(سوال نمبر 2024)
دیوبندی لڑکی جو اکابر دیابنہ کے عقائد و حقائق سے نا آشنا ہے، اس سے نکاح کرنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السّلام علیکم ورحمت اللہ تعالیٰ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کِرام و مفتیانِ عظام مسئلہ ذیل کے تحت
کہ زید سنی صحیح العقیدہ مسلمان ہے مگر زید جس سے نکاح کرنا چا رہاہے وہ دیابنہ ہے مگر نام کے دیوبندی ہے اکابر دیابنہ کے حقائق سے نا آشنا ہے،
زید یہ کرنا چا رہا ہے کہ سنی عالم دین سے نکاح پڑھوا لے اور گواہان سنی حضرات ہو جائے،،تو اِس صورت میں نکاح منعقد ہوگا یا نہیں؟
جواب عنایت فرمائیے کرم نوازش ہوگی فقط والسّلام مع الاحترام
نوٹ شام 6 تک اگر جواب سے عطاء فرمائیے کرم ازبالائے کرم ہوگا
العارض:- محمد اکمل رضا رشیدی ویسٹ بنگال الہند
.....................................
نحمده و نصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل
الاول۔۔۔احوط یہی ہے کہ اس سے بچانے ۔
الثانی ۔اس لڑکی کو ضروریات دینیہ اور عقائد دیابنہ و وہابیہ بتایا جائے اور حسام الحرمین کی عبارت پڑھ کر سنایا جائے اگر ان کے عقائد کو باطل قرار دے اور اپنے آپ کو ان عقائد باطلہ سے بری جانے ۔اور اہل سنت و جماعت کے عقائد کا اقرار کرے پھر اس لڑکی سے نکاح کرنے اور سنی گواہ کے ہونے اور سنی کا نکاح پڑھانے میں کوئی حرج نہیں ہے اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہے پھر تو وہ خارج از اسلام ہے پھر شادی کرنا سنی کا نکاح پڑھانا سنی کا گواہ بننا جائز نہیں ہے کہ نکاح ہی منعقد نہیں ہوگا ۔
کیونکہ ایمان سے زیادہ عزیز مسلمان کے نزدیک کوئی چیز نہیں اور ہونی بھی نہیں چاہئے
اور ایمان، ﷲ و رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی ہر بات پر کامل تیقن اور محبت و تعظیم کا نام ہے۔ ایمان کے ساتھ جس میں جتنے فضائل پائے جائیں وہ اُسی قدر زیادہ فضیلت رکھتا ہے، اور ایمان نہیں تو اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم و مسلمانوں کے نزدیک وہ کچھ وقعت نہیں رکھتا ، اس لئے اس دیوبندی لڑکا کا عقیدہ،کیا ہے؟
پہلے یہ دیکھا جائے ،
کیونکہ سارے دیوبندی وہابی کافر و مرتد نہیں ہے، جب تک بالتحقیق معلوم نہ ہو جائے کہ وہ ضروریات دینیہ اور حسام الحرمین کا منکر ہے ۔یا نہیں؟
جیسا کہ شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔
دیوبندی عوام جو دیوبندی بزرگوں کی کفریہ عبارات سے باخبر نہیں ہے اور انکی ظاہری حالت کو دیکھ کر یا کسی اور وجہ سےان کو اپنا بزرگ اور پیشوا مانتے ہیں وہ کافر نہیں ہیں۔ مفتی شریف الحق امجدی صاحب مزید لکھتے ہیں زیادہ تر دیوبندی عوام اسی طرح کے ہیں ۔
(فتاوی شارح بخاری ،جلد سوم ،ص ۳۳۰ ناشر دائرۃ البرکات ،گھوسی ،ضلع مئو ،جون ۲۰۱۳)
اس لئے پہلے یہ دیکھا جائے کہ اس لڑکا کا عقیدہ کیا ہے؟
آیا وہ ضروریات دین کا انکاری ہے یا نہیں ۔اور وہ یہ ہے ۔ توحید، رسالت، آخرت،
