Type Here to Get Search Results !

اختلافی مسائل میں کسی کو گمراہ یا فاسق کہنا کیسا ہے ؟

اختلافی مسائل میں کسی کو گمراہ یا فاسق کہنا کیسا ہے ؟
________(❤️)_________
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
 کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
اختلافی مسائل میں کسی کو گمراہ یا فاسق کہنا کیسا ہے ؟
________(❤️)_________
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
الجواب ھو الھادی الی الصواب 
فروعی مسائل میں اختلاف رحمت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اختلاف میری امت کے لئے رحمت ہے لیکن کچھ لوگ اس رحمت کو زحمت بنائے ہوئے ہیں اگر کسی مسئلہ میں دلائل کی بنیاد پر کسی بزرگ سے اختلاف کیا جائے اختلاف کرنے والے نے اپنی تحقیق اور دلائل سے اختلاف کیا ہو تو کچھ لوگ اس کو گمراہ یا اس کو فاسق کہتے ہوئے نظر آتے ہے اور اس اختلاف سے ان کا ہاضمہ اس قدر خراب ہو جاتا ہے ان کو ذرا بھی ہضم نہیں ہوتا جس بنا پر وہ لعن طعن تفسیق و تضلیل کرتے نظر آتے ہیں جبکہ اجتہادی مسائل میں کسی کو برا بھلا کہنا جائز نہیں۔
 اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
ولا تفسیق بالاجتھادیات 
 اور اجتہادی مسائل میں کسی کو فاسق کہنا جائز نہیں
 اجتہادی مسائل میں کسی پر طعن بھی جائز نہیں نہ کہ معاذ اللہ ایسا خیال کے گمراہ یا کافر کہا جائے
  اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی رحمۃ اللہ مزید فرماتے ہیں
 جو کوئی ان تمام باتوں کے باوجود کسی ایک طرف پختہ یقین دیکھاۓ تو وہ بے باک نڈر اور بے احتیاط ہے، پس راسخ علماء اور محتاط حضرات کی یہی پہچان ہے کہ وہ مختلف اجتہادی مسائل میں کسی ایک طرف یقین نہیں رکھتے ۔
فتاویٰ شارح بخاری میں مفتی شریف الحق رحمہ فرماتے ہیں
جب علماء کا کسی مسئلے میں 
اختلاف ہو تو یہ درست نہیں ایک دوسرے کو فاسق کہا جاے،
صدر الافاضل نعیم الدین صاحب کے پیر مرشد سید شاہ علی حسین کے مرید اور خلیفہ تھے اور اعلیٰ حضرت کے انتہائ نیاز مند اور محبوب تھے مگر اعلیٰ حضرت نے کبھی بیعت فسخ کرنے کا حکم نہیں فرمایا اعلیٰ حضرت کی یہ عادت تھی وہ کسی فاسق کی تعطیم نہیں کرتے تھے َاور امر بالمعروف و نھی عن المنکر سے کبھی غفلت نہیں کرتے تھے
مولانا اشرف رحمۃاللہ علیہ مزامیر کے ساتھ قوالی سنا کرتے تھے اور یہ بات اعلیٰ حضرت کے علم میں تھی اس کے باوجود اعلیٰ حضرت ان کی قیام تعظیم کرتے تھے اور ان کی دست بوسی بھی کرتے تھے بلکہ آپ نے اپنی خلافت سے انکو نوازا تھا یہی حال مفتی اعظم ہند رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ حامد رضا کا تھا سید محمد صاحب کی دست بوسی کرتے ان کی قیام تعظیم کرتے،، بات در اصل یہی ہے، جب ایک مسئلہ میں اختلاف ہو تو ایک دوسرے کو فاسق فاجر نہیں کہا جاے گا
