(سوال نمبر 196)
زبردستی روپیہ لےکر مسجد میں لگانا کیسا ہے؟
------‐--------‐--------------------
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام کہ ایک محلے میں یہ رواج ہے کہ اس گاؤں میں اگر کوئی لڑکا اپنی مرضی سے شادی کر لیتا ہے اور دعوت عام نہیں دیتا ہے یعنی بھوج نہی کھلاتا ہے تو زبردستی اس کے گھر والوں سے پیسہ لیا جاتاہے اور اس پیسہ کو مسجد میں لگایا جاتا ہے تو کیا ایسا پیسہ مسجد میں لگانا جائز ہوگا اور زبردستی جو پیسہ وصول کیا جاتا ہے وہ کہا تک درست ہے ؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائے مہربانی ہوگی۔
سائل:- مولانا محی الدین گھٹارو ویشالی بہار انڈیا
---‐‐--------------------------------
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونہ تعالیٰ عزوجل
مسلئہ مسئولہ میں
زبردستی لی گئی رقم مسجد میں صرف کرنا جائز نہیں ہے۔
پر یہ بات وضاحت طلب ہے کہ لڑکا اپنی مرضی سے شادی کرے اور گائوں والے کو دعوت عام نہ کھلانے تو جبرا بعوض دعوت، روپیہ لے کر مسجد میں دیا جاتا ہے ۔حالانکہ لڑکا یا والدین کی رضا سے شادی ہوتی ہے اور وسعت کے مطابق دعوت ولیمہ کیا جاتا ہے ۔ضرور کوئی سماجی رولس ہوگا جس پر عمل نہ کرنے پر گائوں والے ایسا کرتے ہوں گے ۔
بہرحال اگر معاملہ ایسا ہی ہے جیسا کہ سوال میں مذکور ہے تو جبرا ایسا کرنا جائز نہیں ہے اور جبرا لئے گئے رقم واپس دینا ضروری ہے جس سے لیا ہے یہ ایک طرح کا غصب ہے جو عند الشرع نہایت قبیح اور گناہ کبیرہ ہے جولوگ بھی اس فعل میں شامل ہونے سب پر توبہ ضروری ہے اور یہ جہالت ہے اسے ختم کیا جائے سنت دعوت ولیمہ وسعت کے مطابق کریں اور نہیں وہ رقم مسجد میں صرف کر سکتے ہیں ۔
دعوت ولیمہ وسعت کے مطابق شب زفاف کے بعد یا رخصتی کے بعد یا قبل ہم بستری یا شب زفاف سے قبل کر سکتے ہیں، سنت ادا ہو جائے گی،
جیسا کہ عمدة القاری میں ہے
عمدة القاري شرح صحيح البخاري
'وفيه فوائد: ... الثالثة: اتخاذ الوليمة في العرس، قال ابن العربي: بعد الدخول، وقال البيهقي: كان دخوله صلى الله عليه وسلم بعد هذه الوليمة'
(عمدة القاري شرح صحيح البخاري (20/ 151)
اور اسی طرح کتب فقہ میں ہے
وقت الولیمة عند العقد، أو عقبه، أو عند الدخول، أو عقبه، وهذا أمر یتوسع فیه حسب العرف والعادة، وعند البخاري أنه صلی اﷲ علیه وسلم دعا القوم بعد الدخول بزینب''۔ (فقه السنة، دارالکتاب العربي ۲/ ۲۱۰)
والله ورسوله أعلم بالصواب
زبردستی روپیہ لےکر مسجد میں لگانا کیسا ہے؟
------‐--------‐--------------------
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام کہ ایک محلے میں یہ رواج ہے کہ اس گاؤں میں اگر کوئی لڑکا اپنی مرضی سے شادی کر لیتا ہے اور دعوت عام نہیں دیتا ہے یعنی بھوج نہی کھلاتا ہے تو زبردستی اس کے گھر والوں سے پیسہ لیا جاتاہے اور اس پیسہ کو مسجد میں لگایا جاتا ہے تو کیا ایسا پیسہ مسجد میں لگانا جائز ہوگا اور زبردستی جو پیسہ وصول کیا جاتا ہے وہ کہا تک درست ہے ؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائے مہربانی ہوگی۔
سائل:- مولانا محی الدین گھٹارو ویشالی بہار انڈیا
---‐‐--------------------------------
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونہ تعالیٰ عزوجل
مسلئہ مسئولہ میں
زبردستی لی گئی رقم مسجد میں صرف کرنا جائز نہیں ہے۔
پر یہ بات وضاحت طلب ہے کہ لڑکا اپنی مرضی سے شادی کرے اور گائوں والے کو دعوت عام نہ کھلانے تو جبرا بعوض دعوت، روپیہ لے کر مسجد میں دیا جاتا ہے ۔حالانکہ لڑکا یا والدین کی رضا سے شادی ہوتی ہے اور وسعت کے مطابق دعوت ولیمہ کیا جاتا ہے ۔ضرور کوئی سماجی رولس ہوگا جس پر عمل نہ کرنے پر گائوں والے ایسا کرتے ہوں گے ۔
بہرحال اگر معاملہ ایسا ہی ہے جیسا کہ سوال میں مذکور ہے تو جبرا ایسا کرنا جائز نہیں ہے اور جبرا لئے گئے رقم واپس دینا ضروری ہے جس سے لیا ہے یہ ایک طرح کا غصب ہے جو عند الشرع نہایت قبیح اور گناہ کبیرہ ہے جولوگ بھی اس فعل میں شامل ہونے سب پر توبہ ضروری ہے اور یہ جہالت ہے اسے ختم کیا جائے سنت دعوت ولیمہ وسعت کے مطابق کریں اور نہیں وہ رقم مسجد میں صرف کر سکتے ہیں ۔
دعوت ولیمہ وسعت کے مطابق شب زفاف کے بعد یا رخصتی کے بعد یا قبل ہم بستری یا شب زفاف سے قبل کر سکتے ہیں، سنت ادا ہو جائے گی،
جیسا کہ عمدة القاری میں ہے
عمدة القاري شرح صحيح البخاري
'وفيه فوائد: ... الثالثة: اتخاذ الوليمة في العرس، قال ابن العربي: بعد الدخول، وقال البيهقي: كان دخوله صلى الله عليه وسلم بعد هذه الوليمة'
(عمدة القاري شرح صحيح البخاري (20/ 151)
اور اسی طرح کتب فقہ میں ہے
وقت الولیمة عند العقد، أو عقبه، أو عند الدخول، أو عقبه، وهذا أمر یتوسع فیه حسب العرف والعادة، وعند البخاري أنه صلی اﷲ علیه وسلم دعا القوم بعد الدخول بزینب''۔ (فقه السنة، دارالکتاب العربي ۲/ ۲۱۰)
والله ورسوله أعلم بالصواب
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨سرها. خادم البرقي دار الإفتاء سنی شرعی بورڈ آف نیپال ۔
الجواب صحيح والمحيب نجيح۔ مفتی محمد عابد حسین افلاک مصباحی انڈیا
١٦/١١/٢٠٢٠