(سوال نمبر 6070)
حضرت ایمان ابو طالب؟
_________(❤️)_________
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس بارے میں کہ حضرت ابو طالب کے بارے دعوت اسلامی یعنی اعلی حضرت کا کیا فتویٰ ہے اور کثیر علماء کا کیا موقف ہے؟
سائلہ:- بنت عباس دارلسلام ٹوبہ ٹیک سنگھ ،،فقہی سؤال و جواب لاہور پاکستان
_________(❤️)_________
نحمده ونشكره و نصلي علي رسوله الأمين الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
اعلی حضرت رضی اللہ عنہ قور دعوت اسلامی اور جمہور علماء کے نزدیک حضرت ابو طالب کا ایمان ثابت نہیں ہے۔ پر جو لوگ اس مسئلہ میں شدت کرتے ہیں اور ابو طالب کی ابو لہب اور ابو جہل کی طرح مذمت کرتے ہیں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دل آزاری کے خطرہ میں ہیں
ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے اہل بیت کی دل آزاری سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں ہم اس بحث میں صرف اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ قرآن مجید اور احادیث صحیحہ سے ابو طالب کا ایمان ثابت نہیں ہے اور یہ چیز ہم پر بھی اتنی ہی گراں اور باعث رنج ہے جتنی اہل بیت کے لیے ہے۔ اس سے زیادہ ہم اس بحث میں نہ کچھ لکھنا چاہتے ہیں اور نہ اس مسئلہ کی باریکیوں میں الجھنا چاہتے ہیں۔ بعض علماء اہل سنت نے ابو طالب کے ایمان کو ثابت کیا ہے۔ ہرچند کہ یہ رائے تحقیق اور جمہور کے موقف کے خلاف ہے لیکن ان کی نیت محبت اہل بیت ہے اس لیے ان پر طعن نہیں کرنا چاہیے
ایمان ابوطالب کی تحقیق:-
اللہ تعالی کا فرمان ہے
ہر وہ شخص جس کو آپ چاہیں آپ اس میں ہدایت جاری نہیں کرسکتے۔ البتہ اللہ تعالیٰ جس کے حق میں چاہتا ہے ہدایت پیدا فرما دیتا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں سے بخوبی واقف ہے۔
کفار لوگوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے اور آپ کی اتباع کرنے سے روکتے ہیں اور آپ سے دور بھاگتے ہیں یا وہ لوگوں کو قرآن مجید کے سننے اور اس کو ماننے سے روکتے ہیں اور اس سے دور بھاگتے ہیں اور وہ اس طرز عمل سے صرف اپنے آپ کو ہلاک کر رہے ہیں۔ یہ تفسیر
(1) حضرت ابن عباس اور قتادہ سے مروی ہے۔
اور اس آیت کی دوسری تفسیر یہ ہے کہ یہ آیت ابو طالب کے متعلق نازل ہوئی ہے۔ ابو طالب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایذاء پہنچانے سے لوگوں کو منع کرتے تھے اور خود آپ کی نبوت پر ایمان لانے اور آپ کی تصدیق کرنے سے دور رہتے تھے یہ تفسیر بھی حضرت ابن عباس سے منقول ہے اور ان کے علاوہ قاسم بن مخیمرہ اور عطا بن دینار سے بھی ماثور ہے۔ (جامع البیان ‘ جز ٧ ص ٢٢٩۔ ٢٢٧‘ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت ١٤١٥ ھ)
(2) امام ابو الحسن علی بن احمد الواحدی المتوفی ٤٦٨ ھ لکھتے ہیں۔ حضرت ابن عباس بیان فرماتے ہیں کہ یہ آیت ابو طالب کے متعلق نازل ہوئی ہے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایذا پہنچانے سے مشرکین کو منع کرتے تھے اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لائے ہوئے دین سے دور رہتے تھے۔ یہ عطا بن دینار اور قاسم بن مخیمرہ کا قول ہے اور مقاتل نے کہا کہ ابو طالب کے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما تھے ‘ آپ نے اس کو اسلام کی دعوت دی تو قریش ابو طالب کے پاس جمع ہوگئے اور یہ مطالبہ کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کے حوالے کردیا جائے۔ اس کے جواب میں ابو طالب نے چند اشعار پڑھے ‘ جن کا خلاصہ یہ تھا کہ جب تک میں زندہ ہوں ایسا نہیں ہوسکتا۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی کہ یہ لوگوں سے آپ کا دفاع کرتے ہیں اور خود آپ کی تصدیق سے دور رہتے ہیں۔ (اسباب النزول ‘ ص ٢١٨‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت)
ان روایات کے مطابق ابو طالب کا ایمان اور اسلام ثابت نہیں ہے اور حسب ذیل احادیث اس کی موید ہیں۔
ابو طالب کے ایمان نہ لانے کے متعلق احادیث :
(3) امام مسلم بن حجاج قشیری ٢٦١ ھ روایت کرتے ہیں :
سعید بن مسیب کے والد بیان کرتے ہیں جب ابو طالب کا وقت قریب آپہنچا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے پاس تشریف لے گئے۔ اس وقت ابو طالب کے پاس ابو جہل اور عبداللہ بن ابی امیہ بھی موجود تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے چچا ایک بار ” لا الہ الا اللہ “ کہو تو میں تمہارے حق میں اسلام کی گواہی دوں گا۔ ابو جہل اور عبداللہ بن ابی امیہ کہنے لگے ‘ اے ابو طالب ‘ کیا تم اپنے باپ عبدالمطلب کی ملت کو چھوڑ رہے ہو ‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلسل ابو طالب کو کلمہ پڑھنے کی تلقین کرتے رہے۔ بہرحال ابو طالب نے جو آخری الفاظ کہے ‘ وہ یہ تھے میں اپنے باپ عبدالمطلب کی ملت پر ہوں اور ” لا الہ الا اللہ “ کہنے سے انکار کردیا ‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بخدا میں اس وقت تک تمہارے لیے مغفرت کی دعا کرتا رہوں گا جب تک اللہ تعالیٰ اس سے روک نہ دے ‘ اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (ترجمہ) نبی اور مسلمانوں کے لیے مشرکین کی مغفرت کی دعا کرنا جائز نہیں۔ خواہ وہ ان کے رشتہ دار کیوں نہ ہوں جبکہ ان کا جہنمی ہونا معلوم ہوچکا ہو (التوبہ : ١١٣) اور ابو طالب کے بارے میں یہ آیت بھی نازل فرمائی (ترجمہ) ہر وہ شخص جس کو آپ چاہیں آپ اس میں ہدایت جاری نہیں کرسکتے۔ البتہ اللہ تعالیٰ جس کے حق میں چاہتا ہے ہدایت پیدا فرما دیتا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں سے بخوبی واقف ہے۔ (القصص : ٥٦) (صحیح مسلم ‘ الایمان ‘ ٣٩‘ (٢٤) ١٣١‘ صحیح البخاری ‘ ج ٣‘ رقم الحدیث :‘ ٣٦٧٥‘ سنن النسائی ‘ ج ٤‘ رقم الحدیث :‘ ٢٠٣٥‘ سنن کبری ‘ للنسائی ‘ رقم الحدیث :‘ ١١٣٨٣)
حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چچا سے فرمایا ” لا الہ الا اللہ “ پڑھیں۔ میں قیامت کے دن آپ کے حق میں اس کی گواہی دوں گا۔ ابو طالب نے کہا اگر مجھے قریش کے عار دلانے کا خوف نہ ہوتا ‘ کہ وہ کہیں گے کہ یہ بےصبری کی وجہ سے مسلمان ہوگیا تو میں کلمہ پڑھ کر تمہاری آنکھ ٹھنڈی کردیتا ‘ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی بیشک آپ جس کو چاہیں ہدایت یافتہ نہیں کرسکتے ‘ لیکن اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے ‘ ہدایت یافتہ کرتا ہے (القصص : ٥٦) (صحیح مسلم الایمان ‘ ٤٢ (٢٥) ١٣٤‘ صحیح البخاری ‘ ج ٤‘ رقم الحدیث :‘ ٤٧٧٢‘ سنن ترمذی ‘ ج ٥‘ رقم الحدیث :‘ ٣١٩٩‘ مسند احمد ‘ ج ٣‘ رقم الحدیث :‘ ٩٦١٦‘ صحیح ابن حبان ‘ رقم الحدیث :‘ ٦٢٧٠‘ دلائل النبوۃ للبیہقی ‘ ج ٢‘ ص ٣٤٥۔ ٣٤٤)
حضرت عباس بن عبدالمطلب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا : آپ نے اپنے چچا سے کس عذاب کو دور کیا ؟ وہ آپ کی طرف سے مدافعت کرتے تھے ‘ آپ کی خاطر غضبناک ہوتے تھے۔ آپ نے فرمایا وہ ٹخنوں تک آگ میں ہے اور اگر میں نہ ہوتا تو وہ آگ کے آخری طبقہ میں ہوتا۔ (صحیح البخاری ‘ ج ٣‘ رقم الحدیث :‘ ٣٨٨٣‘ صحیح مسلم ‘ الایمان ‘ ٣٥٧‘ (٢٠٩) ٥٠٠)
حضرت ابو سعید خدری بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے سنا ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ابو طالب کا ذکر کیا گیا۔ آپ نے فرمایا قیامت کے دن میری شفاعت سے اس کو نفع پہنچے گا اس کو تھوڑی سی آگ میں ڈالا جائے گا جو اس کے ٹخنوں تک پہنچے گی ‘ جس سے اس کا دماغ کھول رہا ہوگا۔ (صحیح البخاری ‘ ج ٣‘ رقم الحدیث :‘ ٣٨٨٥‘ صحیح مسلم ‘ الایمان ‘ ٣٦٠‘ (٢١٠) ٥٠٢)
حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا سب سے کم دوزخ کا عذاب ابو طالب کو ہوگا ‘ اس کو آگ کی دو جوتیاں پہنائی جائیں گی جن سے اس کا دماغ کھول رہا ہوگا۔ (صحیح مسلم ‘ الایمان ‘ ٣٦٢‘ (٢١٤) ٥٠٤‘ صحیح البخاری ‘ ج ٦‘ رقم الحدیث :‘ ٦٥٦١‘ سنن ترمذی ‘ ج ٤‘ رقم الحدیث :‘ ٢٦١٣‘ مسند احمد ‘ ج ٦‘ رقم الحدیث :‘ ١٨٤١٨‘ صحیح ابن حبان ‘ ج ١٦‘ رقم الحدیث :‘ ٧٤٧٢)
حضرت نعمان بن بشیر بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا کہ قیامت کے دن دوزخ میں سب سے کم عذاب والا وہ شخص ہوگا جس کے پیروں کے تلووں میں دو انگارے ہوں گے ‘ جس سے اس کا دماغ اس طرح کھول رہا ہوگا جس طرح پیتل کی دیگچی میں پانی کھولتا ہے۔ (صحیح مسلم ‘ الایمان ‘ ٣٦٣ ‘(٢١٣) ٥٠٥‘ صحیح البخاری ‘ ج ٦‘ رقم الحدیث :‘ ٦٥٦١)
امام احمد بن شعیب نسائی متوفی ٣٠٣ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت علی بیان کرتے ہیں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا آپ کا بوڑھا گمراہ چچا فوت ہوگیا ‘ اس کو زمین میں کون دفن کرے گا ؟ آپ نے فرمایا جاؤ اپنے باپ کو زمین میں دفن کردو۔ (سنن النسائی ‘ ج ٤‘ رقم الحدیث : ٢٠٠٥)
امام احمد بن حنبل ٢٤١ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت علی بیان کرتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ ابو طالب فوت ہوگیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جا کر اس کو دفن کردو۔ میں نے عرض کیا وہ مشرک ہونے کی حالت میں فوت ہوا ہے۔ آپ نے فرمایا جا کر اس کو دفن کردو۔ جب میں دفن کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس واپس آیا تو آپ نے فرمایا غسل کرلو۔ (مسند احمد ‘ ج ١‘ ص ١٣١‘ ١٣٠‘ ٩٧‘ طبع قدیم ‘ دلائل النبوۃ للبیہقی ‘ ج ٢‘ ص ٣٤٨)
امام ابوبکرعبداللہ بن محمد بن ابی شیبہ متوفی ٢٣٥‘ ھ روایت کرتے ہیں :
شعبی بیان کرتے ہیں کہ جب ابو طالب فوت ہوا تو حضرت علی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جا کر کہا آپ کا بوڑھا چچا جو کافر تھا ‘ وہ فوت ہوگیا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ‘ ج ٣‘ ص ٣٤٨‘ مطبوعہ کراچی ‘ ١٤٠٦)
امام ابوبکراحمد بن حسین بیہقی متوفی ٤٥٨‘ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت ابن عباس نے کہا قرآن مجید کی آیت اور وہ لوگوں کو (انہیں ایذاء پہنچانے سے) منع کرتے ہیں اور خود ان سے دور رہتے ہیں (الانعام : ٢٦) ابو طالب کے متعلق نازل ہوئی تھی۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایذاء پہنچانے سے مشرکین کو منع کرتا تھا اور آپ کے لائے ہوئے دین سے دور رہتا تھا۔ (دلائل النبوۃ ‘ ج ٢‘ ص ٣٤١‘ مطبوعہ بیروت)
ابو طالب کے ایمان نہ لانے کے متعلق مفسرین کے مذاہب کی تصریحات :
التوبہ : ١١٣ کی تفسیر میں علامہ سید محمود آلوسی حنفی متوفی ١٢٧٠ ھ لکھتے ہیں :
صحیح یہ ہے کہ یہ آیت ابو طالب کے متعلق نازل ہوئی ہے۔ کیونکہ امام احمد ‘ امام ابن ابی شیبہ ‘ امام بخاری ‘ امام مسلم ‘ امام نسائی ‘ امام ابن جریر ‘ امام ابن منذر ‘ اور امام بیہیقی نے مسیب بن حزن سے روایت کیا ہے کہ جب ابو طالب کی وفات کا وقت آیا تو نبی کریم اس کے پاس تشریف لے گئے اس وقت اس کے پاس ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ بیٹھے ہوئے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا اے چچا ” لا الہ الا اللہ کہو میں اللہ کے نزدیک اس کلمہ سے حجت پکڑوں گا ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ نے کہا اے ابو طالب ! کیا تم عبدالمطلب کی ملت سے اعراض کر رہے ہو ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس پر ” لا الہ الا اللہ پیش کرتے رہے اور ابو جہل اور عبداللہ بن ابی امیہ نے کہا اے ابو طالب ! کیا تم عبدالمطلب کی ملت سے اعراض کر رہے ہو ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس پر ” لا الہ الا اللہ “ پیش کرتے رہے اور ابو جہل اور عبداللہ اس کو اس کلمہ کے خلاف بھڑکاتے رہے ‘ آخر میں ابو طالب نے کہا وہ عبدا المطلب کی ملت پر ہے اور ” لا الہ الا اللہ “ کہنے سے انکار کردیا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں تمہارے لیے اس وقت تک مغفرت کی دعا کرتا رہوں گا ‘ جب تک مجھے اس سے منع نہ کیا جائے۔ اس لیے یہ آیت نازل ہوئی۔