(فتاویٰ شارح بخاری جلد 2 صفحہ 277)
امام اہلسنت سے سوال ہوا مزار قبر کا بوسہ لینا چاہیے کہ نہیں،
آپ نے جواب دیا، فی الواقع بوسہ قبر میں علماء کا اختلاف ہے، اور تحقیق یہ ہے وہ ایک؛ امر ہے، دو چیزوں داعی و مانع کے درمیان، دائر داعی محبت ہے، اور مانع ادب تو جسے غلبہ محبت ہو تو اسپر مواخذہ نہیں، پھر اس پر مزید کلام کرتے ہوئے آخر میں فرماتے ہیں،،
امام علامہ عبدالغنی نابلسی قدس سرہ القدسی حدیقہ ندیہ شرح طریقہ محمدیہ میں فرماتے ہیں:
المسئلۃ متی امکن تخریجھا علی قول من الاقوال فی مذھبنا او مذھب غیرنا ، فلیست بمنکر یجب انکارہ والنھی عنہ وانما المنکر ماوقع الاجماع علٰی حرمتہ والنھی عنہ وﷲ تعالٰی اعلم
جب کسی مسئلہ کا ہمارے مذہب یا دیگر ائمہ کے مذہب پر جواز نکل سکتا ہو تو وہ ایسا منکر نہیں کہ اس پرانکار اور اس سے منع کرنا واجب ہو۔ ہاں گناہ وہ ہے کہ وہ اس کے حرام ہونے اور اس کے منع ہونے پر اجماع ہو۔ واﷲ تعالٰی اعلم 
(فتاویٰ رضویہ 9 جلد 530)
 دیکھا آپ نے امام اہلسنت نے یہ نہیں فرمایا بوسہ دینے والے فاسق ہے بلکہ کہا اس سے کوئی مواخذہ نہیں اور آخر میں تو یہ فرما دیا یہ وہ منکر نہیں جس پر انکار واجب ہو اس سے ان مفتیوں کو سبق لینا چاہیے جو اختلافی مسائل میں فاسق کا فتویٰ داغ دیتے ہیں، اور ایک عالم مفتی کی ذات کو مجروح کردیتے ہیں،
ایک اور مقام پر امام اہلسنت سے سوال ہوا
بوسہ قبر جائز ہے یانہیں؟ بینوا توجروا(بیان فرماؤ اجر پاؤ۔ت)
الجواب:
اس مسئلہ میں بہت اختلاف ہے۔بکثرت اکابر جواز و منع دونوں طرف ہیں اور عوام کے لئے زیادہ احتیاط منع میں ہے۔(فتاویٰ رضویہ جلد 22 ،ص 421)
یہاں بھی امام اہلسنت نے یہ نہیں فرمایا بوسہ دینے والے فاسق، ہے، صرف یہ کہا عوام کے لیے احتیاط منع ہے ایک اور مقام پر سوال ہوتا ہے
 کیا فرماتے ہیں علمائے شریعت وطریقت و مفتیان راز داران معرفت وحقیقت اس مسئلہ میں کہ بعض شیوخ ومرشدین نے اپنے کچھ مریدین کو ہدایت وتاکید کررکھی ہے کہ وہ ان کے پاؤں کو بوسہ دیا کریں یعنی چوما کریں۔بزرگان دین رحمہم ﷲ تعالٰی کے مزارات پر جھک کر سلام کیا کریں اور ان کی قبور کو روافض کی طرح بوسہ دیا کریں بقول ان کے ایسا کرنا جائز ہے۔کیا واقعی شریعت وطریقت میں ایسا کرنے کی اجازت ہے اور یہ شرک وکفرنہیں ہے؟ کتب اسلامی کے حوالے سے بیان فرمائیں تاکہ ﷲ تعالٰی کے ہاں ماجور ہوں اور لوگوں کے ہاں مشکور
الجواب:
بوسہ قبر بمذہب راجح ممنوع است فی شرح عین العلم لعلی قاری ولا یمس ای القبر ولا التابوت والجدار فورد النھی عن مثل ذٰلک بقبرہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فکیف بقبور سائر الانام و صحیح اور قابل ترجیح مذہب میں کسی بھی قبر کو بوسہ دینے یعنی چومنے کی اجازت نہیں بلکہ ممانعت ہے۔چنانچہ محدث ملا علی قاری رحمۃ ﷲ تعالٰی علیہ کی شرح عین العلم میں ہے کہ قبر، تابوت اور دیوار کو ہاتھ نہ لگایا جائے کیونکہ حضور اکرم صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی قبر اطہر کے بارے میں اس طرح کرنے سے روکا اور منع کیا گیا ہے،،
