(سوال نمبر 6063)
کسی بھی میت کا جنازہ پڑھانے کا سب سے زیادہ کون حقدار ہے؟
.....................................
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ کسی بھی میت کا جنازہ پڑھانے کا سب سے زیادہ کون حقدار ہے برائے مہربانی جواب عنایت فرمائیں
سائل:- نام محمد رضاء الحق کٹیہار بہار انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره و نصلي علي رسوله الأمين الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
مسئلہ مسئولہ میں نماز جنازہ پڑھانے کا حق سب سے پہلے سلطان کو ہے پھر اس کے نائب امیر شہر کو پھر قاضی کو پھر امیر بلدہ کو پھر قاضی کے نائب کو پھر امام مسجد کو بشرطیکہ وہ ولی سے افضل ہو وُلاة کی تقدیم واجب ہے اور امام کی مندوب اگر امام محلہ صالح دین دار اور ولی سے افضل ہے تو ولی میت کو چاہیے کہ امام سے نماز پڑھانے کی درخواست کرے ورنہ ولی کو خود نماز پڑھانے کا زیادہ حق ہے اگر میت کے رشتے داروں میں بھائی بیٹا اور باپ سبھی موجود ہوں تو باپ کو زیادہ حق ہے اگر ولی میت خود نماز جنازہ پڑھانے کا مطالبہ کرے تو اس کو اس کا حق ہے لیکن امام مسجد اگر اس سے افضل ہو تو ولی امام کو نماز پڑھانے کی اجازت دے دے یہ بہترہے
اس مسئلہ میں لوگ بہت لا پرواہی کرتے ہیں اس لیے اچھے سے سمجھ لینی چاہیے
اگر کسی شخص کی نماز جنازہ میں میت کا ولی محلے کا امام اور کوئی بڑا عالم بھی موجود ہو تو نماز جنازہ پڑھانے کا حق سب سے زیادہ ولی کو حاصل ہے پھر امام محلہ کو جبکہ امام محلہ علم وفضل زہد وتقوی اور دینداری میں ولی میت سے افضل ہو تو پھر ولی کو چاہئے کہ محلے کے امام سے نماز جنازہ پڑھانے کی درخواست پیش کرے لیکن اگر ولی میت امام محلہ کے علاوہ جنازہ میں شامل کسی دوسرے عالم کو اجازت دیدے تب بھی جائز ہے کیونکہ نماز جنازہ پڑھانے کا حق ولی کا ہے وہ جس کو چاہے اجازت دے سکتا ہے یہاں تک کہ اگر مرنے والا کسی مخصوص شخص کے لئے نماز جنازہ پڑھانےکی وصیت کر جائے تب بھی فقہائے کرام کے نزدیک یہ وصیت باطل ہے اور یہ حق بدستور ولی میت کو حاصل رہیگا چاہے وہ خود نماز جنازہ پڑھائے یا کسی دوسرے کو پڑھانے کی اجازت دے
شامی میں ہے
وتقدیم إمام الحی مندوبٌ فقط بشرط أن یکون أفضل من الولی، وإلا فالولی أولی کما فی (درمختار : ج۳ ص۱۲۰)
تبيين الحقائق شرح كنزالدقائق، میں ہے
وله أن يأذن لغيره) أي للولي أن يأذن لغيره في الصلاة على الجنازة لأن التقدم حقه فيملك إبطاله بتقديم غيره (تبيين الحقائق شرح كنزالدقائق، كتاب الصلاة، باب الجنائز، فصل السلطان أحق بصلاته،ج:1، ص:573)
البتہ فقہائے کرام کی عبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ محلے کے امام کو مقدم کرنا افضل ہے کیونکہ مرنے والا زندگی میں جس شخص کے پیچھے نماز پڑھنے پر خوش رہتا تھا تو اس کو نماز جنازہ میں بھی مقدم کرنا مستحب ہوگا، لیکن اگر مرنے والا زندگی میں محلے کے امام سے کسی وجہ شرعی کی بنا پر ناراض تھا اور اس کے پیچھے نماز پڑھنا ناپسند کرتا تھا تو پھر ایسے امام کو اس میت کی نماز جنازہ کے لیے مقدم کرنا خلاف اولی ہے
شامی میں ہے
۔قولہ: ثم إمام الحي إلی الطائفة وہو إمام المسجد الخاص بالمحلة وإنما کان أولی؛ لأن المیت رضي بالصلاۃ خلفه فی حال حیاته، فینبغی أن یصلی علیہ بعد وفاته، قال فی شرح المنیة: فعلی هذا لو علم أنہ کان غیر راض بہٖ حال حیاته ینبغی أن لا یستحب تقدیمه.)
