(سوال نمبر 6034)
کیا واقعی امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو پانی سے روکا گیا یعنی ان کے خیمے میں پانے وغیرہ کچھ نہ تھا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسلہ کے بارے میں کہ
واقعی امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو پانی سے روکا گیا یعنی ان کے خیمے میں پانے وغیرہ کچھ نہ تھا حال نہ کہ میں نے ایک روایت میں پڑھا تھا شرح بخاری اس میں لکھا ہوا تھا کہ اسی دن صبح امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے غسل کیا تھا حضور اس کے متعلق فرما دیں کہ ان کے خیمے میں پانی تھا یا نہیں کیا واقعی انہیں پانی روک دیا گیا تھا
سائل:- محمد سلطان امیٹھی انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره و نصلي علي رسوله الأمين الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
عین جنگ کے وقت پانی سے روک دیا گیا ہو یہ الگ بات ہے پر جنگ سے پہلے سب کے پاس پانی تھا مذکورہ واقعہ غلط ہے سہی یہ ہے کہ پانی تھا۔
اس بابت مفتی دانش فرماتے ہیں
طبری میں ہے۔
ولما اشتد علی الحسین و اصحابہ العطش دعا العباس بن علی بن ابی طالب اخاہ ، فبعثہ فی ثلاثین فارسا و عشرین راجلا و بعث معھم بعشرین قربتہ فجاءوا حتی دنوا من الماء لیلا و استقدم امامھم باللواء نافع بن ھلال الجملی ، فقال عمرو بن الحجاج الزبیدی من الرجل، فجیء فقال، ما جاء بک، قال جئنا نشرب من ھذا الماء الذی حلأتمونا عنہ،، ھنسیٔا، قال لا واللہ،، لا اشرب منہ قطرتہ و حسین عطشان و من تری من اصحابہ فطلعوا علیہ۔، فقال لا سبیل الی سقی ھؤلاء انما وضعنا بھذا المکان لنمنعھم الماء ،، فلما دنا منہ اصحابہ قال لرجالہ،۔ املئوا قربکم ،، فشدر الرجالتہ فملوئوا قربھم وثار الیھم عمرو بن الحجاج و اصحابہ فحمل علیھم العباس بن علی و نافع بن ھلال فکفہ وھم، ثم انصرفوا الی رحالھم ، امضوا و وقفو دونھم فعطف علیھم عمرو بن الحجاج و اصحابہ واطردو قلیلا ان رجالا من صداء طعن من اصحاب عمرو بن حجاج طعنہ نافع بن ھلال فظن انھا لیست بشء ، ثم انھا انتقضت بعد ذلک فما منھا وجاء اصحاب حسین بالقرب فادخلوھا علیہ۔
جب آپ پر اور اپ کے انصار پر پیاس کا غلبہ ہوا، تو آپ نے اپنے بھائ عباس بن علی رضی اللہ علہ کو بلایا تیس گھڑ سوار بیس پیادے بیس مشکیں ان کے ساتھ کردیں اور پانی لانے کے لیے روانا کیا یہ لوگ رات کے وقت نہر کے قریب پہنچے نافع بن ھلال جلی علم لیے ہوۓ سب سے آگے بڑھ گۓ، ابن حجاج کہنے لگا کون ہے آو کیوں اۓ ہو ۔ نافع نے کہا ہم تو یہ پانی پینے اۓ ہیں۔
