(سوال نمبر 4095)
میت کی نماز کا فدیہ کیا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماے کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے کہ سنا ہے کسی کا باپ فوت ہوجاے تو اسکی قضا نمازوں کا فدیہ بیٹا دے سکتا ہے جیسے صدقہ فطر ہوتا ہے اتنی ہی مقدار آیا کہ یہ بات درست ہے ؟مدلل جواب عنایت فرماے
المستفتی :- محمد عدیل پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونہ تعالیٰ عزوجل
ہاں صحیح ہے ہر فرض و وتر کے بدلے 2کلو 47 گرام گیہوں چاول صدقہ فطر کے مقدار فقرا کو دے ۔
در مختار مع ردالمحتار میں ہے
ولو مات وعليه صلوات فائتة وأوصى بالكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر) كالفطرة (وكذا حكم الوتر).(درمختار مع رد المحتار ٢/ ٧٢)
فتاوی عالمگیری میں ہے
إذا مات الرجل وعليه صلوات فائتة فأوصى بأن تعطى كفارة صلواته يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر وللوتر نصف صاع ولصوم يوم نصف صاع من ثلث ماله (١ / ١٢٥، الباب الحادي عشر في قضاء الفوائت)
مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح میں ہے
وعليه الوصية بما قدر عليه وبقي بذمته فيخرج عنه وليه من ثلث ما ترك لصوم كل يوم ولصلاة كل وقت حتى الوتر نصف صاع من بر أو قيمته وإن لم يوص وتبرع عنه وليه جاز ولا يصح أن يصوم ولا أن يصلي عنه (ص: 169، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المریض)
فتاوی رضویہ شریف میں ہے
اسقاط کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ اگر میت پر نماز روزہ قضا ہیں اور اس نے اتنا مال نہ چھوڑا جس کے ثلث سے بحالت وصیت اس کا فدیہ ادا ہوسکے یا وصیت نہ کی، اور سب ورثہ ادائے فدیہ پر راضی نہیں تو پہلی صورت میں اس کے تہائی مال کاحساب لگائیں، کہ اس سے کس قدر کا فدیہ ادا ہوسکتا ہے، مثلا فرض کرو کہ چہارم کی قدر ہے تو ثلث مال فقیر کو بہ نیت فدیہ دیں، فقیر اسے لے کر پھر وارث کو ہبہ کردے، یہ پھر بہ نیت فدیہ لے، فقیر پھر لے کر اسے ہبہ کردے، اور ہر بار فقیر اور وارث قبضہ کرتے جائیں یہاں تک کہ فدیہ ادا ہو جائے، اور صورت ثانیہ جو وارث جس قدر مال دینے پر راضی ہے اتنے مال کا الٹ پھیر اتنی بار کریں کہ فدیہ ادا ہوجائے یا مال بالکل نہیں ہے تو وارث مثلاً ڈیڑھ سیر گیہوں یا اس کی قیمت کسی سے قرض لے کر اس کا الٹ پھیر کرلے، اگر چہ ہزار بار یا زائد میں فدیہ کی حد میں پہونچے۔
فی الدر المختار
لو مات وعلیه صلوۃ فائتة و اوصی بالکفارة یعطی لکل صلوۃ نصف صاع من بر کالفطرة و کذا حکم الوتر والصوم انما يعطى من ثلث ماله ولولم يترك مالا يستقرض نصف صاع مثلا يدفعه الفقير،ثم يدفعه الفقير للوارث،ثم وثم حتى يتم”۔
اس کے سوا یہ جو عوام میں رائج ہے کہ سارے فدیہ کے عوض ایک قرآن دے دیا کہ وہ تو بے بہا ہے یوں ادا نہیں ہوتا، قرآن مجید بےشک بے بہا ہے، مگر جو بہا ہے یعنی کلام الٰہی کہ ورقوں میں لکھا ہے کہ وہ مال نہیں نہ وہ دینے کی چیز ہے، تو جو مال ہے یعنی کاغذ اور پٹھے اس کی قیمت معتبر ہوگی اور وہ جب مقدار فدیہ کو نہ پہونچے گی تو فدیہ کیوں کر ادا ہوگا۔ واللہ اعلم (فتاوی رضویہ قدیم جلد سوم ص ٦٢٧)
بہار شریعت میں ہے
جس کی نمازیں قضا ہو گئیں اور انتقال ہوگیا تو اگر وصیت کرگیا اور مال بھی چھوڑا تو اس کی تہائی سے ہر فرض و وتر کے بدلے نصف صاع گیہوں یا ایک صاع جو تصدق کریں اور مال نہ چھوڑا اور ورثا فدیہ دینا چاہیں تو کچھ مال اپنے پاس سے یا قرض لے کر مسکین پر تصدق کرکے اس کے قبضہ میں دیں اور مسکین اپنی طرف سے اسے ہبہ کردے، اور یہ قبضہ بھی کرلے پھر یہ مسکین کو دے یوں ہی لوٹ پھیر کرتے رہیں یہاں تک کہ سب کا فدیہ ادا ہو جاے اور اگر مال چھوڑا مگر وہ ناکافی ہے جب بھی یہی کریں اور اگر وصیت نہ کی اور ولی اپنی طرف سے بطور احسان فدیہ دینا چاہے تو دے اور اگر مال کی تہائی بقدر کافی ہے اور وصیت یہ کی کہ اس میں سے تھوڑا لےکر لوٹ پھیر کرکے فدیہ پورا کرلیں اور باقی کو ورثا یا اور کوئی لے لے تو گنہگار ہوا۔
(بہارشریعت، ج اول، ح چہارم، قضا نماز کا بیان،ص ۷۰۷)
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب
