Type Here to Get Search Results !

حجام جو بال کاٹنے اور داڑھی چھیلنے کا اجرت لیتا ہے کیا وہ پیسے حلال ہیں؟

 (سوال نمبر 2064)
حجام جو بال کاٹنے اور داڑھی چھیلنے کا اجرت لیتا ہے کیا وہ پیسے حلال ہیں؟
.....................................
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے 
(1)حجام جو بال کاٹنے اور داڑھی چھیلنے کا اجرت لیتا ہے کیا وہ پیسے حلال ہیں
(2) حجام سیلون سے روپئے کما کر لایا اور اسی پیسے کو مسجد میں اور مدرسے میں چندہ دیا کیا یہ جائز ہے
(3)ایسا شخص اگر دعوت کرے اور اسی پیسے کا استعمال کرے تو اس کے گھر کھانا درست ہے
سائل:- شیرمحمد قادری مشرقی چمپارن (بہار) انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الأمين 
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالى عز وجل 

١/ حجام کے لئے بال کاتنے کی اجرت لینا جائز ہے اور داڑھی چھیلنے کی اجرت لینا حرام ہے ۔
٢/حجام کا روپیہ مسجد و مدرسہ کے لئے لینا جائز ہے چونکہ وہ بال اور مونچھ بھی کاٹتا ہے جو کہ شرعا جائز ہے البتہ خالص ڈاڑھی مونڈنے والے حجام کا پیسہ مسجد و مدرسہ کے لئے لینا جائز نہیں ہے ۔
٣/ ڈاڑھی مونڈنے سے اسے منع کیا جائے دعوت کھانا جائز ہے چونکہ صرف ڈاڑھی مونڈنے کی رقم سے اس نے دعوت نہیں کرتا اس میں دیگر کمائی کے پیسے بھی ہوتے ہیں اگر خالص ڈاڑھی مونڈنے کی کمائی سے ہو تو دعوت کھانا جائز نہیں ہے ۔
واضح رہے کہ حجامت یعنی بال کاٹنے والے کی اجرت کے حلال یا حرام ہونے میں تفصیل یہ ہے کہ جو کام حرام ہیں، یعنی داڑھی مونڈنا یا بھنویں بنانا، ان کاموں کی اجرت بھی حرام ہے، اور جو کام جائز ہیں جیسے سر کے بال کاٹنا یا ایک مشت سے زائد ڈاڑھی کو  شرعی طریقے پر درست کرنا، ان کاموں کی اجرت بھی حلال ہے، 
چونکہ حجام کا کام کرنا جائز ہے، اس کی کمائی بھی حلال ہے۔ 
البتہ داڑھی رکھنا ہر مسلمان مرد پر واجب ہے، شیو کرنا جائز نہیں ہے۔ حجام کو چاہیے کہ شیو نہ کرے، اگر کوئی کہتا ہے تو اسے کہہ دیں کہ یہ کام میں نہیں کروں گا۔ 
١/ اگر وہ شیو بناتا ہو
 تو اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والی کمائی حرام ہے،
اور اگر اس کے علاوہ اگر وہ جائز  کام کرتا ہے مثلا سر کے بال کانٹنا ، خط بنانا،سر مونڈنا ،یا ایک مشت سے زیادہ ڈاڑھی کاٹنا 
تو ان کاموں سے حاصل ہونے والی آمدنی حلال ہے ۔اسے ہر جائز مصرف میں صرف کر سکتے ہیں 
کما المبسوط للسرخسی
لما فی المبسوط للسرخسی۔
ولا تجوز الاجارۃ علی شیئ من الغناء ولمزامیر الطبل وشیئ من اللھو ؛لانہ معصیۃ والاستئجار علی المعاصی باطل فانہ بعقد لاجارۃ یستحق المعقود علیہ شرعا
ولا یجوز ان تستحق علی المرءفعل بہ یکون عاصیا شرعا۔ (المبسوط للسرخسی)
درمختار باب الاجارة الفاسده میں ہے۔
ولا تصح الاجارة لأجل المعاصى مثل الغناء والنوح والملاهى.اھ۔ (ج ۔6ص نمبر/55)
اور البحر الرائق میں ہے۔
وان اعطاها الا جرو قبضه لا يحل له ويجب عليه رده على صاحبه۔اھ۔(ج ۔8۔ص نمبر/20)
اگر دعوت والے اسی مال حرام سے کھلائے تو نہ کھائیں۔لیکن جب اس کا مال حلال و حرام دونوں طرح کا ہے اور دونوں باہم مخلوط ہوتا ہے تو یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ خاص مال حرام سے ضیافت کا انتظام ہوا ہے۔علاوہ ازیں اجرت میں روپے پیسے ملتے ہیں جو خود کھائے نہیں جاتے بلکہ ان سے کوئی چیز مطعومات ومشروبات خریدی جاتی ہے جس سے عموماً عقد ونقد جمع نہیں ہوتے اس لئے اس کے یہاں کھانا مال حرام کا نہیں۔
تاہم علماء۔ فقہاء ۔حفاظ۔قراء۔ائمہ۔کو اس کے یہاں کھانے سے احتراز کرنا چاہئے تاکہ لوگوں کو عبرت ہو۔(فتاویٰ مرکز تربیت افتا جلد دوم ص 131/132)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
1/7/3021

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area