(سوال نمبر 4083)
شوہر کے ساتھ باجماعت نماز کس طرح ادا کریں؟
شوہر کے ساتھ باجماعت نماز کس طرح ادا کریں؟
اور حالت جنابت میں کھانا پینا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام و علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان کرام فرمائیں اس مسئلہ کے متعلق کہ
شوہر کے ساتھ نماز، ادا کرنے کا طریقہ بتا دیں نیز کیا ہمبستری کے بعد بغیر غسل کے کھانا پینا جائز ہے کیا؟
گروپ کن فیکون سائلہ:- سیدہ انعم کراچی پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونہ تعالیٰ عزوجل
(1) شوہر کو چاہئے کہ باجماعت مسجد میں نماز ادا کرے
اگر کبھی مسجد کی جماعت فوت ہوجائے تو شوہر گھر میں اپنی بیوی کے ساتھ جماعت کرسکتا ہے ایسی صورت میں بیوی پیچھے کھڑی ہوگی اگر بچے بھی جماعت میں شریک ہوں تو سب سے آگے امام کھڑا ہوگا، پھر بچے لڑکے کھڑے ہوں گے اس کے بعد عورت کھڑی ہوگی، اگر صرف ایک بچہ ہو تو امام کے دائیں جانب کھڑا ہوگا اور پیچھے عورت کھڑی ہوگی۔
درمختار مع الشامی میں ہے ویقف الواحد ولو صبیًّا أما الواحدة فتتأخر محاذیًا أي مساویًا لیمین إمامہ․․․ والزائد خلفہ (درمختار مع الشامي: ۲/۳۰۹) وفیہ (ص: ۳۱۴)․
وہذا بخلاف المرأة الواحدة فإنہا تتأخر مطلقًا کالمتعددات الخ۔۔
یعنی نماز کی ادائیگی کی دو صورتیں ہیں ایک انفرادی نماز ادا کرنا اور دوسری صورت باجماعت نماز کی ادائیگی ہے
جب میاں بیوی انفرادی یعنی الگ الگ نماز ادا کر رہے ہوں تو بیوی چاہے شوہر کے آگے نماز ادا کرے، برابر ہو یا شوہر کے پیچھے نماز ادا کرے تمام صورتوں میں دونوں کی نماز بلاکراہت ادا ہو جائے گی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ
كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي وَأَنَا رَاقِدَةٌ مُعْتَرِضَةٌ عَلَى فِرَاشِهِ، فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يُوتِرَ أَيْقَظَنِي فَأَوْتَرْتُ.
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے اور میں فرش پر آپ کے سامنے ترچھی سوئی رہتی۔ جب آپ وتر پڑھنے کا ارادہ فرماتے تو مجھے جگا دیتے تو میں بھی وتر پڑھ لیتی۔(بخاري، الصحيح، كتاب الصلاة، باب الصلاة خلف النائم، 1: 192، رقم: 490، بيروت،لبنان: دار ابن كثير اليمامة)
حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمن سے بھی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا
كُنْتُ أَنَامُ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرِجْلاَيَ فِي قِبْلَتِهِ، فَإِذَا سَجَدَ غَمَزَنِي، فَقَبَضْتُ رِجْلَيَّ، فَإِذَا قَامَ بَسَطْتُهُمَا، قَالَتْ: وَالبُيُوتُ يَوْمَئِذٍ لَيْسَ فِيهَا مَصَابِيحُ.
میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سوئی رہتی اور میرے دونوں پاؤں آپ کے قبلے کو ہوتے۔ جب آپ سجدہ کرتے تو مجھے دبا دیتے تو میں اپنے پاؤں کو سمیٹ لیتی اور جب کھڑے ہوتے تو پھیلا لیتی۔ انہوں نے فرمایا کہ ان دنوں گھروں میں چراغ نہیں ہوا کرتے تھے۔
(بخاري، الصحيح، كتاب الصلاة، باب التطوع خلف المرأة، 1: 192، رقم: 491)
حضرت میمونہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي وَأَنَا حِذَاءَهُ، وَأَنَا حَائِضٌ، وَرُبَّمَا أَصَابَنِي ثَوْبُهُ إِذَا سَجَدَ، قَالَتْ: وَكَانَ يُصَلِّي عَلَى الخُمْرَةِ.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے تو میں آپ کے سامنے ہوتی اور حائضہ ہوتی اور کبھی جب آپ سجدے میں جاتے تو آپ کا کپڑا مجھ سے لگ جاتا۔ وہ فرماتی ہیں کہ آپ چھوٹی چٹائی پر نماز پڑھا کرتے۔
(بخاري، الصحيح، كتاب الصلاة، باب إذا أصاب ثوب المصلي امرأته إذا سجد، 1: 149، رقم: 372)
مذکورہ بالا احادیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ بیوی شوہر کے سامنے سو رہی ہو یا جاگ رہی ہو یا نماز ادا کر رہی ہو تو شوہر کی نماز ہو جاتی ہے۔ بیوی کا شوہر کے برابر یا آگے کھڑا ہونا اس وقت منع ہے کہ جب وہ شوہر کی اقتداء میں نماز ادا کر رہی ہو۔
علامہ ابن عابدین شامی فرماتے ہیں
الْمَرْأَةُ إذَا صَلَّتْ مَعَ زَوْجِهَا فِي الْبَيْتِ، إنْ كَانَ قَدَمُهَا بِحِذَاءِ قَدَمِ الزَّوْجِ لَا تَجُوزُ صَلَاتُهُمَا بِالْجَمَاعَةِ، وَإِنْ كَانَ قَدَمَاهَا خَلْفَ قَدَمِ الزَّوْجِ إلَّا أَنَّهَا طَوِيلَةٌ تَقَعُ رَأْسُ الْمَرْأَةِ فِي السُّجُودِ قِبَلَ رَأْسِ الزَّوْجِ جَازَتْ صَلَاتُهُمَا لِأَنَّ الْعِبْرَةَ لِلْقَدَمِ.
عورت جب گھر میں اپنے شوہر کے ساتھ (اس کی اقتداء میں ) نماز ادا کرے اور اس کا قدم شوہر کے قدم کے مقابل اور برابر ہے تو دونوں کی نماز درست نہیں اور اگر بیوی کے دونوں قدم شوہرکے قدم سے پیچھے ہوں تو دونوں کی نماز باجماعت درست ہے اور اگر بیوی دراز قد کی ہو جس کی وجہ سے سجدہ میں اس کا سر شوہر کے سر کے آگے ہوجائے تو کوئی حرج نہیں کیونکہ یہاں قدموں کا اعتبار ہے۔( ردالمحتار، 1: 572، بيروت: دار الفكر)
اس لیے بیوی صرف اس وقت شوہر کے آگے نہیں کھڑی ہوسکتی جب وہ شوہر کی اقتداء میں نماز ادا کر رہی ہو۔ جب دونوں انفرادی نماز ادا کر رہے ہوں تو بیوی کے آگے کھڑے ہونے سے نماز کی ادائیگی میں کوئی قباحت نہیں ہوتی۔۔
٢/ ،غسل فرض ہو جائےتو بلا وجہ غسل میں تاخیر نہیں کرنی چاہئےکہ حدیث میں ہے جس گھر میں جنب ہو اس میں رحمت کے فرشتے نہیں آتے لہذا بہتر یہی ہےکہ جلد از جلد غسل کرلیا جائے یا پھروضو کرلے کیونکہ جنبی اگر وضو کرلےتواب رحمت کے فرشتوں کے آنے کی رکاوٹ ختم ہوجاتی ہے البتہ حالتِ جنابت میں گھر کا کام کاج کرنا ،جائز ہے ہاں اگر بغیر غسل کیے کھانا کھاناچاہتی ہےتو وضو کرلے یا ہاتھ منہ دھوکر کلی کرلے اور اگر ویسے ہی کھا پی لیا تو گناہ نہیں مگر مکروہ ہے اور محتاجی لاتا ہے۔جنبی کے پاس رحمت کے فرشتے نہیں آتے اس سے متعلق مصنف عبد الرزاق میں حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
