Type Here to Get Search Results !

اللہ آسمان میں ہے اس روایت کی تفہیم

 اللہ آسمان میں ہے اس روایت کی تفہیم
________(❤️)_________
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ 
نبی کریم ﷺ نے ایک لونڈی سے فرمایا ،اللہ کہاں ہے۔تو اس لونڈی نے جواب دیا آسمان میں۔سوال یہ ہے اس حدیث کو دلیل بنا کر اللہ آسمان میں ہے کہنا جائز ہوگا یا نہیں، اور اس حدیث کا مطلب کیا ہے کہ اللہ آسمان میں ہے ،بینوا و توجروا 
سائل:- سگ عطار
________(❤️)_________
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
الجواب ھو الھادی الی الصواب:-
اللہ عزوجل کو آسمان میں ماننا
یا اللہ کے لیۓ کوئی جگہ مقرر کرنا یہ کفر ہے۔ اللہ کریم کو اگر آسمان میں مانا جائے تو اللہ کو جسم والا تسلیم کرنا پڑیگا۔ کیوں کہ اللہ کے لیۓ مکان جہت ثابت کرتے ہی جسمانیت کے تمام پہلو غیر شعوری طور پر پیدا ہوجاتے ہے۔
(1) اللہ خالق ہے اور آسمان مخلوق ، خالق ازل سے ہے، اگر اللہ کو آسمان میں مانا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے، جب آسمان نہیں تھا تو اللہ کہاں تھا،۔
(2) آسمان میں اللہ کے ہونے کی تین صورتیں ہیں، 
الف، اللہ عرش کے محاذات میں ہوگا
ب، اسمان سے متجاوز ہو گا،
ج، عرش سے کم ہوگا
اگر آسمان کے محاذات میں مانیں، تو آسمان چونکہ محدود ہے، اللہ عزوجل کا محدود ہونا لازم آئے گا، متجاوز مانیں تو اللہ کی تجزی لازم آئے گی، آسمان سے کم مانیں تو آسمان مخلوق ہے ، اللہ خالق ہے، تو خالق سے مخلوق کو بڑا ہونا لازم آئےگا، جبکہ یہ تینوں صورتیں ناممکن محال ہیں۔،
(3) اللہ خالق ہے غیر محدود آسمان مخلوق ہے جو کہ محدود ہے،
اگر اللہ کو آسمان میں مانا جائے تو سوال پیدا ہوگا، کیا غیر محدود،محدود میں سما سکتا ہے، 
4، اگر اللہ کو حقیقتا اسمان پر مانیں، تو آسمان اللہ کے لیۓ مکان ہوگا، اللہ مکین ہوگا، اور ضابطہ یہ ہے مکان مکین سے بڑا ہوتا ہے اس عقیدہ سے اللہ اکبر والا عقید ٹوٹ جائےگا
5، اگر اللہ کا آسمان پر ہونا مانیں تو جہت فوق لازم آئےگی اور جہت کو حد بندی لازم ہے , اور حد بندی کو جسم لازم ہے، جبکہ اللہ جسم سے پاک ہے ،
6، اگر اللہ کو فوق اسمان مانیں تو اسمان اس کے لئے مکان ہوگا اور مکان مکین کو محیط ہوتا ہے جبکہ قران کریم میں ہے 
و کان اللہ بکل شیء محیطا ترجمہ اللہ ہر چیز کو محیط ہے۔
عبد القہر بن طاہر البغدادی رحمہ اللہ المتفی 439 ھ) 
فرماتے ہیں، و اجمعوا علی انہ لا یجریہ مکان ولا یجری علیہ زمان، ۔ترجمہ
اس پر اجماع ہے کہ اللہ کو کسی مکان نے گھیرا نہیں ہے نہ اس پر زمان یعنی وقت کا گزر ہوتا ہے۔
امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
این اللہ تعالی فقال یقال لہ کان اللہ تعالی ولا مکان قبل ان یخلق الخلق و کان اللہ تعالی و لم یکن این ولا ولا خلق کل شیء۔ (فقہ اکبر) 
ترجمہ ۔، جب تم میں سے کوئ معلوم کرے اللہ کی ذات کہاں ہے، تو اس سے کہو اللہ وہیں ہے جہاں مخلوق کی تخلیق سے پہلے کوئ مکان نہیں تھا،
صرف اللہ موجود تھا اور وہی اس وقت موجود تھا جب مکان نام کی مخلوق کی کوئ شیء نہیں تھی۔،
