(سوال نمبر 281)
جو عورتیں اپنے بچوں کو اپنا دودھ نہیں پلاتی اور کوئی وجہ بھی نہیں ایسی عورتوں کے بابت شرعا کیا حکم ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام وعلیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
جو عورتیں اپنے بچوں کو اپنا دودھ نہیں پلاتی اور کوئی وجہ بھی نہیں ایسی عورتوں کے بابت شرعا کیا حکم ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام وعلیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ جو عورتیں اپنے بچوں کو اپنا دودھ نہیں پلاتی ہیں اور کوئی وجہ بھی نہیں ہے ایسی عورتوں کے بارے میں حدیث مصطفیٰ میں کیاہے؟ اور علماء کرام کیا فرماتے ہیں لہٰذا علماء کرام سے گزارش ہے ک مکمل وجوہات کے ساتھ جواب عنایت فرمایں عین نوازش ہوگی فقط والسلام
سائل:- حافظ محمد زاہدالقادری مقام ماگھی ضلع بہرائچ شریف یوپی انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الامین
وعلیکم السلام و رحمت اللہ و برکاتہ
الجواب باسمہ تعالی عزوجل
مائوں پر اپنے بچوں کو دودھ پلانا واجب نہیں ہے عند الجمہور بلکہ اس کا ضامن والد ہے، اور اگر بیوی دودھ پلانے کی اجرت طلب کرے تو شوہر کو اجرت دینا ضروری ہے شوہر اپنے بچے کو بیوی سے دودھ پلوائے یا کسی دائی سے دونوں صورتوں میں دودھ پلانے کا خرچ شوہر کے ذمے ہے ۔
البتہ اگر بچہ اپنی ماں کے سوا کسی کا دودھ نہ پیتا ہو تو ماں پر اس وقت دودھ پلانا واجب ہے ۔اب اگر نہیں پلائے گی تو گنہگار ہوگی
الله سبحانه وتعالى فرما تا ہے
وَالۡوَالِدٰتُ يُرۡضِعۡنَ اَوۡلَادَهُنَّ حَوۡلَيۡنِ كَامِلَيۡنِ لِمَنۡ اَرَادَ اَنۡ يُّتِمَّ الرَّضَاعَةَ ،وَعَلَى الۡمَوۡلُوۡدِ لَهٗ رِزۡقُهُنَّ وَكِسۡوَتُهُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِؕ،
اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پائیں ‘ یہ (حکم) اس کے لیے ہے جو دودھ پلانے کی مدت کو پورا کرنا چاہیے اور جس کا بچہ ہے اس کے ذمہ دستور کے موافق ان (ماؤں) کا کھانا اور پہننا ہے۔ (تفسیر تبیان القرآن - البقرة،آیت 233)
امام مالک کے نزدیک ماں پر دودھ پلانا واجب ہے خواہ وہ منکوحہ ہو یا مطلقہ اور جمہور کے نزدی ماں پر اس وقت دودھ پلانا واجب ہے جب بچہ کسی اور عورت کا دودھ نہ پئے،(تفسیر تبیان القران تحت آیت233،البقرہ )
ماں خواہ مطلقہ ہو یا نہ ہو اس پر اپنے بچے کو دودھ پلانا واجب ہے بشرطیکہ باپ کو اجرت پر دودھ پلوانے کی قدرت نہ ہویا کوئی دودھ پلانے والی میسر نہ آئے یابچہ ماں کے سوا اور کسی کا دودھ قبول نہ کرے اگر یہ باتیں نہ ہوں یعنی بچہ کی پرورش خاص ماں کے دودھ پر موقوف نہ ہو تو ماں پر دودھ پلانا واجب نہیں مستحب ہے۔
(جمل، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۳۳، ۱ / ۲۸۳)
دودھ پلانے میں دو سال کی مدت کا پورا کرنا لازم نہیں۔ اگر بچہ کو ضرورت نہ رہے اور دودھ چھڑانے میں اس کے لیے خطرہ نہ ہو تو اس سے کم مدت میں بھی چھڑانا جائز ہے۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۳۳، ۱ / ۱۷۳)
