وال نمبر ١٧٨)
زید کو کہیں سے تین ہزار روپیہ ملا اس کے مالک کا پتا نہیں اب اسے کیا کیا جائے؟
:--------------:
السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ کاتہ ۔
کیا فرماتے ہیں علمائے دین مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے کہ زید کو تین ہزار روپیہ کہیں ملا ہے ،اس کے مالک کا پتہ نہیں ہے، اس روپے کو زید کس طرح استعمال کریگا یا صدقہ کرےگا ؟
سائل:-محمد تیسیر الدین قادری منزل. 732/ 19مغربی گنگا گھاٹ اناؤ ۔انڈیا ۔
:--------------------:
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين.
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعونہ تعالیٰ عزوجل
صورت مسئولہ میں
اگر معاملہ ایسا ہی ہے جیسا کہ سوال میں مذکور ہے تو اس کے مالک کو حتی المقدور تلاش کرے اور اس تک پہنچا دے کہ یہ لقطہ ہے مال اٹھاتے ہی اس کا ایک سال تک اعلان کیا جائے،اور آگر مالک نہ ملے اور ظن غالب ہوجائے کہ مالک لینے نہیں آئے گا ۔تو اسے صدقہ کردینا واجب ہے، جسے رقم ملی ہے اور وہ خود فقیر ہے تو خود بھی استعمال کر سکتا ہے، اور اگر خود استعمال کر نے یا صدقہ کرنے کے بعد اگر صاحب مال آجائے اور متحقق ہو جائے کہ یہی صاحب مال ہے تو تاوان دینا پڑے گا وہی شیئ یا اتنی رقم جس سے وہ راضی ہو جائے ۔
مفتی احمد یار خان نعیمی رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
امام اعظم کے ہاں اگر پانے والے کا دل گواہی دے کہ یہ سچا ہے تو دے دے،ورنہ اس مدعی سے گواہ طلب کرے گواہی لے کر دے کہ ہوسکتا ہے اس شخص نے مالک مال سے یہ اوصاف سنے ہوں اور سن کر بیان کررہا ہو اگر لقطہ پانے والا فقیر ہو تو بعد مایوسی خود استعمال کرے ورنہ خیرات کردے لیکن اگر بعد میں مالک مل گیا تو اسے چیز کی قیمت دینا ہوگی۔بعض کے نزدیک غنی بھی استعمال کرسکتا ہے لقطہ پانے والے کو مناسب یہ ہے کہ پہلے ایک سال تک مشہور کرے،پھر جب اپنے استعمال میں لانے لگے پھر اعلان کرے،یہاں خرچ کرنے کا حکم اباحت کے لیے ہے اور فادّھا وجوب کے لئے
ایک سال گزرنے پر لقطہ خود خرچ کرلینا جائز ہے،پھر اگر خرچ کرلینے کے بعد مالک لے تو اس کی مثل یا قیمت مالک کو ادا کرنا ضروری ہے اور اگر خیرات کردیا پھر بعد کو مالک آیا تو اسے اختیار ہے جو لقطہ پانے والے سے قیمت لے یا فقیر سے جسے خیرات دی گئی۔ (مرقات) مرآة المناجيح ج ٤ ص ٣٢٦)
جیسا کہ رد المختار میں ہے
( وعرف ) أي نادى عليها حيث وجدها وفي المجامع ( إلى أن علم أن صاحبها لا يطلبها أو أنها تفسد إن بقيت كالأطعمة ) والثمار ( كانت أمانة ) لم تضمن بلا تعد فلو لم يشهد مع التمكن منه أو لم يعرفها ضمن إن أنكر ربها أخذه للرد وقبل الثاني قوله بيمينه وبه نأخذ حاوي وأقره المصنف وغيره ( ولو من الحرم أو قليلة أو كثيرة ) فلا فرق بين مكان ومكان ولقطة ولقطة ( فينتفع) الرافع ( بها لو فقيرا وإلا تصدق بها على فقير ولو على أصله وفرعه وعرسه إلا إذا عرف أنها لذمي فإنها توضع في بيت المال ) تاترخانية و في القنية لو رجا وجود المالك وجب الإيصاء ( فإن جاء مالكها ) بعد التصدق ( خير بين إجازة فعله ولو بعد هلاكها) وله ثوابها ( أو تضمينه )".و في الرد: "(قوله: ولقطة ولقطة ) أي لا فرق بينهما أي في وجوب أصل التعريف ليناسب قوله إلى أن علم أن صاحبها لايطلبها؛ فإنه يقتضي تعريف كل لقطة بما يناسبها بخلاف ما مر عن ظاهر الرواية من التعريف حولاً للكل" (الدر المختار ، کتاب اللقطة 4 / 278 )
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجیب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان ١٨سرها.
خادم البرقی دارالافتاء سنی شرعی بورڈ آف نیپال.5،/11/2020