(شامی: ج۳ ص۱۱۹)
ہاں اگر زید ولی میت کی اجازت کے بغیر پڑھاتا تب بھی نماز تو ہوجاتی البتہ ولی میت کو دوبارہ نماز جنازہ پڑھنے کا اختیار رہتا ہے
فتاویٰ رضویہ میں ہے
ایسی صورت میں نماز تو ہو گئی جو نماز بغیر اجازت ولی کے پڑھی جائے ولی کو اختیار ہے کہ دوبارہ پڑھے مگر جو پہلے پڑھ چکے ہیں وہ دوبارہ نہیں پڑھ سکتے (فتاویٰ رضویہ ج نہم ص ۱۷۷ رضا فاؤنڈیشن)
اور بہار شریعت میں ہے
ولی کے سوا کسی ایسے نے نماز پڑھائی جو ولی پر مقدم نہ ہو اورولی نے اسے اجازت بھی نہ دی تھی تو ا گر ولی نماز میں شریک نہ ہوا تو نماز کا اعادہ کر سکتا ہے اور اگر مردہ دفن ہوگیا ہے تو قبر پر نماز پڑھ سکتا ہے اور اگر وہ ولی پر مقدم ہے جیسے بادشاہ و قاضی و امام محلہ کہ ولی سے افضل ہو تو اب ولی نماز کا اعادہ نہیں کر سکتا اور اگرایک ولی نے نماز پڑھا دی تو دوسرے اولیا اعادہ نہیں کر سکتے اور ہر صورت اعادہ میں جو شخص پہلی نماز میں شریک نہ تھا وہ ولی کے ساتھ پڑھ سکتا ہے اور جو شخص شریک تھا وہ ولی کے ساتھ نہیں پڑھ سکتا ہے کہ جنازہ کی دو مرتبہ نماز ناجائز ہے سوا اس صورت کے کہ غیر ولی نے بغیر اذن ولی پڑھائی”۔
(بہار شریعت ح چہارم ص نمبر 188)
والله ورسوله اعلم بالصواب
کسی بھی میت کا جنازہ پڑھانے کا سب سے زیادہ کون حقدار ہے؟
.....................................
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ کسی بھی میت کا جنازہ پڑھانے کا سب سے زیادہ کون حقدار ہے برائے مہربانی جواب عنایت فرمائیں
سائل:- نام محمد رضاء الحق کٹیہار بہار انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره و نصلي علي رسوله الأمين الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
مسئلہ مسئولہ میں نماز جنازہ پڑھانے کا حق سب سے پہلے سلطان کو ہے پھر اس کے نائب امیر شہر کو پھر قاضی کو پھر امیر بلدہ کو پھر قاضی کے نائب کو پھر امام مسجد کو بشرطیکہ وہ ولی سے افضل ہو وُلاة کی تقدیم واجب ہے اور امام کی مندوب اگر امام محلہ صالح دین دار اور ولی سے افضل ہے تو ولی میت کو چاہیے کہ امام سے نماز پڑھانے کی درخواست کرے ورنہ ولی کو خود نماز پڑھانے کا زیادہ حق ہے اگر میت کے رشتے داروں میں بھائی بیٹا اور باپ سبھی موجود ہوں تو باپ کو زیادہ حق ہے اگر ولی میت خود نماز جنازہ پڑھانے کا مطالبہ کرے تو اس کو اس کا حق ہے لیکن امام مسجد اگر اس سے افضل ہو تو ولی امام کو نماز پڑھانے کی اجازت دے دے یہ بہترہے
اس مسئلہ میں لوگ بہت لا پرواہی کرتے ہیں اس لیے اچھے سے سمجھ لینی چاہیے
اگر کسی شخص کی نماز جنازہ میں میت کا ولی محلے کا امام اور کوئی بڑا عالم بھی موجود ہو تو نماز جنازہ پڑھانے کا حق سب سے زیادہ ولی کو حاصل ہے پھر امام محلہ کو جبکہ امام محلہ علم وفضل زہد وتقوی اور دینداری میں ولی میت سے افضل ہو تو پھر ولی کو چاہئے کہ محلے کے امام سے نماز جنازہ پڑھانے کی درخواست پیش کرے لیکن اگر ولی میت امام محلہ کے علاوہ جنازہ میں شامل کسی دوسرے عالم کو اجازت دیدے تب بھی جائز ہے کیونکہ نماز جنازہ پڑھانے کا حق ولی کا ہے وہ جس کو چاہے اجازت دے سکتا ہے یہاں تک کہ اگر مرنے والا کسی مخصوص شخص کے لئے نماز جنازہ پڑھانےکی وصیت کر جائے تب بھی فقہائے کرام کے نزدیک یہ وصیت باطل ہے اور یہ حق بدستور ولی میت کو حاصل رہیگا چاہے وہ خود نماز جنازہ پڑھائے یا کسی دوسرے کو پڑھانے کی اجازت دے