إن الملائكة لا تحضر جنازة كافر بخير، ولا جنبا حتى يغتسل أو يتوضأ وضوءه للصلاة
بےشک فرشتے کافر مردے کے پاس بھلائی کے ساتھ حاضر نہیں ہوتے اور جنبی شخص کے پاس بھی نہیں آتے جب تک وہ غسل نہ کر لے یا نماز جیسا وضو نہ کر لے۔(مصنف عبد الرزاق، کتاب الطھارۃ،باب الرجل ينام وهو جنب، ج 1، ص 217 دارالکتب العلمیہ ، بیروت )
جنبی جب وضو کر لے تو اس کے متعلق علامہ عبد الرؤوف مناوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں
فإنه إذا فعل ذلك لم تنفر الملائكة عنه ولم تمتنع عن دخول بيت هو فيه
یعنی جنبی شخص جب یہ(یعنی وضو )کر لیتا ہے تو فرشتے اس سے دور نہیں جاتے اور جس گھر میں وہ ہو وہاں داخل ہونے سے بھی نہیں رکتے۔ (فیض القدیر، ج 3، ص 328،دارالکتب العلمیہ بیروت )
بہار شریعت میں ہے
جس پر غسل واجب ہے اسے چاہیے کہ نہانے میں تاخیر نہ کرے۔ حدیث میں ہے جس گھر میں جنب ہو اس میں رحمت کے فرشتے نہیں آتے اور اگر اتنی دیر کر چکا کہ نماز کا آخر وقت آگیا تو اب فوراً نہانا فرض ہے، اب تاخیر کرےگا، گناہ گار ہوگا اور کھانا کھانا یا عورت سے جِماع کرنا چاہتا ہے تو وضو کرلے یا ہاتھ مونھ دھولے، کلی کرلے اور اگر ویسے ہی کھا پی لیا تو گناہ نہیں مگر مکروہ ہے اور محتاجی لاتا ہے۔(بہارشریعت ،ج 1،ص 225،مکتبۃ المدینہ )
والله ورسوله اعلم بالصواب
السلام و علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان کرام فرمائیں اس مسئلہ کے متعلق کہ
شوہر کے ساتھ نماز، ادا کرنے کا طریقہ بتا دیں نیز کیا ہمبستری کے بعد بغیر غسل کے کھانا پینا جائز ہے کیا؟
گروپ کن فیکون سائلہ:- سیدہ انعم کراچی پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونہ تعالیٰ عزوجل
(1) شوہر کو چاہئے کہ باجماعت مسجد میں نماز ادا کرے
اگر کبھی مسجد کی جماعت فوت ہوجائے تو شوہر گھر میں اپنی بیوی کے ساتھ جماعت کرسکتا ہے ایسی صورت میں بیوی پیچھے کھڑی ہوگی اگر بچے بھی جماعت میں شریک ہوں تو سب سے آگے امام کھڑا ہوگا، پھر بچے لڑکے کھڑے ہوں گے اس کے بعد عورت کھڑی ہوگی، اگر صرف ایک بچہ ہو تو امام کے دائیں جانب کھڑا ہوگا اور پیچھے عورت کھڑی ہوگی۔
درمختار مع الشامی میں ہے ویقف الواحد ولو صبیًّا أما الواحدة فتتأخر محاذیًا أي مساویًا لیمین إمامہ․․․ والزائد خلفہ (درمختار مع الشامي: ۲/۳۰۹) وفیہ (ص: ۳۱۴)․
وہذا بخلاف المرأة الواحدة فإنہا تتأخر مطلقًا کالمتعددات الخ۔۔
یعنی نماز کی ادائیگی کی دو صورتیں ہیں ایک انفرادی نماز ادا کرنا اور دوسری صورت باجماعت نماز کی ادائیگی ہے
جب میاں بیوی انفرادی یعنی الگ الگ نماز ادا کر رہے ہوں تو بیوی چاہے شوہر کے آگے نماز ادا کرے، برابر ہو یا شوہر کے پیچھے نماز ادا کرے تمام صورتوں میں دونوں کی نماز بلاکراہت ادا ہو جائے گی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ
كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي وَأَنَا رَاقِدَةٌ مُعْتَرِضَةٌ عَلَى فِرَاشِهِ، فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يُوتِرَ أَيْقَظَنِي فَأَوْتَرْتُ.