جس پر تم لوگوں نے پہرا دیا ہوا ہے۔ اس نے کہا پانی پی لو کہا امام عالی مقام کو پیاس لگی ہے اور ان کے ساتھیوں کو ان کے بغیر ہم ایک قطرہ بھی نہ پیوں گا۔، اتنے میں اور لوگ بھی اس کے سامنے اۓ ابن حجاج نے کہا ان لوگوں کو پانی پلانا ممکن نہیں۔ ہم اسی کے لیے پہرا دے رہے ہیں، نافع کے ساتھ والے جب آگے اۓ تو انہوں نے پیادوں سے کہا اپنی اپنی مشکیں بھر لو۔ پیادے دوڑ پڑے سب نے مشکیں بھر لی ابن حجاج نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ان پر حملہ کیا۔یہ دیکھکر عباس بن علی نافع بن ھلال نے بھی ان پر حملہ کیا۔ سب کا منہ پھیر دیا پھر اپنے خیموں کی طرف واپس جانے لگے پیادوں سے کہا نکل جاؤ اور خود دشمنوں کو روکنے کے لیے ٹھیرے رہے عمرو بن الحجاج اپنے ساتھیوں کے ساتھ پھر ان لوگوں پر پلٹ پڑا اور ہٹا دیا اصحاب ابن حجاج میں سے ایک شخص پر نافع بن ھلال نے نیزہ کا وار کیا جس سے اس کو زخم لگا بعد میں وہ پھٹ گیا اور وہ مر گیا اور انصار امام عالی مقام کی بارگاہ میں پانی سے بھری مشکیں لیکر آئیں اور آپ کی خدمت میں پیش کردی,
اس روایت میں ہر چند کے پانی لے جانے کے لیۓ جنگ ضرور ہوئ لیکن وہ بیس مشکیں پانی امام عالی مقام کی خدمت میں پہنچا اس روایت کی رو سے آپ یہ نہیں کہہ سکتیں کہ پانی موجود نہ تھا مزید ایک روایت اور دیکھیں طبری میں ہے۔
حضرت امام عالی مقام سے حضرت زینب آہ و زاری کرتی ہیں اور کہتی ہیں یہ لوگ آپ کو کیا قتل کریں گے ؟ اور آپ آہ وزاری کر رہی تھیں کہ بے ہوش ہوکر گر جاتی ہیں۔
امام عالی مقام اگے آۓ اور آپ کے چہرہ پر پانی چھڑکا
و خرت مغشیا علیھا فقام الیھا الحسین فصب علی وجھھا الماء۔
(تاریخ طبری ج 5 ص 420)
البتایتہ والنہایتہ میں ہے
فعدل الحسین الی خیمتہ قد نصبت
فاغتسل فیھا وانطلی بالنورتہ وطیب بمسک کثیر۔ و دخل بعدہ بعض الأمراء ففعلوا کما فعل۔
امام عالی مقام نے جب اپنے ساتھیوں کی صف بندی کردی پھر آپ اپنے نصب کیۓ ہوۓ خیمے میں واپس آۓ اور آپ نے غسل کیا چونے کی مالش کی بہت سی کستوری کی خوشبو لگائ پھر آپ کے بعد کچھ امراء آئیں انہوں نے غسل کیا خوشبو لگائ۔
(البدایتہ والنہایتہ جلد 8 ص 179)
یہ عبارت بلکل صاف بتا رہی ہے امام عالی مقام اور آپ کے بعض ساتھیوں نے غسل کیا اب جب آپ نے اور آپ کے ساتھیوں نے غسل کیا تو پانی بلکل موجود ہی نہ تھا اس کی کیا حقیقت رہ گئ آپ بخوبی سمجھ سکتیں ہیں
اسی البدایتہ والنہایتہ میں ہے
حضرت امام عالی مقام سے حضرت زینب اہ وزاری کرتی ہیں اور کہتی ہیں یہ لوگ آپ کو کیا قتل کریں گے ؟ اور آپ اہ وزاری کر رہی تھیں کہ بے ہوش ہوکر گر جاتی ہیں۔ امام عالی مقام اگے اۓ اور آپ کے چہرہ پر پانی چھڑکا۔
و خرت مغشیا علیھا فقام الیھا الحسین فصب علی وجھھا الماء۔
(البدایتہ والنہایتہ جلد 8 صفحہ 177)