جس روایت کے متعلق اپ نے سوال کیا وہ روایت یہ ہے،
عن معاوية بن الحكم السلمي، قال: قلت:" يا رسول الله، جارية لي صككتها صكة، فعظم ذلك علي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: افلا اعتقها؟، قال: ائتني بها، قال: فجئت بها، قال: اين الله؟، قالت: في السماء، قال: من انا؟، قالت: انت رسول الله، قال: اعتقها، فإنها مؤمنة".
معاویہ بن حکم سلمی کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میری ایک لونڈی ہے میں نے اسے ایک تھپڑ مارا ہے، تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تھپڑ کو عظیم جانا، تو میں نے عرض کیا: میں کیوں نہ اسے آزاد کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے میرے پاس لے آؤ“ میں اسے لے کر گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”اللہ کہاں ہے؟“ اس نے کہا: آسمان کے اوپر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (پھر) پوچھا: ”میں کون ہوں؟“ اس نے کہا: آپ اللہ کے رسول ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے آزاد کر دو، یہ مومنہ ہے“۔(صحیح مسلم حدیث نمبر 1199)
اس روایت کو بنیاد بناکر اس سے یہ عقیدہ نہیں بنایا جا سکتا ہے کہ اللہ آسمان پر ہے اس روایت کو محدثین نے معلول اور شاذ قرار دیا ہے
(1) اس روایت کے بارے میں امام بیہقی فرماتے ہیں، یہ روایت مضطرب ہے
( کتاب الاسماء و الصفات)
(2) حافظ ابن حجر اس کے اضطراب کی نشان دہی کرتے ہوۓ فرماتے ہے و فی اللفظ 
مخالفتہ کثیرتہ
کہ متن حدیث کے لفظ میں بکثرت اختلاف پایا جاتا ہے (التلخیص)
(3) امام بزار نے بھی اس کے اضطراب کی نشان دہی کرتے ہوۓ یہی فرمایا حدیث کو مختلف الفاظ کے ساتھ روایت کیا گیا ہے،۔
(4) علامہ زاہر الکوثر نے بھی اس پر اضطراب کا حکم لگایا ہے۔
(5) نیز نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کتنے لوگ حاضر ہوکر ایمان لائے ہیں، لیکن کسی سے بھی یہ سوال نبی کریم نے نہیں کیا جو اس حدیث میں ذکر ہے، یہ اس بات کی واضح دلیل ہے اس سوال کا ایمان کی حقیقت سے کوئ تعلق نہیں بلکہ فقط باندی کا امتحان لینا مقصود تھا، کہ مشرک ہے یا موحدہ۔
خلاصہ یہ ہے کہ ایک شاذ اور معلول روایت سے، عقیدہ کا استنباط نہیں کیا جا سکتا اور ایسی شاذ روایت کو بنیاد بناکر اللہ کو آسمان میں مان لینا گمراہیت ہے۔ بالفرض اس روایت کو صحیح تسلیم کرلیا جائے تو یہ سوال اللہ کہاں ہے، اللہ کے مکان کے لئے نہیں بلکہ منزلت اور مرتبہ کے لئے ہوگا ،یعنی ہمارے اللہ کا مرتبہ کیا ہے یا یہ کے اللہ کے احکام و اوامر کا مکان کونسا ہے وغیرہ۔
خلاصہ کلام یہ ہے اللہ جہت مکان سے پاک ہے، کوئ پوچھے اللہ کہاں ہے تو جواب میں یہ کہنا چاہیے ھو موجد بلا مکان کہ اللہ تعالی بغیر مکان کے موجود ہے 
واللہ  ورسولہ اعلم بالصواب 
 ________(❤️)_________
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد دانش حنفی
صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی 
ہلدوانی نینیتال:- 9917420179

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area