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے اور میں فرش پر آپ کے سامنے ترچھی سوئی رہتی۔ جب آپ وتر پڑھنے کا ارادہ فرماتے تو مجھے جگا دیتے تو میں بھی وتر پڑھ لیتی۔(بخاري، الصحيح، كتاب الصلاة، باب الصلاة خلف النائم، 1: 192، رقم: 490، بيروت،لبنان: دار ابن كثير اليمامة)
حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمن سے بھی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا
كُنْتُ أَنَامُ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرِجْلاَيَ فِي قِبْلَتِهِ، فَإِذَا سَجَدَ غَمَزَنِي، فَقَبَضْتُ رِجْلَيَّ، فَإِذَا قَامَ بَسَطْتُهُمَا، قَالَتْ: وَالبُيُوتُ يَوْمَئِذٍ لَيْسَ فِيهَا مَصَابِيحُ.
میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سوئی رہتی اور میرے دونوں پاؤں آپ کے قبلے کو ہوتے۔ جب آپ سجدہ کرتے تو مجھے دبا دیتے تو میں اپنے پاؤں کو سمیٹ لیتی اور جب کھڑے ہوتے تو پھیلا لیتی۔ انہوں نے فرمایا کہ ان دنوں گھروں میں چراغ نہیں ہوا کرتے تھے۔
(بخاري، الصحيح، كتاب الصلاة، باب التطوع خلف المرأة، 1: 192، رقم: 491)
حضرت میمونہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي وَأَنَا حِذَاءَهُ، وَأَنَا حَائِضٌ، وَرُبَّمَا أَصَابَنِي ثَوْبُهُ إِذَا سَجَدَ، قَالَتْ: وَكَانَ يُصَلِّي عَلَى الخُمْرَةِ.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے تو میں آپ کے سامنے ہوتی اور حائضہ ہوتی اور کبھی جب آپ سجدے میں جاتے تو آپ کا کپڑا مجھ سے لگ جاتا۔ وہ فرماتی ہیں کہ آپ چھوٹی چٹائی پر نماز پڑھا کرتے۔
(بخاري، الصحيح، كتاب الصلاة، باب إذا أصاب ثوب المصلي امرأته إذا سجد، 1: 149، رقم: 372)
مذکورہ بالا احادیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ بیوی شوہر کے سامنے سو رہی ہو یا جاگ رہی ہو یا نماز ادا کر رہی ہو تو شوہر کی نماز ہو جاتی ہے۔ بیوی کا شوہر کے برابر یا آگے کھڑا ہونا اس وقت منع ہے کہ جب وہ شوہر کی اقتداء میں نماز ادا کر رہی ہو۔
علامہ ابن عابدین شامی فرماتے ہیں
الْمَرْأَةُ إذَا صَلَّتْ مَعَ زَوْجِهَا فِي الْبَيْتِ، إنْ كَانَ قَدَمُهَا بِحِذَاءِ قَدَمِ الزَّوْجِ لَا تَجُوزُ صَلَاتُهُمَا بِالْجَمَاعَةِ، وَإِنْ كَانَ قَدَمَاهَا خَلْفَ قَدَمِ الزَّوْجِ إلَّا أَنَّهَا طَوِيلَةٌ تَقَعُ رَأْسُ الْمَرْأَةِ فِي السُّجُودِ قِبَلَ رَأْسِ الزَّوْجِ جَازَتْ صَلَاتُهُمَا لِأَنَّ الْعِبْرَةَ لِلْقَدَمِ.