یہ روایت ہم طبری کے حوالہ سے بھی نقل کر اۓ ہیں۔ حضرت زینب بے ہوش ہوکر گر جاتی ہیں امام عالی مقام آگے بڑھ کر پانی چھڑکتے ہیں آپ کے چہرہ پر غسل کرنے کے لیے پانی ہے چہرے پر پانی ڈالنے کے لیے بھی پانی ہے تو کیا پانی صرف پینے کے لیے نہیں تھا،؟ یہ سوال آپ پر چھوڑتیں ہیں، اتنا پانی ہونے کے بعد بھی کیا بچوں کے پینے کے لیے پانی نہ تھا ؟ کہ امام عالی مقام کو پانی مانگنے جانا پڑا اور یہ روایت خاص عاشورہ کے دن کی ہیں اور
یہ تمام روایت اس بات پر صاف دلالت کرتی ہیں کے کربلا میں پانی موجود تھا۔
اور یہ روایات کربلا میں پانی موجود ہونے کی شیعوں کی کتب میں بھی مذکور ہے ملا باقر مجلسی نے مجمع البحار میں دسویں محرم کی صبح تک وافر مقدار میں پانی کا ذکر کیا ہے،
ثم قال لاصحابہ قوموا فاشربوا من الماء یکن آخر زادکم و توضؤوا واغتسلوا و اغسلوا ثیابکم لتکون اکفانکم ثم صلی بھم الفجر،،۔
پھر امام نے اپنے اصحاب سے فرمایا اٹھو پانی پیو شاید تمہارے لئے یہ دنیا میں پینے کی آخری چیز ہو اور وضو کرو۔ نہاؤ اور اپنے لباس کو دھولو تاکہ وہ تمہارے کفن بن سکیں، اس کے بعد امام حسین نے اپنے اصحاب کے ہمراہ نماز فجر باجماعت پڑھی،
(بحار الانوار جلد 44 صفحہ 217)
اسی بحار الانوار میں ایک اور مقام پر پانی کی روایت ہے۔،
امام عالی مقام کو جب پیاس لگی تو آپ نے حضرت عباس اور ان کے ساتھ کچھ ساتھیوں کو پانی لانے کے لیے بھیجا ،، وہاں یزیدوں سے لڑائ ہوئ ،لیکن پانی لیکر واپس اگۓ۔
فشرب الحسین و من کان معہ
پھر وہ پانی امام عالی مقام اور اپ کے ساتھیوں نے پیا،۔
(بحار الانوار جلد 44 صفحہ 253)
ملا باقر مجلسی جو کہ شیعہ ہے وہ لکھتا ہے،،
امام عالی مقام کے ساتھیوں کو جب پیاس لگی تو انہوں نے امام عالی مقام سے آکر پیاس کے بارے میں عرض کی، تو امام عالی مقام نے اپنے ہاتھ میں بیلچہ لیا خیمہ سے بہار اۓ اور نو قدم قبلہ کی طرف چلے وہاں ایک بیلچہ زمین پر مارا۔ اور وہاں سے چشمہ شیریں آب پانی ظایر ہوا۔پھر امام عالی مقام اور آپ کے ساتھیوں نے اس چشمہ سے پانی پیا اور مشکیں وغیرہ بھر لی۔،(جلاء العیون مترجم جلد 2 صفحہ 222)
اسی کتاب کے اسی صفحہ پر یہ روایت بھی نقل ہے،،
امام عالی مقام نے حضرت عباس کو تیس سوار اور 32 پیادوں کے ساتھ پانی لینے بھیجا اور وہ لوگ پانی لیکر اۓ۔،
یہ دونوں روایت پانی موجود ہونے پر دلالت کرتی ہیں، پہلی روایت میں امام عالی مقام نے بیلچہ زمین پر مار کر پانی نکالا ،اور دوسری روایات میں، امام عالی مقام کے اصحاب کا پانی لیکر انا اس بات پر دلالت کرتا ہے 3 دن پانی کا ایک قطرہ بھی نہ تھا یہ غیر معتبر بات محض افسانہ ہے۔،
شیعوں کی کتاب ریاض القدس میں ہے ،۔
امام عالی مقام نے کدال زمین پر مارا وہاں پانی کا چشمہ نکل ایا،
(ریاض القدس جلد 1 صفحہ 366)
