(سوال نمبر 2098)
اجازت کے بغیر امانت استعمال کرنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمۃاللہ تعالیٰ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں
کہ ہمارے یہاں شہر میں مسجدوں کے آئمہ حضرات ہی نکاح پڑھاتے ہیں نکاح کا نذرانہ جو لڑکے والوں کی طرف سے ملتا ہے وہ تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے کچھ زیادہ امام صاحب اس سے کم مسجد کمیٹی پھر اس کے بعد مسجد کے مؤذن صاحب کو چونکہ مؤذن صاحب بھی امام صاحب کے ساتھ نکاح پڑھانے کے لئے جاتے ہیں اور رجسٹر وغیرہ بھی بھر تے ہیں
امام صاحب کم و بیش دس بارہ سال سے نکاح پڑھاتے ہیں جو مؤذن صاحب کا حصہ ہوتا ہے وہ مؤذن صاحب کو دیے دیتے ہیں اور مسجد کا حصہ امام صاحب کے پاس سال بھر تک رہتا ہے اس لئے کی شروع میں مسجد کمیٹی نے کہا تھا کہ جب زیادہ روپیہ جمع ہو جایا کرے تو جمع کر دیا کرنا
یہ رواج چلا آرہا تھا امام صاحب ہر سال عید کے بعد نکاح کے نذرانے میں سے مسجد کا حصہ جمع کر دیا کرتے تھے
ایک سال امام صاحب نے دو سال تک مسجد کا حصہ کمیٹی کے پاس جمع نہیں کیا گھر میں بیماری کیوجہ سے یا اور ضرورت کیوجہ سے اسی بیچ کمیٹی نے مطالبہ کیا کمیٹی کے مطالبے پر امام صاحب نے بیس ہزار میں سے دس ہزار فورا جمع کر دیا اور دس ہزار قسطوں میں جمع کر دیا اب کمیٹی کے کچھ لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ امام صاحب نے امانت میں خیانت کی ہے مسجد کے روپئے کو کھا لیا ہے امام صاحب کے پیچھے نماز نہیں ہوگی دریافت طلب امر یہ ہے کہ امام صاحب کا یہ فعل شرعاً جائز ہے یا نا جائز
اور کمیٹی والوں کا اسطرح الزام لگانا از روئے شرع درست ہے کہ نہیں
شریعت مطہرہ کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں نوازش ہوگی
المستفتی:- محمد زاہد رضا بہرائچ شریف یوپی انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل
بصحت سوال مسجد کی کمیٹی نے نکاح خوانی کے نذرانہ میں شروع میں امام کے وظیفہ طے کرنے کےوقت اگر یہ حصے مقرر کئے ہوں اور امام صاحب راضی برضا وظیفہ قبول کئے ہوں پھر مسجد کے حصے کو بدون اذن کمیٹی استعمال کرنا امام کے لئے جائز نہیں تھا
کرونا وائرس کی بلا میں کون مبتلا نہیں ہے؟ اگر سخت ضرورت پڑی تو کمیٹی سے اجازت لے کر بطور قرض استعمال کرتے البتہ اگر امام صاحب نے مذکورہ فعل سے اگر توبہ کر لئے ہیں پھر اس کے پیچھے نماز پڑھنا بلا کراہت جائز ہے دیگر شرائط امامت کے ساتھ ۔اب کسی کو امام صاحب پر چیں بجیں ہونا جائز نہیں ہے ۔
واضح رہے کہ وہ مسجد کا امام ہے ان کی قدر کرنا سب پر لازم ہے علی الاعلان اس طرح کہنا کہ امام نے امانت میں خیانت کی درست نہیں ہے ۔کمیٹی والوں کے ان الفاظ سے اگر امام صاحب کی دل آذاری ہوئی ہو تو سب لوگ امام صاحب سے معذرت خواہی طلب کریں کہ دل آذاری کرنا حرام ہے ۔
اگر امام صاحب کے پاس اس رقم کے علاوہ کوئی رقم نہیں تھی تو انہیں چاہیے تھا کہ وہ قرض لے کر کام چلاتے ، اور اگر قرض بھی نہیں ملتا اور وہ مستحقِ زکات ہے تو وہ زکات و غیرہ سے تعاون لے سکتے تھے، لیکن امانت میں خیانت کی اجازت نہیں تھی ، البتہ اگر امام نے اس رقم کے استعمال کی پیشگی اجازت لی ہو ،یا کمیٹی نے از خود اس رقم کے استعمال کرنے کی اجازت دی ہو تو اس صورت میں اس رقم کا استعمال درست تھا ۔
کما فی الفتاوى الهندية
وأما حكمها فوجوب الحفظ على المودع وصيرورة المال أمانة في يده ووجوب أدائه عند طلب مالكه ، كذا في الشمني .الوديعة لا تودع ولا تعار ولا تؤاجر ولا ترهن ، وإن فعل شيئا منها ضمن ، كذا في البحر الرائق۔ (الفتاوى الهندية 4/338)
والله ورسوله اعلم بالصواب