جملہ انبیاء و رسل و ملائک، حشر و نشر، جنت و جہنم، ختمِ نبوت، نماز، روزہ حج، زکوٰۃ یا کسی شخصیت میں صفاتِ الوہیت کا قائل ہو، قرآنِ کریم تحريف شدہ مانتا ہو، کسی صحابی کی صحبتِ رسول یا عدالتِ صحابہ کا منکر ہو، امہات المؤمنین میں سے کسی پر تبرا کرے، یا نذر و نیاز‘ مزارات پر حاضری‘ انبیاء و الیاء کا توسل‘ ندائے یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘ انعقادِ محافلِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کفر و شرک کہتا ہو تو ایسے مرد یا عورت کے ساتھ کسی مسلمان مرد و عورت کا نکاح منعقد ہی نہیں ہوتا۔ اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہے تو نکاح جائز ہے ۔
اعلی حضرت رضی اللہ عنہ نے دیابنہ و وہابیہ کو پہچاننے کا آسان فارمولہ عطا فرمایا ہے کہ اسے حسام الحرمین کی عبارت دیکھا یا جائے یا پڑھ کر سنا یا جا ئے اگر قبول کر لے فبہا اور اگر قبول نہ کریں پس یہ عقدہ عیاں ہے کہ اصلی ہے۔
اعلی حضرت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
ایسی جگہ تو یہ سوال کرنا چاہیے کہ رشید احمد گنگوہی و اشرف علی تھانوی و قاسم نانوتوی اور محمود حسن دیوبندی و خلیل احمد انبیٹھی اور ان سب سے گھٹ کر ان کے امام اسمعیل دہلوی اور ان کی کتابوں براہین قاطعہ وتحذیر الناس وحفظ الایمان و تقویۃ الایمان و ایضاح الحق کو کیسا جانتے ہو؟ اور ان لوگوں کی نسبت علمائے حرمین شریف نے جو فتوے دیئے ہیں انہیں باطل سمجھتے ہو یا حق مانتے ہو؟ اور اگر وہ ان فتوؤں سے اپنی ناواقفی ظاہر کرے تو بریلی مطبع اہلسنت سے حسام الحرمین منگالیجئے اور دکھائیے اگر بکشادہ پیشانی تسلیم کرے کہ بیشک علمائے حرمین شریفین کے یہ فتوے حق ہیں تو ثابت ہوگا کہ دیوبندیت کا اُس پر کچھ اثر نہیں ورنہ علمائے حرمین شریفین کا وہی فتوٰی ہے کہ: من شک فی عذابہ وکفرہ فقد کفر ۔
جو اس کے عذاب اور کفر میں شک کرے وہ بھی کافر ہے۔ اس وقت آ پ کو ظاہر ہوجائے گا کہ جو شخص اللہ و رسول کو گالیاں دینے والوں کو کافر نہ جاننا درکنار علمائے دین واکابر مسلمین جانے وہ کیونکر مسلمان، پھر مسئلہ عرس وفاتحہ و فرعی مسائل ہے ،
(2)حسام الحرمین مکتبہ نبویہ لاہور ص ۱۳) (فتاوی رضویہ ج 29 ص 33)
اور احوط یہی ہے کہ ان سے دور رہا جائے ۔۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
دیوبندی لڑکی جو اکابر دیابنہ کے عقائد و حقائق سے نا آشنا ہے، اس سے نکاح کرنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السّلام علیکم ورحمت اللہ تعالیٰ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کِرام و مفتیانِ عظام مسئلہ ذیل کے تحت
کہ زید سنی صحیح العقیدہ مسلمان ہے مگر زید جس سے نکاح کرنا چا رہاہے وہ دیابنہ ہے مگر نام کے دیوبندی ہے اکابر دیابنہ کے حقائق سے نا آشنا ہے،
زید یہ کرنا چا رہا ہے کہ سنی عالم دین سے نکاح پڑھوا لے اور گواہان سنی حضرات ہو جائے،،تو اِس صورت میں نکاح منعقد ہوگا یا نہیں؟
جواب عنایت فرمائیے کرم نوازش ہوگی فقط والسّلام مع الاحترام
نوٹ شام 6 تک اگر جواب سے عطاء فرمائیے کرم ازبالائے کرم ہوگا
العارض:- محمد اکمل رضا رشیدی ویسٹ بنگال الہند
.....................................