عورت جب گھر میں اپنے شوہر کے ساتھ (اس کی اقتداء میں ) نماز ادا کرے اور اس کا قدم شوہر کے قدم کے مقابل اور برابر ہے تو دونوں کی نماز درست نہیں اور اگر بیوی کے دونوں قدم شوہرکے قدم سے پیچھے ہوں تو دونوں کی نماز باجماعت درست ہے اور اگر بیوی دراز قد کی ہو جس کی وجہ سے سجدہ میں اس کا سر شوہر کے سر کے آگے ہوجائے تو کوئی حرج نہیں کیونکہ یہاں قدموں کا اعتبار ہے۔( ردالمحتار، 1: 572، بيروت: دار الفكر)
اس لیے بیوی صرف اس وقت شوہر کے آگے نہیں کھڑی ہوسکتی جب وہ شوہر کی اقتداء میں نماز ادا کر رہی ہو۔ جب دونوں انفرادی نماز ادا کر رہے ہوں تو بیوی کے آگے کھڑے ہونے سے نماز کی ادائیگی میں کوئی قباحت نہیں ہوتی۔۔
٢/ ،غسل فرض ہو جائےتو بلا وجہ غسل میں تاخیر نہیں کرنی چاہئےکہ حدیث میں ہے جس گھر میں جنب ہو اس میں رحمت کے فرشتے نہیں آتے لہذا بہتر یہی ہےکہ جلد از جلد غسل کرلیا جائے یا پھروضو کرلے کیونکہ جنبی اگر وضو کرلےتواب رحمت کے فرشتوں کے آنے کی رکاوٹ ختم ہوجاتی ہے البتہ حالتِ جنابت میں گھر کا کام کاج کرنا ،جائز ہے ہاں اگر بغیر غسل کیے کھانا کھاناچاہتی ہےتو وضو کرلے یا ہاتھ منہ دھوکر کلی کرلے اور اگر ویسے ہی کھا پی لیا تو گناہ نہیں مگر مکروہ ہے اور محتاجی لاتا ہے۔جنبی کے پاس رحمت کے فرشتے نہیں آتے اس سے متعلق مصنف عبد الرزاق میں حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
إن الملائكة لا تحضر جنازة كافر بخير، ولا جنبا حتى يغتسل أو يتوضأ وضوءه للصلاة
بےشک فرشتے کافر مردے کے پاس بھلائی کے ساتھ حاضر نہیں ہوتے اور جنبی شخص کے پاس بھی نہیں آتے جب تک وہ غسل نہ کر لے یا نماز جیسا وضو نہ کر لے۔(مصنف عبد الرزاق، کتاب الطھارۃ،باب الرجل ينام وهو جنب، ج 1، ص 217 دارالکتب العلمیہ ، بیروت )
جنبی جب وضو کر لے تو اس کے متعلق علامہ عبد الرؤوف مناوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں
فإنه إذا فعل ذلك لم تنفر الملائكة عنه ولم تمتنع عن دخول بيت هو فيه
یعنی جنبی شخص جب یہ(یعنی وضو )کر لیتا ہے تو فرشتے اس سے دور نہیں جاتے اور جس گھر میں وہ ہو وہاں داخل ہونے سے بھی نہیں رکتے۔ (فیض القدیر، ج 3، ص 328،دارالکتب العلمیہ بیروت )
بہار شریعت میں ہے
جس پر غسل واجب ہے اسے چاہیے کہ نہانے میں تاخیر نہ کرے۔ حدیث میں ہے جس گھر میں جنب ہو اس میں رحمت کے فرشتے نہیں آتے اور اگر اتنی دیر کر چکا کہ نماز کا آخر وقت آگیا تو اب فوراً نہانا فرض ہے، اب تاخیر کرےگا، گناہ گار ہوگا اور کھانا کھانا یا عورت سے جِماع کرنا چاہتا ہے تو وضو کرلے یا ہاتھ مونھ دھولے، کلی کرلے اور اگر ویسے ہی کھا پی لیا تو گناہ نہیں مگر مکروہ ہے اور محتاجی لاتا ہے۔(بہارشریعت ،ج 1،ص 225،مکتبۃ المدینہ )
والله ورسوله اعلم بالصواب
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان 18خادم دار الافتاء البرکاتی علماء فاونڈیشن ضلع سرہا نیپال۔18/07/2023