بچہ کی پرورش اور اس کو دودھ پلوانا باپ کے ذمہ واجب ہے اس کے لیے وہ دودھ پلانے والی مقرر کرے لیکن اگر ماں اپنی رغبت سے بچہ کو دودھ پلائے تو مستحب ہے۔
بچے کے اخراجات باپ کے ذمہ ہوں گے نہ کہ ماں کے ذمہ۔
(تفسیر صراط الجنان تحت البقرہ )
والله ورسوله اعلم بالصواب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الامین
وعلیکم السلام و رحمت اللہ و برکاتہ
الجواب باسمہ تعالی عزوجل
مائوں پر اپنے بچوں کو دودھ پلانا واجب نہیں ہے عند الجمہور بلکہ اس کا ضامن والد ہے، اور اگر بیوی دودھ پلانے کی اجرت طلب کرے تو شوہر کو اجرت دینا ضروری ہے شوہر اپنے بچے کو بیوی سے دودھ پلوائے یا کسی دائی سے دونوں صورتوں میں دودھ پلانے کا خرچ شوہر کے ذمے ہے ۔
البتہ اگر بچہ اپنی ماں کے سوا کسی کا دودھ نہ پیتا ہو تو ماں پر اس وقت دودھ پلانا واجب ہے ۔اب اگر نہیں پلائے گی تو گنہگار ہوگی
الله سبحانه وتعالى فرما تا ہے
وَالۡوَالِدٰتُ يُرۡضِعۡنَ اَوۡلَادَهُنَّ حَوۡلَيۡنِ كَامِلَيۡنِ لِمَنۡ اَرَادَ اَنۡ يُّتِمَّ الرَّضَاعَةَ ،وَعَلَى الۡمَوۡلُوۡدِ لَهٗ رِزۡقُهُنَّ وَكِسۡوَتُهُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِؕ،
اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پائیں ‘ یہ (حکم) اس کے لیے ہے جو دودھ پلانے کی مدت کو پورا کرنا چاہیے اور جس کا بچہ ہے اس کے ذمہ دستور کے موافق ان (ماؤں) کا کھانا اور پہننا ہے۔ (تفسیر تبیان القرآن - البقرة،آیت 233)
امام مالک کے نزدیک ماں پر دودھ پلانا واجب ہے خواہ وہ منکوحہ ہو یا مطلقہ اور جمہور کے نزدی ماں پر اس وقت دودھ پلانا واجب ہے جب بچہ کسی اور عورت کا دودھ نہ پئے،(تفسیر تبیان القران تحت آیت233،البقرہ )
ماں خواہ مطلقہ ہو یا نہ ہو اس پر اپنے بچے کو دودھ پلانا واجب ہے بشرطیکہ باپ کو اجرت پر دودھ پلوانے کی قدرت نہ ہویا کوئی دودھ پلانے والی میسر نہ آئے یابچہ ماں کے سوا اور کسی کا دودھ قبول نہ کرے اگر یہ باتیں نہ ہوں یعنی بچہ کی پرورش خاص ماں کے دودھ پر موقوف نہ ہو تو ماں پر دودھ پلانا واجب نہیں مستحب ہے۔
(جمل، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۳۳، ۱ / ۲۸۳)
دودھ پلانے میں دو سال کی مدت کا پورا کرنا لازم نہیں۔ اگر بچہ کو ضرورت نہ رہے اور دودھ چھڑانے میں اس کے لیے خطرہ نہ ہو تو اس سے کم مدت میں بھی چھڑانا جائز ہے۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۳۳، ۱ / ۱۷۳)
بچہ کی پرورش اور اس کو دودھ پلوانا باپ کے ذمہ واجب ہے اس کے لیے وہ دودھ پلانے والی مقرر کرے لیکن اگر ماں اپنی رغبت سے بچہ کو دودھ پلائے تو مستحب ہے۔
بچے کے اخراجات باپ کے ذمہ ہوں گے نہ کہ ماں کے ذمہ۔
(تفسیر صراط الجنان تحت البقرہ )
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
5/1/2021