نحمده و نصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل
الاول۔۔۔احوط یہی ہے کہ اس سے بچانے ۔
الثانی ۔اس لڑکی کو ضروریات دینیہ اور عقائد دیابنہ و وہابیہ بتایا جائے اور حسام الحرمین کی عبارت پڑھ کر سنایا جائے اگر ان کے عقائد کو باطل قرار دے اور اپنے آپ کو ان عقائد باطلہ سے بری جانے ۔اور اہل سنت و جماعت کے عقائد کا اقرار کرے پھر اس لڑکی سے نکاح کرنے اور سنی گواہ کے ہونے اور سنی کا نکاح پڑھانے میں کوئی حرج نہیں ہے اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہے پھر تو وہ خارج از اسلام ہے پھر شادی کرنا سنی کا نکاح پڑھانا سنی کا گواہ بننا جائز نہیں ہے کہ نکاح ہی منعقد نہیں ہوگا ۔
کیونکہ ایمان سے زیادہ عزیز مسلمان کے نزدیک کوئی چیز نہیں اور ہونی بھی نہیں چاہئے
اور ایمان، ﷲ و رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی ہر بات پر کامل تیقن اور محبت و تعظیم کا نام ہے۔ ایمان کے ساتھ جس میں جتنے فضائل پائے جائیں وہ اُسی قدر زیادہ فضیلت رکھتا ہے، اور ایمان نہیں تو اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم و مسلمانوں کے نزدیک وہ کچھ وقعت نہیں رکھتا ، اس لئے اس دیوبندی لڑکا کا عقیدہ،کیا ہے؟
پہلے یہ دیکھا جائے ،
کیونکہ سارے دیوبندی وہابی کافر و مرتد نہیں ہے، جب تک بالتحقیق معلوم نہ ہو جائے کہ وہ ضروریات دینیہ اور حسام الحرمین کا منکر ہے ۔یا نہیں؟
جیسا کہ شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔
دیوبندی عوام جو دیوبندی بزرگوں کی کفریہ عبارات سے باخبر نہیں ہے اور انکی ظاہری حالت کو دیکھ کر یا کسی اور وجہ سےان کو اپنا بزرگ اور پیشوا مانتے ہیں وہ کافر نہیں ہیں۔ مفتی شریف الحق امجدی صاحب مزید لکھتے ہیں زیادہ تر دیوبندی عوام اسی طرح کے ہیں ۔
(فتاوی شارح بخاری ،جلد سوم ،ص ۳۳۰ ناشر دائرۃ البرکات ،گھوسی ،ضلع مئو ،جون ۲۰۱۳)
اس لئے پہلے یہ دیکھا جائے کہ اس لڑکا کا عقیدہ کیا ہے؟
آیا وہ ضروریات دین کا انکاری ہے یا نہیں ۔اور وہ یہ ہے ۔ توحید، رسالت، آخرت،
جملہ انبیاء و رسل و ملائک، حشر و نشر، جنت و جہنم، ختمِ نبوت، نماز، روزہ حج، زکوٰۃ یا کسی شخصیت میں صفاتِ الوہیت کا قائل ہو، قرآنِ کریم تحريف شدہ مانتا ہو، کسی صحابی کی صحبتِ رسول یا عدالتِ صحابہ کا منکر ہو، امہات المؤمنین میں سے کسی پر تبرا کرے، یا نذر و نیاز‘ مزارات پر حاضری‘ انبیاء و الیاء کا توسل‘ ندائے یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘ انعقادِ محافلِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کفر و شرک کہتا ہو تو ایسے مرد یا عورت کے ساتھ کسی مسلمان مرد و عورت کا نکاح منعقد ہی نہیں ہوتا۔ اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہے تو نکاح جائز ہے ۔
اعلی حضرت رضی اللہ عنہ نے دیابنہ و وہابیہ کو پہچاننے کا آسان فارمولہ عطا فرمایا ہے کہ اسے حسام الحرمین کی عبارت دیکھا یا جائے یا پڑھ کر سنا یا جا ئے اگر قبول کر لے فبہا اور اگر قبول نہ کریں پس یہ عقدہ عیاں ہے کہ اصلی ہے۔
اعلی حضرت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
ایسی جگہ تو یہ سوال کرنا چاہیے کہ رشید احمد گنگوہی و اشرف علی تھانوی و قاسم نانوتوی اور محمود حسن دیوبندی و خلیل احمد انبیٹھی اور ان سب سے گھٹ کر ان کے امام اسمعیل دہلوی اور ان کی کتابوں براہین قاطعہ وتحذیر الناس وحفظ الایمان و تقویۃ الایمان و ایضاح الحق کو کیسا جانتے ہو؟ اور ان لوگوں کی نسبت علمائے حرمین شریف نے جو فتوے دیئے ہیں انہیں باطل سمجھتے ہو یا حق مانتے ہو؟ اور اگر وہ ان فتوؤں سے اپنی ناواقفی ظاہر کرے تو بریلی مطبع اہلسنت سے حسام الحرمین منگالیجئے اور دکھائیے اگر بکشادہ پیشانی تسلیم کرے کہ بیشک علمائے حرمین شریفین کے یہ فتوے حق ہیں تو ثابت ہوگا کہ دیوبندیت کا اُس پر کچھ اثر نہیں ورنہ علمائے حرمین شریفین کا وہی فتوٰی ہے کہ: من شک فی عذابہ وکفرہ فقد کفر ۔
جو اس کے عذاب اور کفر میں شک کرے وہ بھی کافر ہے۔ اس وقت آ پ کو ظاہر ہوجائے گا کہ جو شخص اللہ و رسول کو گالیاں دینے والوں کو کافر نہ جاننا درکنار علمائے دین واکابر مسلمین جانے وہ کیونکر مسلمان، پھر مسئلہ عرس وفاتحہ و فرعی مسائل ہے ،
(2)حسام الحرمین مکتبہ نبویہ لاہور ص ۱۳) (فتاوی رضویہ ج 29 ص 33)
اور احوط یہی ہے کہ ان سے دور رہا جائے ۔۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
28/2/2021