Type Here to Get Search Results !

غیر قوم کے یہاں سے میت کی کھانے کی دعوت ملی کیا اس کے یہاں دعوت کھانا جائز ہے یا نہیں؟

 (سوال نمبر 7005)
غیر قوم کے یہاں سے میت کی کھانے کی دعوت ملی کیا اس کے یہاں دعوت کھانا جائز ہے یا نہیں؟
_________(❤️)_________
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ غیر قوم کے یہاں سے میت کی کھانے کی دعوت ملی کیا اس کے یہاں دعوت کھانا جائز ہے یا نہیں علماء کرام قرآن حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں اور شکریہ کا موقع دیں
سائل:- محمد امجد رضا قادری پھلروان کھگڑیا ،بہار انڈیا 
_________(❤️)_________
نحمده ونشكره و نصلي علي رسوله الأمين الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
حالات حاضرہ کے پیش نظر 
اگر پڑوسی ہو اور نہ جانے پر اذیت کا خدشہ ہو تو ذبیحہ کے سوا دعوت کھانے میں بطور مصلحت حرج نہیں ہے۔ 
یاد رہے کہ کافر کا کھانا اگر حلال ہو تو فی نفسہ اس کا کھانا منع نہیں ہے البتہ وہ کھانا جو ان کی خاص مذہبی رسومات کے تحت بنایا گیا ہو اس میں شرکت جائز نہیں ہے ہندو اپنی میت کو ثواب پہنچانے کے لیے خاص دنوں میں کھانا بنواتے ہیں جیسے وہ سرادھ کہتے ہیں اور اس پر ان کا پنڈٹ ان کے کچھ خاص مذہبی بید بھی پڑھتا ہے اور پھر وہ اس کے ایصالِ ثواب کے لیے اس کو تقسیم کرتے ہیں اس لیے مسلمانوں کے لیے ان کی اس تقریب میں شرکت اور اس کا کھانا کھانا جائز نہیں ہے۔
اگراس کے بر عکس ہو تو بطور مصلحت جانے میں حرج نہیں ہے۔
یعنی پنڈت کچھ نہ پڑھا ہو اور محض ذبیحہ کے علاوہ کھانا ہو تو گنجائش ہے۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
07/08/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area