Type Here to Get Search Results !

مسجد کا روپیہ دوسرے مسجد میں صرف کرنا کیسا ہے؟

 (سوال نمبر ١٥٦)

مسجد کا روپیہ دوسرے مسجد میں صرف کرنا کیسا ہے؟
.....................................
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
 کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اور مفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ ایک مسجد کے پیسے سے دوسری مسجد کی زمین خریدنا ایک مسجد کی رقم سے دوسرے مسجد کی تعمیر کرنا اور فطرہ کا پیسہ مسجد میں لگا سکتے ہیں کہ نہیں قرآن و حدیث کی روشنی میں  جواب عنایت فرمائیں ..

سائل:- محمد عباس رضا نوری ساکن بلو نگرپالیکا  ضلع مہوتری نیپال
.....................................

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

الجواب بعونہ تعالیٰ عزوجل

صورت مستفسره میں جب (١)  واقف نے خاص کر روپیہ  جس مسجد  میں صرف کرنے کے لئے دیا تو یہ روپیہ  دوسری مسجد میں یا دوسری مسجد کی زمین خرید نے میں یا دوسری مسجد کی تعمیر میں کیوں کر صرف ہو سکتا ہے ۔ایک مسجد کی رقم دوسری مسجد میں خرچ کرنا جائز نہیں ہے ۔
در مختار میں ہے
ولایجوز نقلُه ونقل ماله إلی مسجد آخر، وهو الفتوی، حاوي القدسي. وأکثر المشائخ علیه، مجتبی، وهو الأوجه". (الدر المختار مع رد المحتار: ۶/۴۲۹، کتاب الوقف)
کیونکہ وقف میں شرائط واقف کا اتباع واجب ہے،
اشباہ والنظائر میں ہے:
شرط الواقف کنص الشارع فی وجوب العمل بہ
واجب العمل ہونے میں واقف کی شرط شارع کی نص کی طرح ہے،
(الاشباہ والنظائر الفن الثانی کتاب الوقف ادارۃ القرآن کراچی ۱/ ۳۰۵)
وہ رقم دوسری مسجد میں صرف کرنا شرط واقف سے جدا ہے جیسا کہ ظاہر یہی ہے تو یہ صرف محض ناجائز ہے، کیونکہ واقف کے منشہ کے خلاف استعمال ہو رہا ہے
البتہ اگر واقف نے ہی وقف کر نے کے وقت  دوسری مسجد میں صرف کرنےکی  اجازت دی ہو تو دوسری مسجد میں صرف کرنا جائز ہے۔۔
اسی طرح فتاوی رضویہ میں ہے ۔
(فتاوی رضویہ ج ١٦ ص ٢٧، مطبوعه دعوت اسلامي )
(٢) صدقہِ فطر کی رقم حیلہ شرعی کر کے مسجد میں لگا سکتے ہیں ۔۔
کسی غریب کو مال فطر  دے کر اسے مالک و مختار بنادیا جائے۔ پھر اس سے کہا جائے کہ تم اپنی مرضی اور خوشی سے دینی امور کے لئے صرف کردو  میں تو تم کو بہت اجر و ثواب ملے گا۔ پھر وہ خوشی سے دینی امور کے لئے صرف کردیں تو یہ حیلہٴ شرعی کہلاتا ہے۔ حیلہ کے بعد وہ امدادی رقم بن جاتی ہے اسے ہرایک مصرف میں خرچ کرنا درست ہے۔ (مسجد چونکہ اللہ کا مقدس گھر ہے اورآج بھی مسجد کے لیے امداد کرنے کا بہت سے لوگ جذبہ رکھتے ہیں، اس لیے مسجد کے لیے حیلہٴ شرعی نہ کرنا چاہیے،) کیونکہ فقہائے کرام نے صرف دینی تعلیم کی اہمیت کی وجہ سے اس کے لیے اجازت دی ہے۔
(فتاوی فیض الرسول ج اول ص ٤٥١)

واللہ ورسولہ اعلم بالصواب ،

كتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی،لہان ١٨،خادم البرقي دار الإفتاء سني شرعي بورڈ آف نیپال ۔
السبت ١٠ أكتوبر ٢٠٢٠ء /٢٣صفر، ١٤٤٢ھ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مصدقين مفتيان عظام و علماء كرام، أركان سنی شرعی بورڈ آف نیپال ۔
(١) قاضی نیپال مفتی اعظم نیپال حضرت علامہ مفتی عثمان البرکاتی المصباحی صاحب قبلہ ۔
(٢) مفتي ابو العطر محمد عبد السلام امجدی برکاتی صاحب ۔
(٣) مفتی محمد احمد رضا الثقافی صاحب ،
(٤) مولانا  محمد شہاب الدین حنفی صاحب ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زیر سرپرستی قاضی نیپال مفتی اعظم نیپال مفتی محمد عثمان برکاتی مصباحی صاحب قبلہ جنکپور ۔۔
المشتسہر، سنی شرعی بورڈ آف نیپال ۔۔۔۔۔۔
السبت ١٠ أكتوبر ٢٠٢٠ء /٢٣صفر، ١٤٤٢
ھ

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area