Type Here to Get Search Results !

ڈاکٹر خدا کا دوسرا روپ ہوتا ہے یہ کہنا کیسا ہے؟

 (سوال نمبر236)
 ڈاکٹر خدا کا دوسرا روپ ہوتا ہے یہ کہنا کیسا ہے؟
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
السلام علیکم و رحمۃ اللہ تعالی وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ اگر کسی سنی مسلمان نے کسی ڈاکٹر کو یہ کہہ دیا کہ بھگوان کا دوسرا روپ ڈاکٹر ہوتے ہیں یا یہ کہہ دیا کہ خدا ہیں معاذاللہ تو ایسے شخص کے بارے میں شریعت مطہرہ کاحکم لگے گا کیا بھگوان کا دوسرا روپ کہنا بھی اسکی بیوی اسکی نکاح سے نکل جائے گی مکمل وضاحت کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں
السائل:- محمد اسلم رضا قادری رضوی صدیقی بہرائچ شریف یو پی انڈیا 
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالى عز وجل 
مسلئہ مسئولہ میں زید نے اگر خدا کا معنی جانتے ہوئے بولا کہ لفظ خدا معبود حقیقی کی نشاندہی کرتا ہے اس لفظ کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہی کو پکارنا مانا جاتا ہے ،جیسے خدا، ایزد، یزداں، وغیرہ اگر کسی ڈاکٹر کو خدا یا خدا کا روپ کہا تو وہ کافر و مرتد ہے ، اس کے تمام نیک اعمال برباد ہوگئے ، اس پر فرض ہے کہ اس کفر سے توبہ کرے ، پھر سے کلمہ پڑھے ، اگر شادی شدہ تھا ، تو پھر سے نکاح کرے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات واجب الوجود ہے اور لفظ خدا واجب الوجود ہی کی ترجمانی کرتا ہے، کیونکہ لفظ خدا دو لفظوں سے مل کر بنا ہے ایک ،خود ،دوسرا ،آ، تو معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وجود واجب ہے یعنی بغیر کسی کی احتیاج کے ہے،
جیسا کہ تفسیر کبیر میں ہے:  الاسم العاشر قولنا واجب الوجود لذات وقولہم بالفارسیۃ خدای معناہ أنہ واجب الوجود لذاتہ لأن قولنا خدای مرکبۃ من لفظتین فی الفارسیۃ، أحدہما ’’خود‘‘ ومعناہ ذات الشیئ ونفسہ وحقیقتہ والثانیۃ قولنا ’’آی‘ معناہ جاء ، فقولنا خدای معناہ أنہ بنفسہ جاء وہو إشارۃ إلی أنہ بنفسہ وذاتہ جاء إلی الوجود لابغیرہ وعلی ہذا الوجہ فیصیر تفسیر قولہم خدای أنہ لذاتہ کان موجودا۔‘‘( تفسیر کبیر،ص:۱۰۰،۱۰۱ الباب الثالث من ہذا الکتاب فی مباحث الاسم)
اور اگر خدا کا معنی نہ جانتا ہو تو اس شخص پر حکمِ کفر تو نہ ہوگا ، البتہ توبہ ضروری ہے آور ایسے الفاظ سے لازما اجتناب ضروری ہے ۔
اور اگر اسے علم نہ تھا؟
جیساکہ سوال سے ظاہر ہے کہ ہندو کے عقیدہ کو دہرا یا ہے کہ اس کا عقیدہ ڈاکٹر کے بابت ایسا ہے اگر خدا کے بابت علم ہوتا تو اس طرح کا جملہ نہ کہتا ۔۔ اور جیسے مطلق رب کہنا جائز نہیں ہے پر اضافت کے ساتھ درست ہے جیسے رب المال ۔رب الدار وغیرہ ۔
 لفظِ ،خدا ،جب مطلق بولاجائے تو اس کا اطلاق صرف اللہ تعالیٰ پرہوتاہے؛ لہٰذا کسی دوسرے کو مطلقاً خدا کہنا جائز نہیں ہے۔ 
تفسیر ابن کثیر میں ہے :
"{ رَبِّ الْعَالَمِينَ } والرب هو: المالك المتصرف، ويطلق في اللغة على السيد، وعلى المتصرف للإصلاح، وكل ذلك صحيح في حق الله تعالى. ولايستعمل الرب لغير الله، بل بالإضافة تقول: رب الدار رب كذا، وأما الرب فلايقال إلا لله عز وجل". (1/131)
شرح كتاب التوحيدلعبد الله بن محمد الغنيمان (2/119):
"الرب، فالرب جل وعلا لايطلق إلا على الله، ولايستعمل لأحد إلا إذا كان مضافاً، مثل أن يقول: رب الدار، رب الكتاب. أما أن يقول هكذا: رب، ربك، أو ربي، فالرب خاص بالله جل وعلا، فلايكون مثل إطلاق لفظ السيد".
 غیاث اللغات میں ہے:
خدا بالضم بمعنی مالک و صاحب۔ چوں لفظ  خدا مطلق باشدبر غیر ذاتِ باری تعالیٰ اطلاق نکند، مگر در صورتیکہ بچیزے مضاف شود، چوں کہ خدا، ودہ خدا‘‘۔(غیاث اللغات، ص:185)
قول بھگوان سے کچھ نہیں 
اعلی حضرت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔
ضروریات دین کے سوا کسی شے کا انکار کفر نہیں اگرچہ ثابت بالقواطع ہوکہ عند
التحقیق آدمی کو اسلام سے خارج نہیں کرتا مگر انکار اس کا جس کی تصدیق نے اسے دائرہ اسلام میں داخل کیا تھا اور وہ نہیں مگر ضروریات دین۔
کماحققہ العلماء المحققون من الائمۃ المتکلمین 
جیسا کہ ائمہ متکلمین کے محقق علماء نے تحقیق کی ہے۔و لہذا خلافت خلفائے راشدین رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کا منکر مذہب تحقیق میں کافر نہیں حالانکہ اس کی حقانیت بالیقین قطعیات سے ثابت، وقد فصل القول فی ذلک سیدنا العلامۃ الوالد رضی اللہ تعالی عنہ فی بعض فتاوہ‌ اس موضوع پر سیدنا علامہ والد ماجد رضی اللہ عنہ نے اپنے بعض فتاوی میں مفصل گفتگو کی ہے۔ (فتاویٰ رضویہ ج 5ص 15)
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب
________(❤️)________
 کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی
 محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
 لہان ١٨خادم دارالافتاء البرکاتی علماء فاونڈیشن سرہا نیپال۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area