(سوال نمبر 5016)
شہادت نامہ پڑھنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
کیا ہم محرم یا کسی اور موقعے پر شہادت نامہ پڑھ سکتے ہیں؟
دلیل کے ساتھ جواب عنایت فرمایں عین نوازش ہوگی
فقط و السلام
سائلہ:- قاریہ ساجدہ خاتون نول پراسی نیپال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونہ تعالیٰ عزوجل
شہادت نامہ کتاب میرے علم میں نہیں ہے کہ مصنف کون ہیں؟ اور اس کتاب میں شہادت کے متعلق یا واقعہ کربلا کے متعلق کیا کچھ لکھا ہے؟
البتہ مروجہ شہادت نامہ پڑھنا حرام ہے ۔
فتاوی رضویہ میں ایک سوال ہوا کہ مجالس میلاد شریف میں شہادت نامہ کا پڑھناج ائز ہے یانہیں؟
آپ فرماتے ہیں
شہادت نامے نثر یا نظم جو آج کل عوام میں رائج ہیں اکثر روایات باطلہ و بے سرو پا سے مملو اور اکاذیب موضوعہ پرمشتمل ہیں ایسے بیان کا پڑھنا سننا وہ شہادت ہو خواہ کچھ اور مجلس میلاد مبارک میں ہو خواہ کہیں اور مطلقاً حرام و ناجائز ہے خصوصاً جبکہ وہ بیان ایسی خرافات کو متضمن ہو جن سے عوام کے عقائد میں تزلزل واقع ہو کہ پھر تو اور بھی زیادہ زہر قاتل ہے ایسے ہی وجوہ پر نظر فرماکر امام حجۃالاسلام محمد محمد محمد غزالی قدس سرہ العالی وغیرہ ائمہ کرام نے حکم فرمایا کہ شہادت نامہ پڑھنا حرام ہے۔ (فتاوای رضویہ ج ٢٤ ص ١٠٩)
اس لئے شہادت نامہ دس بیویوں کی کہانی اور سولہ سیدوں کی کہانی اگر صحیح روایتوں پر مشتمل ہوں تو ان کا پڑھنا اچھا ہے
یوں ہی دیگر سبق آموز کہانیاں بھی اور اگر ان میں غلط اور جھوٹی روایتیں بیان کی گئی ہوں تو ان کا پڑھنا جائز نہیں البتہ ان کتابوں کے پڑھنے کی منت ماننا ضرور جہالت ہے
فتاویٰ فقیہ ملت ہے
کہ شہادت نامہ دس بیبیوں کی کہانی اور سولہ سیدوں کی کہانی اگر صحیح روایتوں پر مشتمل ہو تو اس کو پڑھنا اور پڑھوانا اچھا ہے اور اگر ان میں غلط اور جھوٹی روایتیں بیان کی گئی ہوں تو ان کا پڑھنا اور پڑھوانا جائز نہیں البتہ ان کتابوں کی منّت ماننا ضرور جہالت ہے
(فتاویٰ فقیہ ملت ج 2 ص 96)
اور درج ذیل فتاویٰ جات میں بھی ایساہی مذکور ہے
(فتاویٰ رضویہ قدیم ج 9 ص 88) (فتاویٰ مصطفویہ ص 526)
البتہ نورنامہ پڑھنا جائز نہیں ۔جیساکہ فتاوی رضویہ میں ہے ہندی زبان میں لکھا ہوا رسالہ جو نور نامہ کے نام سے مشہور ہے ، اس کی روایت بے اصل ہے اس کو پڑھنا جائز نہیں ،اس لیے کہ اس میں ثواب کی جگہ پر اور دعاؤں پر مطبعوں میں جو اسنادی روایتیں لکھتے ہیں وہ اکثر بے اصل ہیں (فتاوی رضویہ ،ج 26،ص 610 رضافاؤنڈیشن لاہور)
واللہ و رسولہ اعلم بالصوب
كتبہ:-حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان 18خادم دار الافتاء البرکاتی علماء فاونڈیشن ضلع سرہا نیپال۔21/97/2023