اسی کتاب کے صفحہ 362 پر حضرت عباس کے پانی لانے والی روایت بھی مذکور ہے۔،
اسی کتاب کے صفحہ 410 پر
بریر ابن خصیر کا نہر فرات سے پانی لیکر انا،،یہ روایت بھی مذکور ہے۔
پانی موجود ہونے کی روایت کے بارے میں مفتی شریف الحق رحمہ اللہ فرماتے ہیں، امام عالی مقام اور آپ کے ساتھیوں نے عاشوراہ کی صبح کو غسل فرمایا یہ روایت بدایہ نہایہ میں ہے
فعدل الحسین الی خیمتہ قد نصبت
فاغتسل فیھا وانطلی بالنورتہ وطیب بمسک کثیر۔ و دخل بعدہ بعض الأمراء ففعلوا کما فعل۔
امام عالی مقام نے جب اپنے ساتھیوں کی صف بندی کردی پھر آپ اپنے نصب کیۓ ہوۓ خیمے میں واپس اۓ اور آپ نے غسل کیا چونے کی مالش کی بہت سی کستوری کی خوشبو لگائ پھر آپ کے بعد کچھ امراء اۓ انہوں نے غسل کیا خوشبو لگائ بلکہ اسی ایک صفحہ پہلے یہ روایت بھی ہے
و خرت مغشیا علیھا فقام الیھا و صب علی وجھھا الماء،
حضرت زینب بیہوش ہوکر گر پڑی امام عالی مقام پاس گۓ اور ان کے چہرے پر پانی چھڑکا،،
طبری میں بھی یہ روایت ہے بلکہ رافضیوں کی کتب میں بھی ہے ہمارے یہاں کے شیعوں نے نقن میاں کو بلایا تھا جو مجہھتہد تھے انہوں نے تقریر میں یہ روایت بیان کی جس پر جاہلوں نے بہت شور کیا ان کو گالیاں دیں ایک جاہل نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر ایسے دو ایک واعظ آگۓ تو ہمارا مذہب۔۔۔۔۔۔۔۔میں مل جاۓ گا جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے اس روایت میں استبعاد نہیں ہے صحیح ہو سکتی ہے یہ صحیح ہے کہ سات محرم کو ابن زیاد کے حکم سے نہر فرات پر پہرہ بیٹھا تھا۔ کہ امام عالی مقام کے لوگ پانی نہ لینے پائیں۔، مگر یہ بھی روایت ہے اس پہرے کے با وجدو حضرت عباس کچھ لوگوں کو لیکر کسی نہ کسی طرح پانی لایا کرتے تھے۔، شہادت کے ذاکرین لیکن آب بندی کی روایت کو جس طرح بیان کرتے ہیں۔،
اگر نہ کریں تو محفل کا رنگ نہیں جمیگا۔، اس روایت میں اور وقت شہادت علی اصغر و حضرت علی اکبر کا پیاس سے جو حال مذکور ہے منافات نہیں۔،
ہو سکتا ہے صبح کو پانی اس قدر ہو کہ سبنے غسل کرلیا پھر پانی ختم ہو گیا،جنگ شروع ہوجانے کی وجہ سے فرات کے پہرے داروں نے زیادا سختی کردی ہو اس کی تائید اس سے بھی ہو رہی ہے کے حضرت عباس فرات سے مشک بھرکر لارہے تھے کہ شہید ہوۓ،، ہمیں اس پر اصرار نہیں کہ یہ روایت صحیح ہے ۔، مگر میں قطعی یہ حکم بھی نہیں دے سکتا کہ یہ روایت غلط ہے، تاریخی واقعات جذبات سے نہیں جانچے جاتے۔،
حقائق اور روایات کی بنیاد پر جانچے جاتے ہیں،
(فتاویٰ شارح بخاری ج 2 ص 68)
والله ورسوله اعلم بالصواب
کیا واقعی امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو پانی سے روکا گیا یعنی ان کے خیمے میں پانے وغیرہ کچھ نہ تھا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسلہ کے بارے میں کہ
