معنی ہیں کہ ان کے لیے حفظ الہی کا وعدہ ہو لیا جس کے سبب ان سے صدور گناہ شرعاً محال ہے۔
امام تفتازانی فرماتے ہیں
الانبیاء علیہم السلام معصومون عن الکذب خصوصاً فیما یتعلق 
بامر الشراع و تبلیغ الاحکام و ارشاد الامتہ۔
انبیا علیہم السلام گناہوں سے معصوم ہوتے ہیں،
 خصوصاً شرعی معاملات میں تبلیغ احکام اور امت کی رہنمائی میں۔ (شرح العقائد) 
حضرت آدم علیہ السلام کو شجر ممنوع کے جانے کو منع کیا تھا انہوں نے اس درخت سے کھایا، جس کی وجہ سے بعض لوگ گناہ کی نسبت حضرت آدم کی طرف کرتے ہیں اس کا جواب یہ ہے، حضرت آدم علیہ السلام نے اس نہی کو تنزیہہ پر محمول کیا یا وہ کھاتے وقت بھول گئے،
، حضرت آدم علیہ السلام نے اجتہاد کیا کہ اللہ تعالیٰ کی قسم کوئی جھوٹی نہیں کھا سکتا، اور انہوں نے یہ اجتہاد کیا کہ اللہ نے تنزیہا منع کیا ہے، یا انہوں نے یہ اجتہاد کیا اللہ نے خاص اس درخت سے منع فرمایا ہے میں اس نوع کے کسی اور درخت سے کھا لیتا ہوں دونوں صورتوں میں ان کے اجتہاد کو خطاء لاحق ہوئی ، اور یہ بھول گئے اللہ نے اس نوع شجر سے منع کیا تھا، اور یہ واضح رہے، اجتہادی خطا اور نسیان عصمت کے منافی نہیں ہے، باقی رہا ان کا توبہ استغفار کرنا تو یہ ان کا کمال تواضع اور انکسار ہے
جسے گناہ کہنا ہر گز جائز نہیں ہے اگر انبیاء سے معاذاللہ گناہ صادر ہو تو ان کی اتباع حرام ہوگی، حالانکہ ان کی اتباع کرنا واجب ہے کیونکہ کی اللہ فرماتا ہے،
قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی آپ فرما دیں اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو، تو میری اتباع کرو،( العمران 31)
اگر نبی سے گناہ کا صدور ہو تو انکو معاذاللہ ملامت کرنا جائز ہوگا، اور اس سے نبی کو ایذا ہوگی اور انبیاء کو ایذا دینا حرام ہے، اللہ فرماتا ہے،
ان الذین یؤذون اللہ و رسولہ لعنھم اللہ فی الدنیا والاخرتہ
جو لوگ اللہ و رسول کو ایذا پہونچاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ کی لعنت ہے،
انبیاء لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہیں اگر وہ خود گناہ کریں، تو اللہ ان پر ناراض ہوگا، کیونکہ اللہ تعالٰیٰ کا ارشاد ہے،
کبر مقتا عند اللہ ان تقولوا مالا تفعلون 
اللہ کے نزدیک یہ بات سخت ناراضگی کی موجب ہے وہ بات کہو جو خود نہیں کرتے
اگر انبیاء سے معاذاللہ گناہ صادر ہو تو وہ مستحق عذاب ہوتے، کیونکہ. اللہ فرماتا ہے
و من یعص اللہ و رسولہ فان لہ نار جھنم خلدین فیھا ابدا، (سورۂ جن 23)
اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے تو لاریب اس کے لیے جہنم کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہےگا،
اور امت کا اس پر اجماع ہے
انبیا جہنم سے محفوظ اور مامون ہیں اور ان کا مقام جنت خلد ہے
خلاصہ کلام یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام گناہوں سے معصوم ہوتے ہیں ان سے گناہ کا صدور نہیں ہوتا ،اور ان کی طرف گناہ کی نسبت کرنا ناجائزو گمراہیت ہے
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب
________(❤️)_________
✍️ کتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد دانش حنفی
صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
ہلدوانی نینیتال 9917420179

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area