Type Here to Get Search Results !

اہل حدیث کے مدرسہ جس میں دینی و دنیاوی تعلیم ہوں اس میں بچوں کو تعلیم دلوانا کیسا ہے ؟

 (سوال نمبر 2072)
اہل حدیث کے مدرسہ جس میں دینی و دنیاوی تعلیم ہوں اس میں بچوں کو تعلیم دلوانا کیسا ہے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ
ایک بندہ ہے وہ اہل حدیث ہے اور اس نے ایک مدرسہ کھول رہا ہے جس میں اس کا کہنا ہے کہ یہاں بچے فری تعلیم حاصل کریں گے پہلی کلاس سے لے کر دسویں کلاس تک دینی اور دنیاوی اور ان کو وظیفہ بھی ملے گا اب جو لوگ یہاں اہل سنت والجماعت سے تعلق رکھتے ہیں ان کے لیے شریعت کا کیا حکم ہے؟ اور جو حنفی مسلک سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں اگر وہاں بچوں کو تعلیم دینے کے لئے بھیجیں گے تو ایسے لوگوں کے لیے شریعت کا کیا حکم ہے؟ حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:- مصرف احمد راجوری جموں کشمیر انڈیا
.....................................
نحمده و نصلي على رسوله الأمين 
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالى عز وجل 

مذکورہ صورت میں اہل سنت و جماعت کا مدرسہ اس علاقے میں موجود ہو تو اہل حدیث کے مدرسہ میں بچوں کو تعلیم دلوانا جائز نہیں ہے جبکہ مدرسہ کے مدرسین و منتظمین کے عقائد. باطلہ و کفریہ ہوں 
اور اگر وہابی مدرسہ کے متبادل اس علاقے میں کوئی دینی و دنیاوی اس طرح کا مدرسہ نہ ہوں تو مدرسہ کا نصاب چک کر لیں وہ سب دینی کتب جس میں گمرہی ہے جن عقائد خاصہ کا ذکر اعلی حضرت رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے پھر وہاں بچوں کی تعلیم دلوانا جائز نہیں اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہے پھر تعلیم دلوا سکتے ہیں کہ زیادہ دنیاوی کتب ہوگی کچھ کتب دینی ہوگی جسے آپ چک کر لئے ہوں گے ۔
واضح رہے کہ اگر مدرسہ میں 
مولوی یا حافظ عقیدتا دیوبندی ہو ،یعنی حسام الحرمین کی زد میں ہوں 
 اس سے علوم دینیہ حاصل کرنا اور سنیوں کے بچوں كو قرآن حکیم سیکھنا سکھوانا پڑھنا پڑھوانا از روے شرع درست نہیں ہے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے ان ھذا العلم دین فانظروا عمن تاخذون دینکم ۔
 پہلے ان لوگوں کو عقیدتا دیکھ لو جن سے اپنے دین کو لیتے اور سیکھتے ہو ۔
(مشکوة شریف ،ج: ٢، كنزالعمال، ج:١٠)
اعلی حضرت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں 
دیوبندیوں کے عقائد تو وہ ہیں جن کی نسبت علمائے حرمین شریفین نے بالاتفاق تحریر فرمایا ہے کہ۔من شک فی عذابہ و کفرہ فقد کفر 
جوان کے اقوال پر مطلع ہو کر ان کے عذاب اور کفر میں شک کرے وہ بھی کافر ہے۔
(حسام الحرمین مکتبہ نبویہ لاہور ص۱۳)
ایسی جگہ تو یہ سوال کرنا چاہیے کہ رشید احمد گنگوہی و اشرف علی تھانوی و قاسم نانوتوی اور محمود حسن دیوبندی و خلیل احمد انبیٹھی اور ان سب سے گھٹ کر ان کے امام اسمعیل دہلوی اور ان کی کتابوں براہین قاطعہ وتحذیر الناس وحفظ الایمان و تقویۃ الایمان و ایضاح الحق کو کیسا جانتے ہو اور ان لوگوں کی نسبت علمائے حرمین شریف نے جو فتوے دیئے ہیں انہیں باطل سمجھتے ہو یا حق مانتے ہو اور اگر وہ ان فتوؤں سے اپنی ناواقفی ظاہر کرے تو بریلی مطبع اہلسنت سے حسام الحرمین منگالیجئے اور دکھائیے اگر بکشادہ پیشانی تسلیم کرے کہ بیشک علمائے حرمین شریفین کے یہ فتوے حق ہیں تو ثابت ہوگا کہ دیوبندیت کا اُس پر کچھ اثر نہیں ورنہ علمائے حرمین شریفین کا وہی فتوٰی ہے کہ
من شک فی عذابہ وکفرہ فقد کفر 
جو اس کے عذاب اور کفر میں شک کرے وہ بھی کافر ہے۔ اس وقت آپ کو ظاہر ہوجائے گا کہ جو شخص اللہ و رسول کو گالیاں دینے والوں کو کافر نہ جاننا درکنار علمائے دین واکابر مسلمین جانے وہ کیونکر مسلمان، پھر مسئلہ عرس وفاتحہ و فرعی مسائل کا اس کے سامنے ذکر کیا ہے
(2)حسام الحرمین مکتبہ نبویہ لاہور ص ۱۳)(فتاوی رضویہ ج 29 ص 33)
واضح رہے کہ اعلی حضرت رضی اللہ عنہ کا مذکورہ جواب اس ندوہ کے فاضل عالم کے بابت ہے کہ اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں خلاصہ جواب کفریہ عبارت اصل ہے باقی فروعی مسائل ہے۔  حتی الامکان ان کے مدارس سے بچنے ہی میں مفاد ہے 
پھر گھر میں بچے کو ان کے عقائد بھی بتاتے رہیں اگر اس مدرسے میں ڈالنا ہو مذکورہ شرائط کے ساتھ ۔ہذا ما ظہر لی۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
١٤/٣/٢٠٢٢

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area