واقعی امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو پانی سے روکا گیا یعنی ان کے خیمے میں پانے وغیرہ کچھ نہ تھا حال نہ کہ میں نے ایک روایت میں پڑھا تھا شرح بخاری اس میں لکھا ہوا تھا کہ اسی دن صبح امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے غسل کیا تھا حضور اس کے متعلق فرما دیں کہ ان کے خیمے میں پانی تھا یا نہیں کیا واقعی انہیں پانی روک دیا گیا تھا
سائل:- محمد سلطان امیٹھی انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره و نصلي علي رسوله الأمين الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
عین جنگ کے وقت پانی سے روک دیا گیا ہو یہ الگ بات ہے پر جنگ سے پہلے سب کے پاس پانی تھا مذکورہ واقعہ غلط ہے سہی یہ ہے کہ پانی تھا۔
اس بابت مفتی دانش فرماتے ہیں
طبری میں ہے۔
ولما اشتد علی الحسین و اصحابہ العطش دعا العباس بن علی بن ابی طالب اخاہ ، فبعثہ فی ثلاثین فارسا و عشرین راجلا و بعث معھم بعشرین قربتہ فجاءوا حتی دنوا من الماء لیلا و استقدم امامھم باللواء نافع بن ھلال الجملی ، فقال عمرو بن الحجاج الزبیدی من الرجل، فجیء فقال، ما جاء بک، قال جئنا نشرب من ھذا الماء الذی حلأتمونا عنہ،، ھنسیٔا، قال لا واللہ،، لا اشرب منہ قطرتہ و حسین عطشان و من تری من اصحابہ فطلعوا علیہ۔، فقال لا سبیل الی سقی ھؤلاء انما وضعنا بھذا المکان لنمنعھم الماء ،، فلما دنا منہ اصحابہ قال لرجالہ،۔ املئوا قربکم ،، فشدر الرجالتہ فملوئوا قربھم وثار الیھم عمرو بن الحجاج و اصحابہ فحمل علیھم العباس بن علی و نافع بن ھلال فکفہ وھم، ثم انصرفوا الی رحالھم ، امضوا و وقفو دونھم فعطف علیھم عمرو بن الحجاج و اصحابہ واطردو قلیلا ان رجالا من صداء طعن من اصحاب عمرو بن حجاج طعنہ نافع بن ھلال فظن انھا لیست بشء ، ثم انھا انتقضت بعد ذلک فما منھا وجاء اصحاب حسین بالقرب فادخلوھا علیہ۔
جب آپ پر اور اپ کے انصار پر پیاس کا غلبہ ہوا، تو آپ نے اپنے بھائ عباس بن علی رضی اللہ علہ کو بلایا تیس گھڑ سوار بیس پیادے بیس مشکیں ان کے ساتھ کردیں اور پانی لانے کے لیے روانا کیا یہ لوگ رات کے وقت نہر کے قریب پہنچے نافع بن ھلال جلی علم لیے ہوۓ سب سے آگے بڑھ گۓ، ابن حجاج کہنے لگا کون ہے آو کیوں اۓ ہو ۔ نافع نے کہا ہم تو یہ پانی پینے اۓ ہیں۔