 یہاں بھی امام اہلسنت نے یہ نہیں فرمایا کی بوسہ دینے والا فاسق ہے، بلکہ آپ نے صحیح اور قابل ترجیہ مذہب منع ہے فرمایا، اس کے باوجود آپ نے یہ نہیں فرمایا بوسہ دینے والا فاسق ہے، اگر آپ کو منصب افتاء ملا ہوا ہے تو آپ کسی مفتی یا عالم کا نام لیکر وہ بھی ایسے مسئلہ میں جس میں اکثر علماء مشائخ جواز کے قائل ہیں
 اس کو فاسق قرار دے، تو میں سمجھتا ہوں یہ کام سراسر اصول افتاء کے خلاف ہے آپ کا یہ فتویٰ صرف فرد واحد کے لیے نہیں پھر ان مجوزین کے لیے بھی ہوگا، اور ان کو فاسق بنانا ہوگا لا حول ولا قوۃ الا باللہ، احتیاط تو یہ ہے اپنے موقف میں امکان خطا سمجھتے ہوئے اپنے فتاویٰ میں نرمی اور احتیاط کا پہلو اپنایا جائے چونکہ مسئلہ قطعی نہیں، بلکہ اجتہادی ہے اور وہ بھی ایسا جس میں اکثریت. مبتلاء ہیں،، کسی عالم یا مفتی کو فاسق کہنا گویا کہ کیا آپ کے پاس وحی الہی آئی ہے یا آپ کو یہ غیب سے بتایا گیا کہ آپ ہی اس مسئلہ میں حق پر ہے، باقی ناحق فاسق فاجر ہیں
اللہ کریم ہمیں منصب افتاء کا صحیح استعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے فہم فقہ اور فہم افتاء عطا فرمائے بہت سارے ایسے مسائل ہیں جن میں خود سیدی اعلیٰ حضرت نے اکابر علماء سے اختلاف کیا ہے اور اعلیٰ حضرت سے بعد کے علماء نے اختلاف کیا مثال کے طور پر پیشاب کی بہت باریک چھنٹیں کپڑے پر پڑ جائے تو کپڑا ناپاک نہ ہوگا لیکن وہ کپڑا تھوڑے پانی میں گر جائے تو پانی ناپاک ہوگا یا نہیں اس بارے میں اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں کہ ناپاک ہو جائے گا لیکن اس کے بعد صدر الشریعہ نے یہ موقف اختیار کیا کے ناپاک نہیں ہوگا اسی طرح اعلیٰ حضرت نے سیب کا چونا کھانا فتاوی رضویہ میں حرام لکھا ہے لیکن علمائے بہار نے اسے حلال قرار دیا ہے اس طرح کے بہت سارے مسائل ہیں لیکن کسی نے کسی پر لعن طعن نہیں کیا نہ ہی تفسیق کی نہ جانے کیوں آج لعن طعن والی بلا میں عالم مفتی کہلانے والے بھی مبتلا ہیں ذرا سا کسی عالم کو کسی مسئلہ میں اختلاف کرتا پایا تو اس پر لعن طعن شروع کر دیتے ہیں
اللہ کریم ہمیں صحیح فہم فقہ و افتاء عطا فرمائے۔
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب
________(❤️)_________
خاکسار عاجز اسیر بارگاہ امام اعظم ابو حنیفہ 
کتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد دانش حنفی
صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی 
ہلدوانی نینیتال 9917420179

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area