حسین بن فضل نے یہ کہا ہے کہ ابو طالب کی موت ہجرت سے تین سال پہلے ہوئی ہے ‘ اور یہ سورت مدینہ میں آخر میں نازل ہوئی ہے۔ اس لیے اس حدیث کو اس آیت کا شان نزول قرار دینا مستبعد ہے۔ علامہ واحدی نے کہا یہ استبعاد خود مستبعد ہے۔ یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابو طالب کی موت کے بعد اس کے لیے مسلسل استغفار کرتے رہے ہوں۔ حتی کہ مدینہ منورہ میں یہ آیت نازل ہوئی ‘ کیونکہ کفار کے ساتھ سختی کرنے کی آیات مدینہ منورہ میں ہی نازل ہوئی ہیں۔ اس تاویل کی بناء پر حدیث کا معنی یہ ہوگا ‘ اس لیے اللہ نے یہ آیت نازل کی ‘ یہ معنی نہیں ہوگا اس کے بعد یہ آیت نازل کی اور ” فانزل ‘ میں ” فاسببیت “ کے لیے ہوگی ‘ نہ کہ تعقیب کے لیے۔ اکثر علماء نے اس توجیہ کو پسند کیا ہے اور یہ ہے بھی عمدہ توجیہ۔ لیکن اس پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ امام ابن سعد اور امام ابن عساکر نے حضرت علی سے روایت کیا ہے کہ ابو طالب کی موت کے بعد کئی دن تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے لیے استغفار کرتے رہے ‘ حتی کہ جبرائیل اس آیت کو لے کر نازل ہوئے۔ اس کا جواب یہ ہے یہ کہ حدیث ضعیف ہے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ ہوسکتا ہے کہ سورة توبہ کی یہ آیت مکہ میں پہلے نازل ہوئی ہو اور باقی آیات بعد میں مدینہ میں نازل ہوئی ہوں اور اس سورت کو بااعتبار غالب کے مدنی کہا جاتا ہو۔ بہرحال ‘ یہ آیت اس پر دلیل ہے کہ ابو طالب کفر پر مرا اور یہی اہل سنت و جماعت کا معروف مذہب ہے۔
امام ابن اسحاق نے اپنی سیرت میں حضرت ابن عباس سے ایک طویل حدیث روایت کی ہے جس میں یہ ہے کہ ابو طالب کے مرض الموت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے کہا کہ اے چچا ! آپ ” لا الہ الا اللہ “ کہیں تاکہ قیامت کے دن آپ کے لیے میری شفاعت جائز ہو ‘ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بہ اصرار ترغیب دی۔ ابو طالب نے کہا بہ خدا ! اے بھتیجے ! اگر مجھے یہ خدشہ نہ ہوتا کہ میرے بعد قریش تم پر اور تمہارے باپ کی اولاد پر ملامت کریں گے اور قریش یہ کہیں گے کہ اس نے موت کے ڈر سے کلمہ پڑھ لیا تو میں یہ کلمہ پڑھ لیتا اور میں صرف تمہاری خوشی کے لیے یہ کلمہ پڑھتا۔ جب ابو طالب پر موت کا وقت قریب آیا تو حضرت عباس نے اس کی طرف دیکھا تو اس کے ہونٹ ہل رہے تھے ‘ انہوں نے کان لگا کر سنا اور حضور سے کہا اے بھتیجے ! تم نے اسے جس کلمہ کو پڑھنے کے لیے کہا تھا ‘ اس نے وہ کلمہ پڑھ لیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں نے نہیں سنا۔ (البدایہ والنہایہ ‘ ج ٣‘ ص ١٢٣) اس روایت سے ابو طالب کے جو اشعار حضور کی مدح میں مشہور ہیں ‘ ان سے علماء نے یہ استدلال کیا ہے ‘ کہ ابو طالب مومن تھا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ان اشعار کی سند منقطع ہے ‘ علاوہ ازیں ان اشعار میں ابو طالب کے ایمان لانے کی تصریح نہیں ہے۔ رہی یہ روایت تو یہ شیعہ کی روایت ہے اس سے استدلال صحیح نہیں ہے ‘ علاوہ ازیں اس روایت میں بھی یہ ہے کہ آپ نے فرمایا : ” میں نے نہیں سنا “۔
امام بیہقی نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ اس کی سند منقطع ہے ‘ اور حضرت عباس جو اس حدیث کے راوی ہیں ‘ اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے اور مسلمان ہونے کے بعد انہوں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ابو طالب کی عاقبت کے متعلق سوال کیا کہ آپ نے ابو طالب کو کیا نفع پہنچایا ؟ وہ آپ کی مدافعت کرتا تھا۔ آپ نے فرمایا ہاں وہ ٹخنوں تک آگ میں ہے اور اگر میں ہوتا تو وہ دوزخ کے آخری طبقہ میں ہوتا۔ اس حدیث کو امام بخاری اور امام مسلم نے روایت کیا ہے اور وہ ضعیف روایت اس صحیح حدیث سے تصادم کی قوت نہیں رکھتی۔ (دلائل النبوۃ ‘ ج ٢‘ ص ٣٤٦)
باقی ابو طالب نے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدد اور نصرت کی تو وہ دین اسلام کی محبت میں نہیں کی ‘ بلکہ نسب اور قرابت کی وجہ سے کی ‘ اور اعتبار دینی محبت کا ہے ‘ نسبی محبت کا نہیں ہے۔ علاوہ ازیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شدید اصرار کے بعد بھی ابو طالب نے ایمان نہ لا کر آپ کو سخت اذیت بھی تو پہنچائی ہے ‘ تاہم ابو طالب کے کفر کے باوجود اس کی اس طرح مذمت نہ کی جائے جس طرح ابو جہل اور دیگر کفار کی مذمت کی جاتی ہے۔ (روح المعانی ‘ جز ١١‘ ص ٣٣۔ ٣٢‘ مطبوعہ بیروت)
امام رازی شافعی نے بھی اس آیت کی تفسیر میں یہی لکھا ہے کہ یہ آیت ابو طالب کے لیے استغفار کی ممانعت میں نازل ہوئی ہے ‘ کیونکہ وہ مشرک تھا۔ (تفسیر کبیر ‘ ج ٤‘ ص ٥١١‘ طبع قدیم ‘ دارالفکر ‘ بیروت)
حافظ ابن کثیر شافعی نے اس آیت کی تفسیر میں احادیث کے حوالے سے ابو طالب کے ایمان نہ لانے کو بیان کیا ہے۔ (تفسیر ابن کثیر ‘ ج ٣‘ ص ٤٦٠‘ مطبوعہ ادارہ اندلس ‘ بیروت)
علامہ قرطبی مالکی نے بھی تفسیر میں یہی لکھا ہے۔ (الجامع لاحکام القرآن ‘ جز ٦‘ ص ٣١٦۔ ٣١٥)
علامہ عبدالرحمن بن علی بن محمد الجوزی الحنبلی المتوفی ٥٩٧ ھ کی بھی یہی تحقیق ہے۔ (زادالمیسر ج ٣ ص ‘ ٥٠٧۔ ٢١۔ ٢٠ مطبوعہ مکتب اسلامی ‘ بیروت ‘ ١٤٠٧ ھ)
علامہ سید محمود آلوسی حنفی متوفی ١٢٧٠ ھ لکھتے ہیں :
امام عبد بن حمید ‘ امام مسلم ‘ امام ترمذی ‘ امام ابن ابی حاتم ‘ امام ابن مردویہ اور امام بیہقی نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کیا ہے کہ جب ابو طالب پر موت آنے لگی تو اسکے پاس نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے گئے اور فرمایا اے چچا ! ” لا الہ الا اللہ “ کہئے ‘ میں قیامت کے دن اللہ کے سامنے آپ کے حق میں گواہی دوں گا۔ ابوطالب نے کہا اگر مجھے قریش کی ملامت کا خدشہ نہ ہوتا ‘ کہ وہ کہیں گے کہ اس نے موت کے ڈر سے کلمہ پڑھا ہے تو میں تمہاری آنکھیں ٹھنڈی کردیتا۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی :
(آیت) ” انک لا تھدی من احببت ولکن اللہ یھدی من یشآء “۔ (القصص : ٥٦)
ترجمہ : بیشک آپ جسے چاہیں اس کو ہدایت یافتہ نہیں کرسکتے لیکن اللہ جسے چاہے اس کو ہدایت یافتہ کرتا ہے۔