جس پر تم لوگوں نے پہرا دیا ہوا ہے۔ اس نے کہا پانی پی لو کہا امام عالی مقام کو پیاس لگی ہے اور ان کے ساتھیوں کو ان کے بغیر ہم ایک قطرہ بھی نہ پیوں گا۔، اتنے میں اور لوگ بھی اس کے سامنے اۓ ابن حجاج نے کہا ان لوگوں کو پانی پلانا ممکن نہیں۔ ہم اسی کے لیے پہرا دے رہے ہیں، نافع کے ساتھ والے جب آگے اۓ تو انہوں نے پیادوں سے کہا اپنی اپنی مشکیں بھر لو۔ پیادے دوڑ پڑے سب نے مشکیں بھر لی ابن حجاج نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ان پر حملہ کیا۔یہ دیکھکر عباس بن علی نافع بن ھلال نے بھی ان پر حملہ کیا۔ سب کا منہ پھیر دیا پھر اپنے خیموں کی طرف واپس جانے لگے پیادوں سے کہا نکل جاؤ اور خود دشمنوں کو روکنے کے لیے ٹھیرے رہے عمرو بن الحجاج اپنے ساتھیوں کے ساتھ پھر ان لوگوں پر پلٹ پڑا اور ہٹا دیا اصحاب ابن حجاج میں سے ایک شخص پر نافع بن ھلال نے نیزہ کا وار کیا جس سے اس کو زخم لگا بعد میں وہ پھٹ گیا اور وہ مر گیا اور انصار امام عالی مقام کی بارگاہ میں پانی سے بھری مشکیں لیکر آئیں اور آپ کی خدمت میں پیش کردی,
اس روایت میں ہر چند کے پانی لے جانے کے لیۓ جنگ ضرور ہوئ لیکن وہ بیس مشکیں پانی امام عالی مقام کی خدمت میں پہنچا اس روایت کی رو سے آپ یہ نہیں کہہ سکتیں کہ پانی موجود نہ تھا مزید ایک روایت اور دیکھیں طبری میں ہے۔
حضرت امام عالی مقام سے حضرت زینب آہ و زاری کرتی ہیں اور کہتی ہیں یہ لوگ آپ کو کیا قتل کریں گے ؟ اور آپ آہ وزاری کر رہی تھیں کہ بے ہوش ہوکر گر جاتی ہیں۔
امام عالی مقام اگے آۓ اور آپ کے چہرہ پر پانی چھڑکا
و خرت مغشیا علیھا فقام الیھا الحسین فصب علی وجھھا الماء۔
(تاریخ طبری ج 5 ص 420)
البتایتہ والنہایتہ میں ہے
فعدل الحسین الی خیمتہ قد نصبت
فاغتسل فیھا وانطلی بالنورتہ وطیب بمسک کثیر۔ و دخل بعدہ بعض الأمراء ففعلوا کما فعل۔
امام عالی مقام نے جب اپنے ساتھیوں کی صف بندی کردی پھر آپ اپنے نصب کیۓ ہوۓ خیمے میں واپس آۓ اور آپ نے غسل کیا چونے کی مالش کی بہت سی کستوری کی خوشبو لگائ پھر آپ کے بعد کچھ امراء آئیں انہوں نے غسل کیا خوشبو لگائ۔
(البدایتہ والنہایتہ جلد 8 ص 179)
یہ عبارت بلکل صاف بتا رہی ہے امام عالی مقام اور آپ کے بعض ساتھیوں نے غسل کیا اب جب آپ نے اور آپ کے ساتھیوں نے غسل کیا تو پانی بلکل موجود ہی نہ تھا اس کی کیا حقیقت رہ گئ آپ بخوبی سمجھ سکتیں ہیں
اسی البدایتہ والنہایتہ میں ہے
حضرت امام عالی مقام سے حضرت زینب اہ وزاری کرتی ہیں اور کہتی ہیں یہ لوگ آپ کو کیا قتل کریں گے ؟ اور آپ اہ وزاری کر رہی تھیں کہ بے ہوش ہوکر گر جاتی ہیں۔ امام عالی مقام اگے اۓ اور آپ کے چہرہ پر پانی چھڑکا۔
و خرت مغشیا علیھا فقام الیھا الحسین فصب علی وجھھا الماء۔
(البدایتہ والنہایتہ جلد 8 صفحہ 177)
