(سوال نمبر 202)
ظہر اور عصر میں قرأت آہستہ کیوں کرتے ہیں ؟
:----------------------------------:
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
حضرت فجر مغرب اور عشاء میں جہری اور ظہر عصر میں سرّی نماز کیوں پڑھتے ہیں حدیث شریف مع کتاب کے حوالہ کےساتھ جواب عنایت فرمائیں بڑی مہربانی ہوگی۔
سائل:- محمد رمضان رضوی
-------------------------------------
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونہ تعالیٰ عزوجل
مسلئہ مسئولہ کچھ تفصیل یوں ہے،کہ صحابہ کرام جب نماز پڑھتے اور تلاوت کرتے تو کافر شور و غل کرتے اس لئے حکم ہوا کہ دن کی نماز میں تلاوت آہستہ کی جائے تاکہ کفار اللہ و رسول کی اہانت نہ کریں رات کے اوقات میں کفار کو عبادت کی خبر نہیں ہوتی تو رات کی نماز میں بالجہر تلاوت کی جاتی،
امام قرطبی نے اس آیت ولا تجھر بصلاتک ولا تخافت بھا کی تفسیر میں اسی طرح فرما ہے
دوسری بات یہ کہ اس کی جو حکمت ومصلحت بیان کی گئی ہے وہ یہ کہ قرآن میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا :
وَلاَ تَجْهَرْ بِصَلاَتِكَ وَلاَ تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلاً
(الْإِسْرَاء - - بَنِيْ إِسْرَآءِيْل، 17 : 110)
اور نہ اپنی نماز (میں قرات) بلند آواز سے کریں اور نہ بالکل آہستہ پڑھیں اور دونوں کے درمیان (معتدل) راستہ اختیار فرمائیں
ہمیں درمیانی راستہ اپنانے کا حکم دیا گیا کیونکہ شروع میں جب مسلمان نماز پڑھتے تو ساری نمازوں میں اونچی آواز سے قرات کرتے تھے اور کفار کو یہ پسند نہ تھا لہذا وہ مسلمانوں کے قریب آ کر شور وغل کرتے، سیٹیاں بجاتے اور مسلمانوں کو نماز ادا نہیں کرنے دیتے۔ اللہ اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں نازیبا کلمات کہتے، گستاخی کرتے اور توہین کرتے تھے۔ اس لئے اللہ تعالی نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ نہ تو اتنی اونچی آواز میں پڑھو کہ کفار سن کر بے ادبی وگستاخی کریں اور نہ اتنا آہستہ پڑھو کہ تم خود بھی نہ سن سکو۔ لہذا درمیانی آواز میں قرات کر لیا کرو۔
تیسری بات یہ کہ فجر اور عشاء کے وقت کفار سوئے ہوتے تھے اور مغرب کے وقت کھانے پینے میں مشغول ہوتے تھے اس لئے ان تین اوقات میں حکم دیا کہ جہرا ًنماز ادا کی جائے کیونکہ کفار ان اوقات میں کھانے پینے اور سونے میں مشغول ہوتے ہیں مسلمانوں کو تنگ نہیں کر سکتے، لہذا جہرا نماز کا حکم دیا گیا۔ ظہر اور عصر کے وقت کفار دن بھر گھومتے رہتے تھے۔ اس لئے ان نمازوں میں آہستہ آواز سے پڑھنے کا حکم دیا تاکہ کفار مسلمانوں کو تنگ نہ کر سکیں اور قرات کی آواز سن کر سیٹیاں اور شور وغل نہ کر سکیں۔
حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (ص: 253)
والأصل في الجهر والإسرار أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يجهر بالقراءة في الصلوات كلها في الإبتداء، وكان المشركون يؤذونه، ويقولون لأتباعم: إذا سمعتموه يقرأ فارفعوا أصواتكم بالأشعار والأراجيز وقابلوه بكلام اللغو، حتى تغلبوه فيسكت، ويسبون من أنزل القرآن، ومن أنزل عليه، فأنزل الله تعالى: ﴿وَلَا تَجْهَرْ بِصَلاتِكَ وَلا تُخَافِتْ بِهَا﴾ (الإسراء: 110) أي لا تجهر بصلاتك كلها، ولا تخافت بها كلها، وابتغ بين ذلك سبيلاً: بأن تجهر بصلاة الليل، وتخافت بصلاة النهار، فكان بعد ذلك يخافت في صلاة الظهر والعصر؛ لاستعدادهم بالإيذاء فيهما، ويجهر في المغرب؛ لاشتغالهم بالأكل، وفي العشاء والفجر؛ لرقادهم، وفي الجمعة والعيدين؛ لأنه أقامهما بالمدينة، وما كان للكفار قوة. (وقوله: وفي العشاء والفجر؛ لرقادهم) وجهه في الفجر ظاهر، وفي العشاء أن السنة تأخيرها إلى ثلث الليل، وهذا إنما يظهر في زمن الشتاء، أما في غيره فالعذر فيها كالمغرب فيما يظهر"(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (1/ 160)
حضرت فجر مغرب اور عشاء میں جہری اور ظہر عصر میں سرّی نماز کیوں پڑھتے ہیں حدیث شریف مع کتاب کے حوالہ کےساتھ جواب عنایت فرمائیں بڑی مہربانی ہوگی۔
سائل:- محمد رمضان رضوی
-------------------------------------
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونہ تعالیٰ عزوجل
مسلئہ مسئولہ کچھ تفصیل یوں ہے،کہ صحابہ کرام جب نماز پڑھتے اور تلاوت کرتے تو کافر شور و غل کرتے اس لئے حکم ہوا کہ دن کی نماز میں تلاوت آہستہ کی جائے تاکہ کفار اللہ و رسول کی اہانت نہ کریں رات کے اوقات میں کفار کو عبادت کی خبر نہیں ہوتی تو رات کی نماز میں بالجہر تلاوت کی جاتی،
امام قرطبی نے اس آیت ولا تجھر بصلاتک ولا تخافت بھا کی تفسیر میں اسی طرح فرما ہے
دوسری بات یہ کہ اس کی جو حکمت ومصلحت بیان کی گئی ہے وہ یہ کہ قرآن میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا :
وَلاَ تَجْهَرْ بِصَلاَتِكَ وَلاَ تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلاً
(الْإِسْرَاء - - بَنِيْ إِسْرَآءِيْل، 17 : 110)
اور نہ اپنی نماز (میں قرات) بلند آواز سے کریں اور نہ بالکل آہستہ پڑھیں اور دونوں کے درمیان (معتدل) راستہ اختیار فرمائیں
ہمیں درمیانی راستہ اپنانے کا حکم دیا گیا کیونکہ شروع میں جب مسلمان نماز پڑھتے تو ساری نمازوں میں اونچی آواز سے قرات کرتے تھے اور کفار کو یہ پسند نہ تھا لہذا وہ مسلمانوں کے قریب آ کر شور وغل کرتے، سیٹیاں بجاتے اور مسلمانوں کو نماز ادا نہیں کرنے دیتے۔ اللہ اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں نازیبا کلمات کہتے، گستاخی کرتے اور توہین کرتے تھے۔ اس لئے اللہ تعالی نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ نہ تو اتنی اونچی آواز میں پڑھو کہ کفار سن کر بے ادبی وگستاخی کریں اور نہ اتنا آہستہ پڑھو کہ تم خود بھی نہ سن سکو۔ لہذا درمیانی آواز میں قرات کر لیا کرو۔
تیسری بات یہ کہ فجر اور عشاء کے وقت کفار سوئے ہوتے تھے اور مغرب کے وقت کھانے پینے میں مشغول ہوتے تھے اس لئے ان تین اوقات میں حکم دیا کہ جہرا ًنماز ادا کی جائے کیونکہ کفار ان اوقات میں کھانے پینے اور سونے میں مشغول ہوتے ہیں مسلمانوں کو تنگ نہیں کر سکتے، لہذا جہرا نماز کا حکم دیا گیا۔ ظہر اور عصر کے وقت کفار دن بھر گھومتے رہتے تھے۔ اس لئے ان نمازوں میں آہستہ آواز سے پڑھنے کا حکم دیا تاکہ کفار مسلمانوں کو تنگ نہ کر سکیں اور قرات کی آواز سن کر سیٹیاں اور شور وغل نہ کر سکیں۔
حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (ص: 253)
والأصل في الجهر والإسرار أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يجهر بالقراءة في الصلوات كلها في الإبتداء، وكان المشركون يؤذونه، ويقولون لأتباعم: إذا سمعتموه يقرأ فارفعوا أصواتكم بالأشعار والأراجيز وقابلوه بكلام اللغو، حتى تغلبوه فيسكت، ويسبون من أنزل القرآن، ومن أنزل عليه، فأنزل الله تعالى: ﴿وَلَا تَجْهَرْ بِصَلاتِكَ وَلا تُخَافِتْ بِهَا﴾ (الإسراء: 110) أي لا تجهر بصلاتك كلها، ولا تخافت بها كلها، وابتغ بين ذلك سبيلاً: بأن تجهر بصلاة الليل، وتخافت بصلاة النهار، فكان بعد ذلك يخافت في صلاة الظهر والعصر؛ لاستعدادهم بالإيذاء فيهما، ويجهر في المغرب؛ لاشتغالهم بالأكل، وفي العشاء والفجر؛ لرقادهم، وفي الجمعة والعيدين؛ لأنه أقامهما بالمدينة، وما كان للكفار قوة. (وقوله: وفي العشاء والفجر؛ لرقادهم) وجهه في الفجر ظاهر، وفي العشاء أن السنة تأخيرها إلى ثلث الليل، وهذا إنما يظهر في زمن الشتاء، أما في غيره فالعذر فيها كالمغرب فيما يظهر"(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (1/ 160)
والله ورسوله أعلم بالصواب
كتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان ١٨سرها خادم دارالافتاء البرقی سنی شرعی بورڈ آف نیپال،
كتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان ١٨سرها خادم دارالافتاء البرقی سنی شرعی بورڈ آف نیپال،