امام بخاری ‘ امام مسلم ‘ امام احمد ‘ امام نسائی اور دیگر ائمہ حدیث نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت ابو طالب کے متعلق نازل ہوئی ہے ‘ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابو طالب سے اسلام لانے کے لیے شدید اصرار کیا۔ امام ابن مردویہ نے بھی اس روایت کو حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے۔ علامہ نووی شافعی نے لکھا ہے کہ تمام مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کہ یہ آیت ابو طالب کے متعلق نازل ہوئی ہے۔ (شرح مسلم ‘ ج ١‘ ص ٤١)
ابو طالب کے اسلام کا مسئلہ مختلف فیہ ہے اور یہ کہنا کہ تمام مسلمانوں کا ‘ یا تمام مفسرین کا اس پر اجماع ہے کہ یہ آیت ابو طالب کے متعلق نازل ہوئی ہے ‘ صحیح نہیں ہے کیونکہ علماء شیعہ اور ان کے اکثر مفسرین کا یہ نظریہ ہے کہ ابو طالب اسلام لے آئے تھے اور ان کا دعوی ہے کہ ائمہ اہل بیت کا بھی اس پر اجماع ہے اور ابو طالب کے اکثر قصائد اس پر شاہد ہیں اور جن کا یہ دعوی ہے کہ تمام مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کہ یہ آیت ابو طالب کے متعلق نازل ہوئی ہے ‘ وہ علماء شیعہ کے اختلاف اور ان کے روایات کا اعتبار نہیں کرتے۔ تاہم ابو طالب کے اسلام نہ لانے کے قول کے باوجود ابو طالب کو برا نہیں کہنا چاہیے اور نہ اس کے حق میں یا وہ گوئی کرنی چاہیے ‘ کیونکہ اس سے علویوں کو ایذاء پہنچتی ہے اور یہ بعید نہیں ہے کہ اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی ایذا پہنچے۔ (روح المعانی ‘ جز ٢٠‘ ص ٩٧۔ ٩٦‘ مطبوعہ بیروت)
ابو طالب کے ایمان کے متعلق مصنف کا نظریہ
مذاہب اربعہ کے معروف علماء ‘ فقہاء ‘ مفسرین اور جمہور اہل سنت کا یہ موقف ہے کہ ابو طالب کا ایمان ثابت نہیں ہے۔ ہم نے عمدا ان تمام تصریحات کا ذکر نہیں کیا ‘ کیونکہ ہمارے لیے یہ کوئی خوشگوار موضوع نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بڑی خواہش تھی کہ ابو طالب ایمان لے آئے۔ لیکن تقدیر کا لکھا پورا ہو کر رہا۔ یہ بہت نازک مقام ہے جو لوگ اس مسئلہ میں شدت کرتے ہیں اور ابو طالب کی ابو لہب اور ابو جہل کی طرح مذمت کرتے ہیں ‘ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دل آزاری کے خطرہ میں ہیں۔
ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے اہل بیت کی دل آزاری سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں ‘ ہم اس بحث میں صرف اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ قرآن مجید اور احادیث صحیحہ سے ابو طالب کا ایمان ثابت نہیں ہے اور یہ چیز ہم پر بھی اتنی ہی گراں اور باعث رنج ہے جتنی اہل بیت کے لیے ہے۔ اس سے زیادہ ہم اس بحث میں نہ کچھ لکھنا چاہتے ہیں اور نہ اس مسئلہ کی باریکیوں میں الجھنا چاہتے ہیں۔ بعض علماء اہل سنت نے ابو طالب کے ایمان کو ثابت کیا ہے۔ ہرچند کہ یہ رائے تحقیق اور جمہور کے موقف کے خلاف ہے ‘ لیکن ان کی نیت محبت اہل بیت ہے ‘ اس لیے ان پر طعن نہیں کرنا چاہیے۔(تفسیر تبیان القران سورہ انعام 26)
اعلیٰ حضرت، مُجَدِّدِ دین و ملت شاہ امام احمد رضاخان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن ابو طالب کے ایمان سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:
اس میں شک نہیں کہ ابو طالب تمام عمر حضور سیّد المرسَلین، سیّد الاَوّلین والآخِرین، سیّد الاَبرار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَعَلٰی اٰلِہٖ وَسَلَّمَ اِلٰی یَوْمِ الْقرار کی حفظ و حمایت و کفالت و نصرت میں مصروف رہے۔ اپنی اولاد سے زیادہ حضور کو عزیز رکھا اور اس وقت میں ساتھ دیا کہ ایک عالَم حضور کا دشمن ِجاں ہوگیا تھا اور حضور کی محبت میں اپنے تمام عزیزوں قریبیوں سے مخالفت گوارا کی، سب کو چھوڑ دینا قبول کیا، کوئی دقیقہ غمگساری و جاں نثاری کا نامَرعی نہ رکھا (یعنی ہر لمحے غمگساری اور جاں نثاری کی) اور یقیناً جانتے تھے کہ حضور افضل المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اللہ کے سچے رسول ہیں، ان پر ایمان لانے میں جنت اَبدی اور تکذیب میں جہنم دائمی ہے، بنو ہاشم کو مرتے وقت وصیت کی کہ محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی تصدیق کرو فلاح پاؤ گے، نعت شریف میں قصائدان سے منقول، اور اُن میں براہِ فراست وہ اُمور ذکر کیے کہ اس وقت تک واقع نہ ہوئے تھے (بلکہ) بعد ِ بعثت شریف ان کا ظہور ہوا، یہ سب احوال مطالعۂ اَحادیث و مُراجعت ِکتب ِسِیَر (یعنی سیرت کی کتابوں کی طرف رجوع کرنے ) سے ظاہر۔مگر مُجَرَّداِن اُمور سے ایمان ثابت نہیں ہوتا۔ کاش یہ افعال و اقوال اُن سے حالت ِاسلام میں صادر ہوتے تو سیدنا عباس بلکہ ظاہراً سیدنا حمزہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے بھی افضل قرار پاتے اور افضل الاَعمام حضور افضل الاَنام عَلَیْہِ وَعَلٰی اٰلِہٖ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِ وَالسَّلَام (یعنی تمام انسانوں سے افضل حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم کے سب سے افضل چچا) کہلائے جاتے۔ تقدیر ِالہٰی نے بربنا اُس حکمت کے جسے وہ جانے یا اُس کا رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، انہیں گروہِ مسلمین و غلامانِ شفیع المذنبین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ میں شمار کیا جانا منظور نہ فرمایا۔
فَاعْتَبِرُوْا یٰۤاُولِی الْاَبْصَارِ۔ (تو اے عقل رکھنے والو! ان کے حال سے عبرت حاصل کرو) صرف معرفت گو کیسی ہی کمال کے ساتھ ہو ایمان نہیں۔
(فتاویٰ رضویہ، رسالہ: شرح المطالب فی مبحث ابی طالب، ۲۹ / ۶۶۱)
مزید فرماتے ہیں آیاتِ قرآنیہ و اَحادیثِ صحیحہ، مُتوافرہ ، مُتظافرہ (یعنی بکثرت صحیح احادیث) سے ابو طالب کا کفر پر مرنا اور دمِ واپسیں ایمان لانے سے انکار کرنا اور عاقبت کار اصحابِ نار سے ہونا ایسے روشن ثبوت سے ثابت جس سے کسی سنی کو مجالِ دم زدن نہیں۔ (فتاویٰ رضویہ،رسالہ: شرح المطالب فی مبحث ابی طالب، ۲۹ / ۶۵۷-۶۵۸)
والله ورسوله أعلم بالصواب
حضرت ایمان ابو طالب؟