یہ روایت ہم طبری کے حوالہ سے بھی نقل کر اۓ ہیں۔ حضرت زینب بے ہوش ہوکر گر جاتی ہیں امام عالی مقام آگے بڑھ کر پانی چھڑکتے ہیں آپ کے چہرہ پر غسل کرنے کے لیے پانی ہے چہرے پر پانی ڈالنے کے لیے بھی پانی ہے تو کیا پانی صرف پینے کے لیے نہیں تھا،؟ یہ سوال آپ پر چھوڑتیں ہیں، اتنا پانی ہونے کے بعد بھی کیا بچوں کے پینے کے لیے پانی نہ تھا ؟ کہ امام عالی مقام کو پانی مانگنے جانا پڑا اور یہ روایت خاص عاشورہ کے دن کی ہیں اور
یہ تمام روایت اس بات پر صاف دلالت کرتی ہیں کے کربلا میں پانی موجود تھا۔
اور یہ روایات کربلا میں پانی موجود ہونے کی شیعوں کی کتب میں بھی مذکور ہے ملا باقر مجلسی نے مجمع البحار میں دسویں محرم کی صبح تک وافر مقدار میں پانی کا ذکر کیا ہے،
ثم قال لاصحابہ قوموا فاشربوا من الماء یکن آخر زادکم و توضؤوا واغتسلوا و اغسلوا ثیابکم لتکون اکفانکم ثم صلی بھم الفجر،،۔
پھر امام نے اپنے اصحاب سے فرمایا اٹھو پانی پیو شاید تمہارے لئے یہ دنیا میں پینے کی آخری چیز ہو اور وضو کرو۔ نہاؤ اور اپنے لباس کو دھولو تاکہ وہ تمہارے کفن بن سکیں، اس کے بعد امام حسین نے اپنے اصحاب کے ہمراہ نماز فجر باجماعت پڑھی،
(بحار الانوار جلد 44 صفحہ 217)
اسی بحار الانوار میں ایک اور مقام پر پانی کی روایت ہے۔،
امام عالی مقام کو جب پیاس لگی تو آپ نے حضرت عباس اور ان کے ساتھ کچھ ساتھیوں کو پانی لانے کے لیے بھیجا ،، وہاں یزیدوں سے لڑائ ہوئ ،لیکن پانی لیکر واپس اگۓ۔
فشرب الحسین و من کان معہ
پھر وہ پانی امام عالی مقام اور اپ کے ساتھیوں نے پیا،۔
(بحار الانوار جلد 44 صفحہ 253)
ملا باقر مجلسی جو کہ شیعہ ہے وہ لکھتا ہے،،
امام عالی مقام کے ساتھیوں کو جب پیاس لگی تو انہوں نے امام عالی مقام سے آکر پیاس کے بارے میں عرض کی، تو امام عالی مقام نے اپنے ہاتھ میں بیلچہ لیا خیمہ سے بہار اۓ اور نو قدم قبلہ کی طرف چلے وہاں ایک بیلچہ زمین پر مارا۔ اور وہاں سے چشمہ شیریں آب پانی ظایر ہوا۔پھر امام عالی مقام اور آپ کے ساتھیوں نے اس چشمہ سے پانی پیا اور مشکیں وغیرہ بھر لی۔،(جلاء العیون مترجم جلد 2 صفحہ 222)
اسی کتاب کے اسی صفحہ پر یہ روایت بھی نقل ہے،،
امام عالی مقام نے حضرت عباس کو تیس سوار اور 32 پیادوں کے ساتھ پانی لینے بھیجا اور وہ لوگ پانی لیکر اۓ۔،
یہ دونوں روایت پانی موجود ہونے پر دلالت کرتی ہیں، پہلی روایت میں امام عالی مقام نے بیلچہ زمین پر مار کر پانی نکالا ،اور دوسری روایات میں، امام عالی مقام کے اصحاب کا پانی لیکر انا اس بات پر دلالت کرتا ہے 3 دن پانی کا ایک قطرہ بھی نہ تھا یہ غیر معتبر بات محض افسانہ ہے۔،
شیعوں کی کتاب ریاض القدس میں ہے ،۔
امام عالی مقام نے کدال زمین پر مارا وہاں پانی کا چشمہ نکل ایا،
(ریاض القدس جلد 1 صفحہ 366)
اسی کتاب کے صفحہ 362 پر حضرت عباس کے پانی لانے والی روایت بھی مذکور ہے۔،
اسی کتاب کے صفحہ 410 پر