میت کی نماز کا فدیہ کیا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماے کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے کہ سنا ہے کسی کا باپ فوت ہوجاے تو اسکی قضا نمازوں کا فدیہ بیٹا دے سکتا ہے جیسے صدقہ فطر ہوتا ہے اتنی ہی مقدار آیا کہ یہ بات درست ہے ؟مدلل جواب عنایت فرماے
المستفتی :- محمد عدیل پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونہ تعالیٰ عزوجل
ہاں صحیح ہے ہر فرض و وتر کے بدلے 2کلو 47 گرام گیہوں چاول صدقہ فطر کے مقدار فقرا کو دے ۔
در مختار مع ردالمحتار میں ہے
ولو مات وعليه صلوات فائتة وأوصى بالكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر) كالفطرة (وكذا حكم الوتر).(درمختار مع رد المحتار ٢/ ٧٢)
فتاوی عالمگیری میں ہے
إذا مات الرجل وعليه صلوات فائتة فأوصى بأن تعطى كفارة صلواته يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر وللوتر نصف صاع ولصوم يوم نصف صاع من ثلث ماله (١ / ١٢٥، الباب الحادي عشر في قضاء الفوائت)
مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح میں ہے
وعليه الوصية بما قدر عليه وبقي بذمته فيخرج عنه وليه من ثلث ما ترك لصوم كل يوم ولصلاة كل وقت حتى الوتر نصف صاع من بر أو قيمته وإن لم يوص وتبرع عنه وليه جاز ولا يصح أن يصوم ولا أن يصلي عنه (ص: 169، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المریض)
فتاوی رضویہ شریف میں ہے
اسقاط کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ اگر میت پر نماز روزہ قضا ہیں اور اس نے اتنا مال نہ چھوڑا جس کے ثلث سے بحالت وصیت اس کا فدیہ ادا ہوسکے یا وصیت نہ کی، اور سب ورثہ ادائے فدیہ پر راضی نہیں تو پہلی صورت میں اس کے تہائی مال کاحساب لگائیں، کہ اس سے کس قدر کا فدیہ ادا ہوسکتا ہے، مثلا فرض کرو کہ چہارم کی قدر ہے تو ثلث مال فقیر کو بہ نیت فدیہ دیں، فقیر اسے لے کر پھر وارث کو ہبہ کردے، یہ پھر بہ نیت فدیہ لے، فقیر پھر لے کر اسے ہبہ کردے، اور ہر بار فقیر اور وارث قبضہ کرتے جائیں یہاں تک کہ فدیہ ادا ہو جائے، اور صورت ثانیہ جو وارث جس قدر مال دینے پر راضی ہے اتنے مال کا الٹ پھیر اتنی بار کریں کہ فدیہ ادا ہوجائے یا مال بالکل نہیں ہے تو وارث مثلاً ڈیڑھ سیر گیہوں یا اس کی قیمت کسی سے قرض لے کر اس کا الٹ پھیر کرلے، اگر چہ ہزار بار یا زائد میں فدیہ کی حد میں پہونچے۔
فی الدر المختار
لو مات وعلیه صلوۃ فائتة و اوصی بالکفارة یعطی لکل صلوۃ نصف صاع من بر کالفطرة و کذا حکم الوتر والصوم انما يعطى من ثلث ماله ولولم يترك مالا يستقرض نصف صاع مثلا يدفعه الفقير،ثم يدفعه الفقير للوارث،ثم وثم حتى يتم”۔
اس کے سوا یہ جو عوام میں رائج ہے کہ سارے فدیہ کے عوض ایک قرآن دے دیا کہ وہ تو بے بہا ہے یوں ادا نہیں ہوتا، قرآن مجید بےشک بے بہا ہے، مگر جو بہا ہے یعنی کلام الٰہی کہ ورقوں میں لکھا ہے کہ وہ مال نہیں نہ وہ دینے کی چیز ہے، تو جو مال ہے یعنی کاغذ اور پٹھے اس کی قیمت معتبر ہوگی اور وہ جب مقدار فدیہ کو نہ پہونچے گی تو فدیہ کیوں کر ادا ہوگا۔ واللہ اعلم (فتاوی رضویہ قدیم جلد سوم ص ٦٢٧)
بہار شریعت میں ہے
جس کی نمازیں قضا ہو گئیں اور انتقال ہوگیا تو اگر وصیت کرگیا اور مال بھی چھوڑا تو اس کی تہائی سے ہر فرض و وتر کے بدلے نصف صاع گیہوں یا ایک صاع جو تصدق کریں اور مال نہ چھوڑا اور ورثا فدیہ دینا چاہیں تو کچھ مال اپنے پاس سے یا قرض لے کر مسکین پر تصدق کرکے اس کے قبضہ میں دیں اور مسکین اپنی طرف سے اسے ہبہ کردے، اور یہ قبضہ بھی کرلے پھر یہ مسکین کو دے یوں ہی لوٹ پھیر کرتے رہیں یہاں تک کہ سب کا فدیہ ادا ہو جاے اور اگر مال چھوڑا مگر وہ ناکافی ہے جب بھی یہی کریں اور اگر وصیت نہ کی اور ولی اپنی طرف سے بطور احسان فدیہ دینا چاہے تو دے اور اگر مال کی تہائی بقدر کافی ہے اور وصیت یہ کی کہ اس میں سے تھوڑا لےکر لوٹ پھیر کرکے فدیہ پورا کرلیں اور باقی کو ورثا یا اور کوئی لے لے تو گنہگار ہوا۔
(بہارشریعت، ج اول، ح چہارم، قضا نماز کا بیان،ص ۷۰۷)
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان 18خادم دار الافتاء البرکاتی علماء فاونڈیشن ضلع سرہا نیپال۔19/07/2023