_________(❤️)_________
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس بارے میں کہ حضرت ابو طالب کے بارے دعوت اسلامی یعنی اعلی حضرت کا کیا فتویٰ ہے اور کثیر علماء کا کیا موقف ہے؟
سائلہ:- بنت عباس دارلسلام ٹوبہ ٹیک سنگھ ،،فقہی سؤال و جواب لاہور پاکستان
_________(❤️)_________
نحمده ونشكره و نصلي علي رسوله الأمين الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
اعلی حضرت رضی اللہ عنہ قور دعوت اسلامی اور جمہور علماء کے نزدیک حضرت ابو طالب کا ایمان ثابت نہیں ہے۔ پر جو لوگ اس مسئلہ میں شدت کرتے ہیں اور ابو طالب کی ابو لہب اور ابو جہل کی طرح مذمت کرتے ہیں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دل آزاری کے خطرہ میں ہیں
ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے اہل بیت کی دل آزاری سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں ہم اس بحث میں صرف اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ قرآن مجید اور احادیث صحیحہ سے ابو طالب کا ایمان ثابت نہیں ہے اور یہ چیز ہم پر بھی اتنی ہی گراں اور باعث رنج ہے جتنی اہل بیت کے لیے ہے۔ اس سے زیادہ ہم اس بحث میں نہ کچھ لکھنا چاہتے ہیں اور نہ اس مسئلہ کی باریکیوں میں الجھنا چاہتے ہیں۔ بعض علماء اہل سنت نے ابو طالب کے ایمان کو ثابت کیا ہے۔ ہرچند کہ یہ رائے تحقیق اور جمہور کے موقف کے خلاف ہے لیکن ان کی نیت محبت اہل بیت ہے اس لیے ان پر طعن نہیں کرنا چاہیے
ایمان ابوطالب کی تحقیق:-
اللہ تعالی کا فرمان ہے
ہر وہ شخص جس کو آپ چاہیں آپ اس میں ہدایت جاری نہیں کرسکتے۔ البتہ اللہ تعالیٰ جس کے حق میں چاہتا ہے ہدایت پیدا فرما دیتا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں سے بخوبی واقف ہے۔
کفار لوگوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے اور آپ کی اتباع کرنے سے روکتے ہیں اور آپ سے دور بھاگتے ہیں یا وہ لوگوں کو قرآن مجید کے سننے اور اس کو ماننے سے روکتے ہیں اور اس سے دور بھاگتے ہیں اور وہ اس طرز عمل سے صرف اپنے آپ کو ہلاک کر رہے ہیں۔ یہ تفسیر
(1) حضرت ابن عباس اور قتادہ سے مروی ہے۔
اور اس آیت کی دوسری تفسیر یہ ہے کہ یہ آیت ابو طالب کے متعلق نازل ہوئی ہے۔ ابو طالب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایذاء پہنچانے سے لوگوں کو منع کرتے تھے اور خود آپ کی نبوت پر ایمان لانے اور آپ کی تصدیق کرنے سے دور رہتے تھے یہ تفسیر بھی حضرت ابن عباس سے منقول ہے اور ان کے علاوہ قاسم بن مخیمرہ اور عطا بن دینار سے بھی ماثور ہے۔ (جامع البیان ‘ جز ٧ ص ٢٢٩۔ ٢٢٧‘ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت ١٤١٥ ھ)
(2) امام ابو الحسن علی بن احمد الواحدی المتوفی ٤٦٨ ھ لکھتے ہیں۔ حضرت ابن عباس بیان فرماتے ہیں کہ یہ آیت ابو طالب کے متعلق نازل ہوئی ہے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایذا پہنچانے سے مشرکین کو منع کرتے تھے اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لائے ہوئے دین سے دور رہتے تھے۔ یہ عطا بن دینار اور قاسم بن مخیمرہ کا قول ہے اور مقاتل نے کہا کہ ابو طالب کے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما تھے ‘ آپ نے اس کو اسلام کی دعوت دی تو قریش ابو طالب کے پاس جمع ہوگئے اور یہ مطالبہ کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کے حوالے کردیا جائے۔ اس کے جواب میں ابو طالب نے چند اشعار پڑھے ‘ جن کا خلاصہ یہ تھا کہ جب تک میں زندہ ہوں ایسا نہیں ہوسکتا۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی کہ یہ لوگوں سے آپ کا دفاع کرتے ہیں اور خود آپ کی تصدیق سے دور رہتے ہیں۔ (اسباب النزول ‘ ص ٢١٨‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت)
ان روایات کے مطابق ابو طالب کا ایمان اور اسلام ثابت نہیں ہے اور حسب ذیل احادیث اس کی موید ہیں۔
ابو طالب کے ایمان نہ لانے کے متعلق احادیث :
(3) امام مسلم بن حجاج قشیری ٢٦١ ھ روایت کرتے ہیں :
سعید بن مسیب کے والد بیان کرتے ہیں جب ابو طالب کا وقت قریب آپہنچا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے پاس تشریف لے گئے۔ اس وقت ابو طالب کے پاس ابو جہل اور عبداللہ بن ابی امیہ بھی موجود تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے چچا ایک بار ” لا الہ الا اللہ “ کہو تو میں تمہارے حق میں اسلام کی گواہی دوں گا۔ ابو جہل اور عبداللہ بن ابی امیہ کہنے لگے ‘ اے ابو طالب ‘ کیا تم اپنے باپ عبدالمطلب کی ملت کو چھوڑ رہے ہو ‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلسل ابو طالب کو کلمہ پڑھنے کی تلقین کرتے رہے۔ بہرحال ابو طالب نے جو آخری الفاظ کہے ‘ وہ یہ تھے میں اپنے باپ عبدالمطلب کی ملت پر ہوں اور ” لا الہ الا اللہ “ کہنے سے انکار کردیا ‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بخدا میں اس وقت تک تمہارے لیے مغفرت کی دعا کرتا رہوں گا جب تک اللہ تعالیٰ اس سے روک نہ دے ‘ اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (ترجمہ) نبی اور مسلمانوں کے لیے مشرکین کی مغفرت کی دعا کرنا جائز نہیں۔ خواہ وہ ان کے رشتہ دار کیوں نہ ہوں جبکہ ان کا جہنمی ہونا معلوم ہوچکا ہو (التوبہ : ١١٣) اور ابو طالب کے بارے میں یہ آیت بھی نازل فرمائی (ترجمہ) ہر وہ شخص جس کو آپ چاہیں آپ اس میں ہدایت جاری نہیں کرسکتے۔ البتہ اللہ تعالیٰ جس کے حق میں چاہتا ہے ہدایت پیدا فرما دیتا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں سے بخوبی واقف ہے۔ (القصص : ٥٦) (صحیح مسلم ‘ الایمان ‘ ٣٩‘ (٢٤) ١٣١‘ صحیح البخاری ‘ ج ٣‘ رقم الحدیث :‘ ٣٦٧٥‘ سنن النسائی ‘ ج ٤‘ رقم الحدیث :‘ ٢٠٣٥‘ سنن کبری ‘ للنسائی ‘ رقم الحدیث :‘ ١١٣٨٣)
حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چچا سے فرمایا ” لا الہ الا اللہ “ پڑھیں۔ میں قیامت کے دن آپ کے حق میں اس کی گواہی دوں گا۔ ابو طالب نے کہا اگر مجھے قریش کے عار دلانے کا خوف نہ ہوتا ‘ کہ وہ کہیں گے کہ یہ بےصبری کی وجہ سے مسلمان ہوگیا تو میں کلمہ پڑھ کر تمہاری آنکھ ٹھنڈی کردیتا ‘ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی بیشک آپ جس کو چاہیں ہدایت یافتہ نہیں کرسکتے ‘ لیکن اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے ‘ ہدایت یافتہ کرتا ہے (القصص : ٥٦) (صحیح مسلم الایمان ‘ ٤٢ (٢٥) ١٣٤‘ صحیح البخاری ‘ ج ٤‘ رقم الحدیث :‘ ٤٧٧٢‘ سنن ترمذی ‘ ج ٥‘ رقم الحدیث :‘ ٣١٩٩‘ مسند احمد ‘ ج ٣‘ رقم الحدیث :‘ ٩٦١٦‘ صحیح ابن حبان ‘ رقم الحدیث :‘ ٦٢٧٠‘ دلائل النبوۃ للبیہقی ‘ ج ٢‘ ص ٣٤٥۔ ٣٤٤)
حضرت عباس بن عبدالمطلب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا : آپ نے اپنے چچا سے کس عذاب کو دور کیا ؟ وہ آپ کی طرف سے مدافعت کرتے تھے ‘ آپ کی خاطر غضبناک ہوتے تھے۔ آپ نے فرمایا وہ ٹخنوں تک آگ میں ہے اور اگر میں نہ ہوتا تو وہ آگ کے آخری طبقہ میں ہوتا۔ (صحیح البخاری ‘ ج ٣‘ رقم الحدیث :‘ ٣٨٨٣‘ صحیح مسلم ‘ الایمان ‘ ٣٥٧‘ (٢٠٩) ٥٠٠)
حضرت ابو سعید خدری بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے سنا ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ابو طالب کا ذکر کیا گیا۔ آپ نے فرمایا قیامت کے دن میری شفاعت سے اس کو نفع پہنچے گا اس کو تھوڑی سی آگ میں ڈالا جائے گا جو اس کے ٹخنوں تک پہنچے گی ‘ جس سے اس کا دماغ کھول رہا ہوگا۔ (صحیح البخاری ‘ ج ٣‘ رقم الحدیث :‘ ٣٨٨٥‘ صحیح مسلم ‘ الایمان ‘ ٣٦٠‘ (٢١٠) ٥٠٢)
حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا سب سے کم دوزخ کا عذاب ابو طالب کو ہوگا ‘ اس کو آگ کی دو جوتیاں پہنائی جائیں گی جن سے اس کا دماغ کھول رہا ہوگا۔ (صحیح مسلم ‘ الایمان ‘ ٣٦٢‘ (٢١٤) ٥٠٤‘ صحیح البخاری ‘ ج ٦‘ رقم الحدیث :‘ ٦٥٦١‘ سنن ترمذی ‘ ج ٤‘ رقم الحدیث :‘ ٢٦١٣‘ مسند احمد ‘ ج ٦‘ رقم الحدیث :‘ ١٨٤١٨‘ صحیح ابن حبان ‘ ج ١٦‘ رقم الحدیث :‘ ٧٤٧٢)
حضرت نعمان بن بشیر بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا کہ قیامت کے دن دوزخ میں سب سے کم عذاب والا وہ شخص ہوگا جس کے پیروں کے تلووں میں دو انگارے ہوں گے ‘ جس سے اس کا دماغ اس طرح کھول رہا ہوگا جس طرح پیتل کی دیگچی میں پانی کھولتا ہے۔ (صحیح مسلم ‘ الایمان ‘ ٣٦٣ ‘(٢١٣) ٥٠٥‘ صحیح البخاری ‘ ج ٦‘ رقم الحدیث :‘ ٦٥٦١)
امام احمد بن شعیب نسائی متوفی ٣٠٣ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت علی بیان کرتے ہیں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا آپ کا بوڑھا گمراہ چچا فوت ہوگیا ‘ اس کو زمین میں کون دفن کرے گا ؟ آپ نے فرمایا جاؤ اپنے باپ کو زمین میں دفن کردو۔ (سنن النسائی ‘ ج ٤‘ رقم الحدیث : ٢٠٠٥)
امام احمد بن حنبل ٢٤١ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت علی بیان کرتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ ابو طالب فوت ہوگیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جا کر اس کو دفن کردو۔ میں نے عرض کیا وہ مشرک ہونے کی حالت میں فوت ہوا ہے۔ آپ نے فرمایا جا کر اس کو دفن کردو۔ جب میں دفن کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس واپس آیا تو آپ نے فرمایا غسل کرلو۔ (مسند احمد ‘ ج ١‘ ص ١٣١‘ ١٣٠‘ ٩٧‘ طبع قدیم ‘ دلائل النبوۃ للبیہقی ‘ ج ٢‘ ص ٣٤٨)
امام ابوبکرعبداللہ بن محمد بن ابی شیبہ متوفی ٢٣٥‘ ھ روایت کرتے ہیں :
شعبی بیان کرتے ہیں کہ جب ابو طالب فوت ہوا تو حضرت علی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جا کر کہا آپ کا بوڑھا چچا جو کافر تھا ‘ وہ فوت ہوگیا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ‘ ج ٣‘ ص ٣٤٨‘ مطبوعہ کراچی ‘ ١٤٠٦)
امام ابوبکراحمد بن حسین بیہقی متوفی ٤٥٨‘ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت ابن عباس نے کہا قرآن مجید کی آیت اور وہ لوگوں کو (انہیں ایذاء پہنچانے سے) منع کرتے ہیں اور خود ان سے دور رہتے ہیں (الانعام : ٢٦) ابو طالب کے متعلق نازل ہوئی تھی۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایذاء پہنچانے سے مشرکین کو منع کرتا تھا اور آپ کے لائے ہوئے دین سے دور رہتا تھا۔ (دلائل النبوۃ ‘ ج ٢‘ ص ٣٤١‘ مطبوعہ بیروت)
ابو طالب کے ایمان نہ لانے کے متعلق مفسرین کے مذاہب کی تصریحات :
التوبہ : ١١٣ کی تفسیر میں علامہ سید محمود آلوسی حنفی متوفی ١٢٧٠ ھ لکھتے ہیں :
صحیح یہ ہے کہ یہ آیت ابو طالب کے متعلق نازل ہوئی ہے۔ کیونکہ امام احمد ‘ امام ابن ابی شیبہ ‘ امام بخاری ‘ امام مسلم ‘ امام نسائی ‘ امام ابن جریر ‘ امام ابن منذر ‘ اور امام بیہیقی نے مسیب بن حزن سے روایت کیا ہے کہ جب ابو طالب کی وفات کا وقت آیا تو نبی کریم اس کے پاس تشریف لے گئے اس وقت اس کے پاس ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ بیٹھے ہوئے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا اے چچا ” لا الہ الا اللہ کہو میں اللہ کے نزدیک اس کلمہ سے حجت پکڑوں گا ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ نے کہا اے ابو طالب ! کیا تم عبدالمطلب کی ملت سے اعراض کر رہے ہو ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس پر ” لا الہ الا اللہ پیش کرتے رہے اور ابو جہل اور عبداللہ بن ابی امیہ نے کہا اے ابو طالب ! کیا تم عبدالمطلب کی ملت سے اعراض کر رہے ہو ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس پر ” لا الہ الا اللہ “ پیش کرتے رہے اور ابو جہل اور عبداللہ اس کو اس کلمہ کے خلاف بھڑکاتے رہے ‘ آخر میں ابو طالب نے کہا وہ عبدا المطلب کی ملت پر ہے اور ” لا الہ الا اللہ “ کہنے سے انکار کردیا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں تمہارے لیے اس وقت تک مغفرت کی دعا کرتا رہوں گا ‘ جب تک مجھے اس سے منع نہ کیا جائے۔ اس لیے یہ آیت نازل ہوئی۔