اجازت کے بغیر امانت استعمال کرنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمۃاللہ تعالیٰ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں
کہ ہمارے یہاں شہر میں مسجدوں کے آئمہ حضرات ہی نکاح پڑھاتے ہیں نکاح کا نذرانہ جو لڑکے والوں کی طرف سے ملتا ہے وہ تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے کچھ زیادہ امام صاحب اس سے کم مسجد کمیٹی پھر اس کے بعد مسجد کے مؤذن صاحب کو چونکہ مؤذن صاحب بھی امام صاحب کے ساتھ نکاح پڑھانے کے لئے جاتے ہیں اور رجسٹر وغیرہ بھی بھر تے ہیں
امام صاحب کم و بیش دس بارہ سال سے نکاح پڑھاتے ہیں جو مؤذن صاحب کا حصہ ہوتا ہے وہ مؤذن صاحب کو دیے دیتے ہیں اور مسجد کا حصہ امام صاحب کے پاس سال بھر تک رہتا ہے اس لئے کی شروع میں مسجد کمیٹی نے کہا تھا کہ جب زیادہ روپیہ جمع ہو جایا کرے تو جمع کر دیا کرنا
یہ رواج چلا آرہا تھا امام صاحب ہر سال عید کے بعد نکاح کے نذرانے میں سے مسجد کا حصہ جمع کر دیا کرتے تھے
ایک سال امام صاحب نے دو سال تک مسجد کا حصہ کمیٹی کے پاس جمع نہیں کیا گھر میں بیماری کیوجہ سے یا اور ضرورت کیوجہ سے اسی بیچ کمیٹی نے مطالبہ کیا کمیٹی کے مطالبے پر امام صاحب نے بیس ہزار میں سے دس ہزار فورا جمع کر دیا اور دس ہزار قسطوں میں جمع کر دیا اب کمیٹی کے کچھ لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ امام صاحب نے امانت میں خیانت کی ہے مسجد کے روپئے کو کھا لیا ہے امام صاحب کے پیچھے نماز نہیں ہوگی دریافت طلب امر یہ ہے کہ امام صاحب کا یہ فعل شرعاً جائز ہے یا نا جائز
اور کمیٹی والوں کا اسطرح الزام لگانا از روئے شرع درست ہے کہ نہیں
شریعت مطہرہ کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں نوازش ہوگی
المستفتی:- محمد زاہد رضا بہرائچ شریف یوپی انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل
بصحت سوال مسجد کی کمیٹی نے نکاح خوانی کے نذرانہ میں شروع میں امام کے وظیفہ طے کرنے کےوقت اگر یہ حصے مقرر کئے ہوں اور امام صاحب راضی برضا وظیفہ قبول کئے ہوں پھر مسجد کے حصے کو بدون اذن کمیٹی استعمال کرنا امام کے لئے جائز نہیں تھا
کرونا وائرس کی بلا میں کون مبتلا نہیں ہے؟ اگر سخت ضرورت پڑی تو کمیٹی سے اجازت لے کر بطور قرض استعمال کرتے البتہ اگر امام صاحب نے مذکورہ فعل سے اگر توبہ کر لئے ہیں پھر اس کے پیچھے نماز پڑھنا بلا کراہت جائز ہے دیگر شرائط امامت کے ساتھ ۔اب کسی کو امام صاحب پر چیں بجیں ہونا جائز نہیں ہے ۔
واضح رہے کہ وہ مسجد کا امام ہے ان کی قدر کرنا سب پر لازم ہے علی الاعلان اس طرح کہنا کہ امام نے امانت میں خیانت کی درست نہیں ہے ۔کمیٹی والوں کے ان الفاظ سے اگر امام صاحب کی دل آذاری ہوئی ہو تو سب لوگ امام صاحب سے معذرت خواہی طلب کریں کہ دل آذاری کرنا حرام ہے ۔
اگر امام صاحب کے پاس اس رقم کے علاوہ کوئی رقم نہیں تھی تو انہیں چاہیے تھا کہ وہ قرض لے کر کام چلاتے ، اور اگر قرض بھی نہیں ملتا اور وہ مستحقِ زکات ہے تو وہ زکات و غیرہ سے تعاون لے سکتے تھے، لیکن امانت میں خیانت کی اجازت نہیں تھی ، البتہ اگر امام نے اس رقم کے استعمال کی پیشگی اجازت لی ہو ،یا کمیٹی نے از خود اس رقم کے استعمال کرنے کی اجازت دی ہو تو اس صورت میں اس رقم کا استعمال درست تھا ۔
کما فی الفتاوى الهندية
وأما حكمها فوجوب الحفظ على المودع وصيرورة المال أمانة في يده ووجوب أدائه عند طلب مالكه ، كذا في الشمني .الوديعة لا تودع ولا تعار ولا تؤاجر ولا ترهن ، وإن فعل شيئا منها ضمن ، كذا في البحر الرائق۔ (الفتاوى الهندية 4/338)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
_________(❤️)_________
20/3/2022