شامی میں ہے
وتقدیم إمام الحی مندوبٌ فقط بشرط أن یکون أفضل من الولی، وإلا فالولی أولی کما فی (درمختار : ج۳ ص۱۲۰)
تبيين الحقائق شرح كنزالدقائق، میں ہے
وله أن يأذن لغيره) أي للولي أن يأذن لغيره في الصلاة على الجنازة لأن التقدم حقه فيملك إبطاله بتقديم غيره (تبيين الحقائق شرح كنزالدقائق، كتاب الصلاة، باب الجنائز، فصل السلطان أحق بصلاته،ج:1، ص:573)
البتہ فقہائے کرام کی عبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ محلے کے امام کو مقدم کرنا افضل ہے کیونکہ مرنے والا زندگی میں جس شخص کے پیچھے نماز پڑھنے پر خوش رہتا تھا تو اس کو نماز جنازہ میں بھی مقدم کرنا مستحب ہوگا، لیکن اگر مرنے والا زندگی میں محلے کے امام سے کسی وجہ شرعی کی بنا پر ناراض تھا اور اس کے پیچھے نماز پڑھنا ناپسند کرتا تھا تو پھر ایسے امام کو اس میت کی نماز جنازہ کے لیے مقدم کرنا خلاف اولی ہے
شامی میں ہے
۔قولہ: ثم إمام الحي إلی الطائفة وہو إمام المسجد الخاص بالمحلة وإنما کان أولی؛ لأن المیت رضي بالصلاۃ خلفه فی حال حیاته، فینبغی أن یصلی علیہ بعد وفاته، قال فی شرح المنیة: فعلی هذا لو علم أنہ کان غیر راض بہٖ حال حیاته ینبغی أن لا یستحب تقدیمه.)
(شامی: ج۳ ص۱۱۹)
ہاں اگر زید ولی میت کی اجازت کے بغیر پڑھاتا تب بھی نماز تو ہوجاتی البتہ ولی میت کو دوبارہ نماز جنازہ پڑھنے کا اختیار رہتا ہے
فتاویٰ رضویہ میں ہے
ایسی صورت میں نماز تو ہو گئی جو نماز بغیر اجازت ولی کے پڑھی جائے ولی کو اختیار ہے کہ دوبارہ پڑھے مگر جو پہلے پڑھ چکے ہیں وہ دوبارہ نہیں پڑھ سکتے (فتاویٰ رضویہ ج نہم ص ۱۷۷ رضا فاؤنڈیشن)
اور بہار شریعت میں ہے
ولی کے سوا کسی ایسے نے نماز پڑھائی جو ولی پر مقدم نہ ہو اورولی نے اسے اجازت بھی نہ دی تھی تو ا گر ولی نماز میں شریک نہ ہوا تو نماز کا اعادہ کر سکتا ہے اور اگر مردہ دفن ہوگیا ہے تو قبر پر نماز پڑھ سکتا ہے اور اگر وہ ولی پر مقدم ہے جیسے بادشاہ و قاضی و امام محلہ کہ ولی سے افضل ہو تو اب ولی نماز کا اعادہ نہیں کر سکتا اور اگرایک ولی نے نماز پڑھا دی تو دوسرے اولیا اعادہ نہیں کر سکتے اور ہر صورت اعادہ میں جو شخص پہلی نماز میں شریک نہ تھا وہ ولی کے ساتھ پڑھ سکتا ہے اور جو شخص شریک تھا وہ ولی کے ساتھ نہیں پڑھ سکتا ہے کہ جنازہ کی دو مرتبہ نماز ناجائز ہے سوا اس صورت کے کہ غیر ولی نے بغیر اذن ولی پڑھائی”۔
(بہار شریعت ح چہارم ص نمبر 188)
والله ورسوله اعلم بالصواب
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
03/08/2023
03/08/2023