حسین بن فضل نے یہ کہا ہے کہ ابو طالب کی موت ہجرت سے تین سال پہلے ہوئی ہے ‘ اور یہ سورت مدینہ میں آخر میں نازل ہوئی ہے۔ اس لیے اس حدیث کو اس آیت کا شان نزول قرار دینا مستبعد ہے۔ علامہ واحدی نے کہا یہ استبعاد خود مستبعد ہے۔ یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابو طالب کی موت کے بعد اس کے لیے مسلسل استغفار کرتے رہے ہوں۔ حتی کہ مدینہ منورہ میں یہ آیت نازل ہوئی ‘ کیونکہ کفار کے ساتھ سختی کرنے کی آیات مدینہ منورہ میں ہی نازل ہوئی ہیں۔ اس تاویل کی بناء پر حدیث کا معنی یہ ہوگا ‘ اس لیے اللہ نے یہ آیت نازل کی ‘ یہ معنی نہیں ہوگا اس کے بعد یہ آیت نازل کی اور ” فانزل ‘ میں ” فاسببیت “ کے لیے ہوگی ‘ نہ کہ تعقیب کے لیے۔ اکثر علماء نے اس توجیہ کو پسند کیا ہے اور یہ ہے بھی عمدہ توجیہ۔ لیکن اس پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ امام ابن سعد اور امام ابن عساکر نے حضرت علی سے روایت کیا ہے کہ ابو طالب کی موت کے بعد کئی دن تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے لیے استغفار کرتے رہے ‘ حتی کہ جبرائیل اس آیت کو لے کر نازل ہوئے۔ اس کا جواب یہ ہے یہ کہ حدیث ضعیف ہے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ ہوسکتا ہے کہ سورة توبہ کی یہ آیت مکہ میں پہلے نازل ہوئی ہو اور باقی آیات بعد میں مدینہ میں نازل ہوئی ہوں اور اس سورت کو بااعتبار غالب کے مدنی کہا جاتا ہو۔ بہرحال ‘ یہ آیت اس پر دلیل ہے کہ ابو طالب کفر پر مرا اور یہی اہل سنت و جماعت کا معروف مذہب ہے۔
امام ابن اسحاق نے اپنی سیرت میں حضرت ابن عباس سے ایک طویل حدیث روایت کی ہے جس میں یہ ہے کہ ابو طالب کے مرض الموت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے کہا کہ اے چچا ! آپ ” لا الہ الا اللہ “ کہیں تاکہ قیامت کے دن آپ کے لیے میری شفاعت جائز ہو ‘ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بہ اصرار ترغیب دی۔ ابو طالب نے کہا بہ خدا ! اے بھتیجے ! اگر مجھے یہ خدشہ نہ ہوتا کہ میرے بعد قریش تم پر اور تمہارے باپ کی اولاد پر ملامت کریں گے اور قریش یہ کہیں گے کہ اس نے موت کے ڈر سے کلمہ پڑھ لیا تو میں یہ کلمہ پڑھ لیتا اور میں صرف تمہاری خوشی کے لیے یہ کلمہ پڑھتا۔ جب ابو طالب پر موت کا وقت قریب آیا تو حضرت عباس نے اس کی طرف دیکھا تو اس کے ہونٹ ہل رہے تھے ‘ انہوں نے کان لگا کر سنا اور حضور سے کہا اے بھتیجے ! تم نے اسے جس کلمہ کو پڑھنے کے لیے کہا تھا ‘ اس نے وہ کلمہ پڑھ لیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں نے نہیں سنا۔ (البدایہ والنہایہ ‘ ج ٣‘ ص ١٢٣) اس روایت سے ابو طالب کے جو اشعار حضور کی مدح میں مشہور ہیں ‘ ان سے علماء نے یہ استدلال کیا ہے ‘ کہ ابو طالب مومن تھا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ان اشعار کی سند منقطع ہے ‘ علاوہ ازیں ان اشعار میں ابو طالب کے ایمان لانے کی تصریح نہیں ہے۔ رہی یہ روایت تو یہ شیعہ کی روایت ہے اس سے استدلال صحیح نہیں ہے ‘ علاوہ ازیں اس روایت میں بھی یہ ہے کہ آپ نے فرمایا : ” میں نے نہیں سنا “۔
امام بیہقی نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ اس کی سند منقطع ہے ‘ اور حضرت عباس جو اس حدیث کے راوی ہیں ‘ اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے اور مسلمان ہونے کے بعد انہوں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ابو طالب کی عاقبت کے متعلق سوال کیا کہ آپ نے ابو طالب کو کیا نفع پہنچایا ؟ وہ آپ کی مدافعت کرتا تھا۔ آپ نے فرمایا ہاں وہ ٹخنوں تک آگ میں ہے اور اگر میں ہوتا تو وہ دوزخ کے آخری طبقہ میں ہوتا۔ اس حدیث کو امام بخاری اور امام مسلم نے روایت کیا ہے اور وہ ضعیف روایت اس صحیح حدیث سے تصادم کی قوت نہیں رکھتی۔ (دلائل النبوۃ ‘ ج ٢‘ ص ٣٤٦)
باقی ابو طالب نے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدد اور نصرت کی تو وہ دین اسلام کی محبت میں نہیں کی ‘ بلکہ نسب اور قرابت کی وجہ سے کی ‘ اور اعتبار دینی محبت کا ہے ‘ نسبی محبت کا نہیں ہے۔ علاوہ ازیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شدید اصرار کے بعد بھی ابو طالب نے ایمان نہ لا کر آپ کو سخت اذیت بھی تو پہنچائی ہے ‘ تاہم ابو طالب کے کفر کے باوجود اس کی اس طرح مذمت نہ کی جائے جس طرح ابو جہل اور دیگر کفار کی مذمت کی جاتی ہے۔ (روح المعانی ‘ جز ١١‘ ص ٣٣۔ ٣٢‘ مطبوعہ بیروت)
امام رازی شافعی نے بھی اس آیت کی تفسیر میں یہی لکھا ہے کہ یہ آیت ابو طالب کے لیے استغفار کی ممانعت میں نازل ہوئی ہے ‘ کیونکہ وہ مشرک تھا۔ (تفسیر کبیر ‘ ج ٤‘ ص ٥١١‘ طبع قدیم ‘ دارالفکر ‘ بیروت)
حافظ ابن کثیر شافعی نے اس آیت کی تفسیر میں احادیث کے حوالے سے ابو طالب کے ایمان نہ لانے کو بیان کیا ہے۔ (تفسیر ابن کثیر ‘ ج ٣‘ ص ٤٦٠‘ مطبوعہ ادارہ اندلس ‘ بیروت)
علامہ قرطبی مالکی نے بھی تفسیر میں یہی لکھا ہے۔ (الجامع لاحکام القرآن ‘ جز ٦‘ ص ٣١٦۔ ٣١٥)
علامہ عبدالرحمن بن علی بن محمد الجوزی الحنبلی المتوفی ٥٩٧ ھ کی بھی یہی تحقیق ہے۔ (زادالمیسر ج ٣ ص ‘ ٥٠٧۔ ٢١۔ ٢٠ مطبوعہ مکتب اسلامی ‘ بیروت ‘ ١٤٠٧ ھ)
علامہ سید محمود آلوسی حنفی متوفی ١٢٧٠ ھ لکھتے ہیں :
امام عبد بن حمید ‘ امام مسلم ‘ امام ترمذی ‘ امام ابن ابی حاتم ‘ امام ابن مردویہ اور امام بیہقی نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کیا ہے کہ جب ابو طالب پر موت آنے لگی تو اسکے پاس نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے گئے اور فرمایا اے چچا ! ” لا الہ الا اللہ “ کہئے ‘ میں قیامت کے دن اللہ کے سامنے آپ کے حق میں گواہی دوں گا۔ ابوطالب نے کہا اگر مجھے قریش کی ملامت کا خدشہ نہ ہوتا ‘ کہ وہ کہیں گے کہ اس نے موت کے ڈر سے کلمہ پڑھا ہے تو میں تمہاری آنکھیں ٹھنڈی کردیتا۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی :
(آیت) ” انک لا تھدی من احببت ولکن اللہ یھدی من یشآء “۔ (القصص : ٥٦)
ترجمہ : بیشک آپ جسے چاہیں اس کو ہدایت یافتہ نہیں کرسکتے لیکن اللہ جسے چاہے اس کو ہدایت یافتہ کرتا ہے۔