بریر ابن خصیر کا نہر فرات سے پانی لیکر انا،،یہ روایت بھی مذکور ہے۔
پانی موجود ہونے کی روایت کے بارے میں مفتی شریف الحق رحمہ اللہ فرماتے ہیں، امام عالی مقام اور آپ کے ساتھیوں نے عاشوراہ کی صبح کو غسل فرمایا یہ روایت بدایہ نہایہ میں ہے
فعدل الحسین الی خیمتہ قد نصبت
فاغتسل فیھا وانطلی بالنورتہ وطیب بمسک کثیر۔ و دخل بعدہ بعض الأمراء ففعلوا کما فعل۔
امام عالی مقام نے جب اپنے ساتھیوں کی صف بندی کردی پھر آپ اپنے نصب کیۓ ہوۓ خیمے میں واپس اۓ اور آپ نے غسل کیا چونے کی مالش کی بہت سی کستوری کی خوشبو لگائ پھر آپ کے بعد کچھ امراء اۓ انہوں نے غسل کیا خوشبو لگائ بلکہ اسی ایک صفحہ پہلے یہ روایت بھی ہے
و خرت مغشیا علیھا فقام الیھا و صب علی وجھھا الماء،
حضرت زینب بیہوش ہوکر گر پڑی امام عالی مقام پاس گۓ اور ان کے چہرے پر پانی چھڑکا،،
طبری میں بھی یہ روایت ہے بلکہ رافضیوں کی کتب میں بھی ہے ہمارے یہاں کے شیعوں نے نقن میاں کو بلایا تھا جو مجہھتہد تھے انہوں نے تقریر میں یہ روایت بیان کی جس پر جاہلوں نے بہت شور کیا ان کو گالیاں دیں ایک جاہل نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر ایسے دو ایک واعظ آگۓ تو ہمارا مذہب۔۔۔۔۔۔۔۔میں مل جاۓ گا جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے اس روایت میں استبعاد نہیں ہے صحیح ہو سکتی ہے یہ صحیح ہے کہ سات محرم کو ابن زیاد کے حکم سے نہر فرات پر پہرہ بیٹھا تھا۔ کہ امام عالی مقام کے لوگ پانی نہ لینے پائیں۔، مگر یہ بھی روایت ہے اس پہرے کے با وجدو حضرت عباس کچھ لوگوں کو لیکر کسی نہ کسی طرح پانی لایا کرتے تھے۔، شہادت کے ذاکرین لیکن آب بندی کی روایت کو جس طرح بیان کرتے ہیں۔،
اگر نہ کریں تو محفل کا رنگ نہیں جمیگا۔، اس روایت میں اور وقت شہادت علی اصغر و حضرت علی اکبر کا پیاس سے جو حال مذکور ہے منافات نہیں۔،
ہو سکتا ہے صبح کو پانی اس قدر ہو کہ سبنے غسل کرلیا پھر پانی ختم ہو گیا،جنگ شروع ہوجانے کی وجہ سے فرات کے پہرے داروں نے زیادا سختی کردی ہو اس کی تائید اس سے بھی ہو رہی ہے کے حضرت عباس فرات سے مشک بھرکر لارہے تھے کہ شہید ہوۓ،، ہمیں اس پر اصرار نہیں کہ یہ روایت صحیح ہے ۔، مگر میں قطعی یہ حکم بھی نہیں دے سکتا کہ یہ روایت غلط ہے، تاریخی واقعات جذبات سے نہیں جانچے جاتے۔،
حقائق اور روایات کی بنیاد پر جانچے جاتے ہیں،
(فتاویٰ شارح بخاری ج 2 ص 68)
والله ورسوله اعلم بالصواب
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
کتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی
محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن
شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
30/07/2023
30/07/2023