Type Here to Get Search Results !

کیا زنا قرض ہے یعنی زید اگر کسی کی بہن کے ساتھ زنا کیا تو زید کی بہن سے ادا کیا جائے گا

(سوال نمبر 4010)
کیا زنا قرض ہے یعنی زید اگر کسی کی بہن کے ساتھ زنا کیا تو زید کی بہن سے ادا کیا جائے گا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس حدیث کے حوالے سے کہ  کیا زنا قرض ہے یعنی زید اگر کسی کی بہن کے ساتھ زنا کیا تو زید کی بہن سے ادا کیا جائے گا؟
 یہ حدیث کہاں تک درست ہے حوالہ کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی
سائل:- غلام یزدانی مرکزی بریلی شریف یوپی انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عزوجل
جو جیسا عمل کرے گا اس کا اجر و ثواب اور گناہ و سزا  اسی کے سر ہے 
مذکورہ باتیں حدیث نہیں ہے بلکہ ہمارے اکابرین کے اقوال ہیں ۔زنا سے دوری اور نفرت کے لیے ہمارے اکابرین نے زنا کو قرض سے تعبیر کئے ہیں پر یہ حدیث نہیں ہے اور نہ الفاظ حدیث یے ۔زنا کی مذمت اور زنا سے دوری بنا نے کے لیے  زنا کو قرض قرار دیا گیا ہے  تاکہ زنا کی طرف متوجہ ہونے والا اپنی عورتوں کی پاک دامنی کا خیال کرتے ہوئے زنا کا ارادہ ترک کردے۔ 
یاد رہے کہ ایک  شخص کے گناہ میں مبتلا ہونے کی نحوست سے اس کے گھر کی عورتیں بھی اس میں مبتلا ہوں۔میری سمجھ میں تو یہی بات ارہی ہے ۔
زنا ایک قرض ہے یہ مقولہ امام شافعی رحمہ اللہ کا ہے جو ان کے دیوان الشافعی ص ٨٤، طبع: مؤسسة علاء الدين
میں موجود ہے، الفاظ اس کے یہ ہیں
عفوا تعف نساوٴکم في المحرم
وتجنبوا ما لا یلیق۔۔۔۔۔۔ بمسلم
إن الزنا دین فإن۔۔۔۔۔۔۔۔۔ أقرضتہ
کان الوفا من أھل بیتک۔۔ فاعلم
پاکدامن رہو رہو تمہاری عورتیں پاک دامن رہیں گی جو باتیں مسلمان کو زیب نہیں دیتیں ان سے کنارہ کش رہو، بلاشبہ زنا ایک قرض ہے اگر تم اس قرض میں مبتلا ہوئے ہو تو یاد رکھو اس قرض کی ادائیگی بھی تمہارے گھر ہی سے ہوگی
نیز ان اشعار کا مضمون صحیح ہے حدیث مبارک سے بھی اس مضمون کی تائید ہوتی ہے چنانچہ المعجم الکبیر للطبرانی ۱۱/۱۷۳ میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی ایک طویل روایت ہے، جس میں نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے عفوا تعف نساوٴکم
پاک دامن رہو تمھاری عورتیں پاک دامن رہیں گی۔
اور بھی دیگر اقوال ہوں گے
حضرت ابوامامہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی ﷺ سے اجازت طلب کی۔ راوی کہتے ہیں کہ نبی ﷺ کے قریب بیٹھے ہوئے افراد نے اس کو پکڑنے کی کوشش کی نبی ﷺ نے فرمایا تم اسے چھوڑ دو۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا قریب ہوجاؤ، کیا آپ کو یہ پسند ہے کہ آپ کی بہن سے زنا کیا جائے۔ میں نے کہا نہیں۔ آپ نے پوچھا: تیری بیٹی سے۔ راوی کہتے ہیں آپ بار بار اسے یہ کہتے رہے تو وہ ہر مرتبہ نفی میں جو اب دیتا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تو بھی ناپسند کر اس بات کو جس کو اللہ ناپسند کرتے ہیں۔ اور اپنے بھائی کے لیے بھی وہی پسند کر جو تو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ اس شخص نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ اللہ سے دعا کریں کہ اللہ مجھے عورتوں سے نفرت پیدا کر دے۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ اے اللہ! تو عورتوں کو اس کے لیے متنفر فرما۔ راوی کہتے ہیں کہ چند دنوں کے بعد وہ پھر واپس آیا۔ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ! عورتوں سے زیادہ بری چیز میرے نزدیک کوئی نہیں۔ آپ مجھے سیر و تفریح کی اجازت دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میری امت کی سیر و سیاحت جہاد فی سبیل اللہ میں ہے۔ (سنن کبریٰ للبیہقی)
_________(❤️)_________ 
والله ورسوله اعلم بالصواب
♦•••••••••••••••••••••••••♦ 
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان 18خادم دار الافتاء البرکاتی علماء فاونڈیشن ضلع سرہا نیپال
10/07/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area