امام بخاری ‘ امام مسلم ‘ امام احمد ‘ امام نسائی اور دیگر ائمہ حدیث نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت ابو طالب کے متعلق نازل ہوئی ہے ‘ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابو طالب سے اسلام لانے کے لیے شدید اصرار کیا۔ امام ابن مردویہ نے بھی اس روایت کو حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے۔ علامہ نووی شافعی نے لکھا ہے کہ تمام مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کہ یہ آیت ابو طالب کے متعلق نازل ہوئی ہے۔ (شرح مسلم ‘ ج ١‘ ص ٤١)
ابو طالب کے اسلام کا مسئلہ مختلف فیہ ہے اور یہ کہنا کہ تمام مسلمانوں کا ‘ یا تمام مفسرین کا اس پر اجماع ہے کہ یہ آیت ابو طالب کے متعلق نازل ہوئی ہے ‘ صحیح نہیں ہے کیونکہ علماء شیعہ اور ان کے اکثر مفسرین کا یہ نظریہ ہے کہ ابو طالب اسلام لے آئے تھے اور ان کا دعوی ہے کہ ائمہ اہل بیت کا بھی اس پر اجماع ہے اور ابو طالب کے اکثر قصائد اس پر شاہد ہیں اور جن کا یہ دعوی ہے کہ تمام مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کہ یہ آیت ابو طالب کے متعلق نازل ہوئی ہے ‘ وہ علماء شیعہ کے اختلاف اور ان کے روایات کا اعتبار نہیں کرتے۔ تاہم ابو طالب کے اسلام نہ لانے کے قول کے باوجود ابو طالب کو برا نہیں کہنا چاہیے اور نہ اس کے حق میں یا وہ گوئی کرنی چاہیے ‘ کیونکہ اس سے علویوں کو ایذاء پہنچتی ہے اور یہ بعید نہیں ہے کہ اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی ایذا پہنچے۔ (روح المعانی ‘ جز ٢٠‘ ص ٩٧۔ ٩٦‘ مطبوعہ بیروت)
ابو طالب کے ایمان کے متعلق مصنف کا نظریہ
مذاہب اربعہ کے معروف علماء ‘ فقہاء ‘ مفسرین اور جمہور اہل سنت کا یہ موقف ہے کہ ابو طالب کا ایمان ثابت نہیں ہے۔ ہم نے عمدا ان تمام تصریحات کا ذکر نہیں کیا ‘ کیونکہ ہمارے لیے یہ کوئی خوشگوار موضوع نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بڑی خواہش تھی کہ ابو طالب ایمان لے آئے۔ لیکن تقدیر کا لکھا پورا ہو کر رہا۔ یہ بہت نازک مقام ہے جو لوگ اس مسئلہ میں شدت کرتے ہیں اور ابو طالب کی ابو لہب اور ابو جہل کی طرح مذمت کرتے ہیں ‘ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دل آزاری کے خطرہ میں ہیں۔
ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے اہل بیت کی دل آزاری سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں ‘ ہم اس بحث میں صرف اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ قرآن مجید اور احادیث صحیحہ سے ابو طالب کا ایمان ثابت نہیں ہے اور یہ چیز ہم پر بھی اتنی ہی گراں اور باعث رنج ہے جتنی اہل بیت کے لیے ہے۔ اس سے زیادہ ہم اس بحث میں نہ کچھ لکھنا چاہتے ہیں اور نہ اس مسئلہ کی باریکیوں میں الجھنا چاہتے ہیں۔ بعض علماء اہل سنت نے ابو طالب کے ایمان کو ثابت کیا ہے۔ ہرچند کہ یہ رائے تحقیق اور جمہور کے موقف کے خلاف ہے ‘ لیکن ان کی نیت محبت اہل بیت ہے ‘ اس لیے ان پر طعن نہیں کرنا چاہیے۔(تفسیر تبیان القران سورہ انعام 26)
اعلیٰ حضرت، مُجَدِّدِ دین و ملت شاہ امام احمد رضاخان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن ابو طالب کے ایمان سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:
اس میں شک نہیں کہ ابو طالب تمام عمر حضور سیّد المرسَلین، سیّد الاَوّلین والآخِرین، سیّد الاَبرار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَعَلٰی اٰلِہٖ وَسَلَّمَ اِلٰی یَوْمِ الْقرار کی حفظ و حمایت و کفالت و نصرت میں مصروف رہے۔ اپنی اولاد سے زیادہ حضور کو عزیز رکھا اور اس وقت میں ساتھ دیا کہ ایک عالَم حضور کا دشمن ِجاں ہوگیا تھا اور حضور کی محبت میں اپنے تمام عزیزوں قریبیوں سے مخالفت گوارا کی، سب کو چھوڑ دینا قبول کیا، کوئی دقیقہ غمگساری و جاں نثاری کا نامَرعی نہ رکھا (یعنی ہر لمحے غمگساری اور جاں نثاری کی) اور یقیناً جانتے تھے کہ حضور افضل المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اللہ کے سچے رسول ہیں، ان پر ایمان لانے میں جنت اَبدی اور تکذیب میں جہنم دائمی ہے، بنو ہاشم کو مرتے وقت وصیت کی کہ محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی تصدیق کرو فلاح پاؤ گے، نعت شریف میں قصائدان سے منقول، اور اُن میں براہِ فراست وہ اُمور ذکر کیے کہ اس وقت تک واقع نہ ہوئے تھے (بلکہ) بعد ِ بعثت شریف ان کا ظہور ہوا، یہ سب احوال مطالعۂ اَحادیث و مُراجعت ِکتب ِسِیَر (یعنی سیرت کی کتابوں کی طرف رجوع کرنے ) سے ظاہر۔مگر مُجَرَّداِن اُمور سے ایمان ثابت نہیں ہوتا۔ کاش یہ افعال و اقوال اُن سے حالت ِاسلام میں صادر ہوتے تو سیدنا عباس بلکہ ظاہراً سیدنا حمزہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے بھی افضل قرار پاتے اور افضل الاَعمام حضور افضل الاَنام عَلَیْہِ وَعَلٰی اٰلِہٖ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِ وَالسَّلَام (یعنی تمام انسانوں سے افضل حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم کے سب سے افضل چچا) کہلائے جاتے۔ تقدیر ِالہٰی نے بربنا اُس حکمت کے جسے وہ جانے یا اُس کا رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، انہیں گروہِ مسلمین و غلامانِ شفیع المذنبین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ میں شمار کیا جانا منظور نہ فرمایا۔
فَاعْتَبِرُوْا یٰۤاُولِی الْاَبْصَارِ۔ (تو اے عقل رکھنے والو! ان کے حال سے عبرت حاصل کرو) صرف معرفت گو کیسی ہی کمال کے ساتھ ہو ایمان نہیں۔
(فتاویٰ رضویہ، رسالہ: شرح المطالب فی مبحث ابی طالب، ۲۹ / ۶۶۱)
مزید فرماتے ہیں آیاتِ قرآنیہ و اَحادیثِ صحیحہ، مُتوافرہ ، مُتظافرہ (یعنی بکثرت صحیح احادیث) سے ابو طالب کا کفر پر مرنا اور دمِ واپسیں ایمان لانے سے انکار کرنا اور عاقبت کار اصحابِ نار سے ہونا ایسے روشن ثبوت سے ثابت جس سے کسی سنی کو مجالِ دم زدن نہیں۔ (فتاویٰ رضویہ،رسالہ: شرح المطالب فی مبحث ابی طالب، ۲۹ / ۶۵۷-۶۵۸)
والله ورسوله أعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ:- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن ضلع سرها نيبال
03/08/2023
کتبہ:- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن ضلع سرها نيبال
03/08/2023