(سوال نمبر 4002)
کیا آقا علیہ السلام نے کبھی اذان خود دی تھی یا نہیں؟
::----------------------------::
السلامُ علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین مفتیانِ عظام اس مسئلہ کے بارہ میں
کہ کیا پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی آذان تھی یا کہ نہیں اور اگر دی تھی تو کس موقع پر دی تھی اور اپنی حیات طیبہ میں کتنی مرتبہ دی تھی
مہربانی فرما کر مدلل جواب بحوالہ عنایت فرما کر شکریہ ادا کرنے کا موقع فراہم کیجئے جزاک اللّہ خیرا
سائل:- سید محمد آصف علی بخاری شاھدہ لاہور پنجاب پاکستان
::----------------------------::
نحمده و نصلي على رسوله الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عزوجل
آقا علیہ السلام نے ایک بار سفر میں اذان دی ہے
فتاویٰ رضویہ میں ہے
قال فی الدرمختار وفی الضیاء انه علیه الصّلاۃ والسّلام اذن فی سفر بنفسه وأقام وصلی الظھر وقد حققناہ فی الخزائن اھ قال فی ردالمحتار،حیث قال بعد ماھنا ھذا وفی شرح البخاری لابن حجر ومما یکثر السؤال عنه، ھل باشر النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیه وسلم الأذان بنفسه وقد أخرج الترمذی،انه صلی اللّٰہ تعالٰی علیه وسلم أذن فی سفر وصلی باصحابه وجزم به النووی وقواہ، ولکن وجد فی مسند احمد من ھذا الوجه فامر بلالاً فاذن فعلم ان فی روایة الترمذی اختصارا وان معنی قوله اذن امر بلالاً کما یقال اعطی الخلیفة العالم الفلانی کذا وانما باشر العطاء غیرہ اھ ورأیتنی کتبت فیما علقت علی رد المحتارما نصه اقول لکن سیأتی صفة الصلاۃعند عند ذکر التشھد عن تحفة الإمام إبن حجر المکی أنه صلی اللّٰه تعالٰی علیه وسلّم أذن مرّۃ فی سفر فقال فی تشھدہ اشھد انّی رسول اللّٰه وقد أشار إبن حجر الی صحته،وھذا نص مفسر لا یقبل التأویل،وبه یتقوٰی تقویة الإمام النووی رحمه اللّٰه تعالٰی اھ۔
مجھے اس بارے میں مزید جو سمجھ آئی اسے میں نے اپنے حاشیہ ر دالمحتار میں تحریر کیا ہے اور اسکے الفاظ یہ ہیں اقول: عنقریب صفاتِ نماز کے تحت ذکرِ تشہد میں تحفہ امام ابن حجر مکّی سے آرہا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے سفر میں ایک دفعہ اذان دی تھی اور کلماتِ شہادت یوں کہے اشہد انّی رسول ﷲ(میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اللہ کا رسول ہوں)اور ابنِ حجر نے اس کی صحت کی طرف اشارہ کیا ہے اور یہ نص مفسر ہے جس میں تاویل کی کوئی گنجائش نہیں اور اس سے امام نووی رحمہ اللہ تعالٰی کے قول کو اور تقویت ملتی ہے اھ۔ (فتاوی رضویہ شریف ج ۵ ص ۳۷۵ مطبوعہ رضا فائونڈیشن لاہور)
کیا آقا علیہ السلام نے کبھی اذان خود دی تھی یا نہیں؟
::----------------------------::
السلامُ علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین مفتیانِ عظام اس مسئلہ کے بارہ میں
کہ کیا پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی آذان تھی یا کہ نہیں اور اگر دی تھی تو کس موقع پر دی تھی اور اپنی حیات طیبہ میں کتنی مرتبہ دی تھی
مہربانی فرما کر مدلل جواب بحوالہ عنایت فرما کر شکریہ ادا کرنے کا موقع فراہم کیجئے جزاک اللّہ خیرا
سائل:- سید محمد آصف علی بخاری شاھدہ لاہور پنجاب پاکستان
::----------------------------::
نحمده و نصلي على رسوله الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عزوجل
آقا علیہ السلام نے ایک بار سفر میں اذان دی ہے
فتاویٰ رضویہ میں ہے
قال فی الدرمختار وفی الضیاء انه علیه الصّلاۃ والسّلام اذن فی سفر بنفسه وأقام وصلی الظھر وقد حققناہ فی الخزائن اھ قال فی ردالمحتار،حیث قال بعد ماھنا ھذا وفی شرح البخاری لابن حجر ومما یکثر السؤال عنه، ھل باشر النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیه وسلم الأذان بنفسه وقد أخرج الترمذی،انه صلی اللّٰہ تعالٰی علیه وسلم أذن فی سفر وصلی باصحابه وجزم به النووی وقواہ، ولکن وجد فی مسند احمد من ھذا الوجه فامر بلالاً فاذن فعلم ان فی روایة الترمذی اختصارا وان معنی قوله اذن امر بلالاً کما یقال اعطی الخلیفة العالم الفلانی کذا وانما باشر العطاء غیرہ اھ ورأیتنی کتبت فیما علقت علی رد المحتارما نصه اقول لکن سیأتی صفة الصلاۃعند عند ذکر التشھد عن تحفة الإمام إبن حجر المکی أنه صلی اللّٰه تعالٰی علیه وسلّم أذن مرّۃ فی سفر فقال فی تشھدہ اشھد انّی رسول اللّٰه وقد أشار إبن حجر الی صحته،وھذا نص مفسر لا یقبل التأویل،وبه یتقوٰی تقویة الإمام النووی رحمه اللّٰه تعالٰی اھ۔
مجھے اس بارے میں مزید جو سمجھ آئی اسے میں نے اپنے حاشیہ ر دالمحتار میں تحریر کیا ہے اور اسکے الفاظ یہ ہیں اقول: عنقریب صفاتِ نماز کے تحت ذکرِ تشہد میں تحفہ امام ابن حجر مکّی سے آرہا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے سفر میں ایک دفعہ اذان دی تھی اور کلماتِ شہادت یوں کہے اشہد انّی رسول ﷲ(میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اللہ کا رسول ہوں)اور ابنِ حجر نے اس کی صحت کی طرف اشارہ کیا ہے اور یہ نص مفسر ہے جس میں تاویل کی کوئی گنجائش نہیں اور اس سے امام نووی رحمہ اللہ تعالٰی کے قول کو اور تقویت ملتی ہے اھ۔ (فتاوی رضویہ شریف ج ۵ ص ۳۷۵ مطبوعہ رضا فائونڈیشن لاہور)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال