(سوال نمبر 5073)
کیا فتاویٰ رضویہ میں تعزیہ بنانا حرام لکھا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مفتیان عظام اس مسئلے کے بارے میں
کہ تعزیہ بنانا جائز ہے یا حرام اس مسئلے کے بارے میں قران حدیث کی روشنی میں عنایت فرمائیں دلیل کے ساتھ کچھ لوگ بولتے ہیں فتوی رضویہ میں کہ تعزیہ بنانا حرام ہے یہ بات صحیح ہے یا غلط اس مسئلے کے بارے میں عنایت فرمائیں
سائل:-سمیر رضا قادری ضلع بدایوں شریف سے یو پی انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عزوجل
ہاں فتاویٰ رضویہ میں مروجہ تعزیہ بنانا حرام لکھا ہوا ہے اور یہ حقیقت ہے یہ بدعت سیئہ ہے اسلام میں اس کی کوئئ گنجائش نہیں اس مروجہ تعزیہ کے ذریعے کئی غیر شرعی امور سرزد ہوتے ہیں ۔اس لئے تعزیہ داری ناجائز وحرام ہے کہ اس میں بہت باتیں ایسی ہیں جن کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں مثلاً تعزیہ کا جلوس آگے پیچھے ڈھول تاشے باجے فلمی گیت عورتوں کا ہجوم اور اسی طرح کے اور خرافات جو آجکل کے تعزیہ داری میں کئے جاتے ہیں یہ ناجائز وحرام ہے لوگ ان بیہودہ باتوں کا اہتمام کرتے ہیں اور جو لوگ اسکی تائید کرتے ہیں سب گنہگار ہیں
فتاوی رضویہ میں ہے تعزیہ کی اصل اس قدر
تھی کہ روضہ امام حسین کی صحیح نقل بناکر بنیت تبرک مکان میں رکھنا اس میں کوئی خرابی نہ تھی جہاں بے خرد نے اس اصل جائز کو نیست ونابود کرکے صدہا خرافات تراشیں کے شریعت مطہرہ سے الامان الامان کی صدائیں آنے لگی
اول تو نفس تعزیہ میں روضہ مبارک کی نقل ملحوظ نہ رہی ہر جگہ نئی تراش کہیں علاقانہ نسبت وغیرہ پھر کوچہ بکوچہ گلی گلی اشاعت غم کے لئے پھرانا ان کے گرد ماتم زنی کرنا اس سے منتیں مانگنا اس کوئی چیز چڑھانا اور راتوں میں ڈھول باجے کے ساتھ طرح طرح کے کھیل کرنا وغیرہ وغیرہ
اب جبکہ تعزیہ داری اس طریقہ نامرضیہ کا نام ہے جو قطعاً بدعت ناجائز وحرام ہے
(فتاویٰ فیض الرسول ج دوم ص ۵۱۳)
فتاوی رضویہ میں ہے
اس بارے میں کے تعزیہ داری اس طریقہ نامرضیہ کا نام ہے جو قطعاً بدعت وناجائز و حرام ہے(فتاویٰ رضویہ ج ۲۴ ص ۵۱۳مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
والله ورسوله اعلم بالصواب
کتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان 18خادم دار الافتاء البرکاتی علماء فاونڈیشن ضلع سرہا نیپال۔26/07/2023
کیا فتاویٰ رضویہ میں تعزیہ بنانا حرام لکھا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مفتیان عظام اس مسئلے کے بارے میں
کہ تعزیہ بنانا جائز ہے یا حرام اس مسئلے کے بارے میں قران حدیث کی روشنی میں عنایت فرمائیں دلیل کے ساتھ کچھ لوگ بولتے ہیں فتوی رضویہ میں کہ تعزیہ بنانا حرام ہے یہ بات صحیح ہے یا غلط اس مسئلے کے بارے میں عنایت فرمائیں
سائل:-سمیر رضا قادری ضلع بدایوں شریف سے یو پی انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عزوجل
ہاں فتاویٰ رضویہ میں مروجہ تعزیہ بنانا حرام لکھا ہوا ہے اور یہ حقیقت ہے یہ بدعت سیئہ ہے اسلام میں اس کی کوئئ گنجائش نہیں اس مروجہ تعزیہ کے ذریعے کئی غیر شرعی امور سرزد ہوتے ہیں ۔اس لئے تعزیہ داری ناجائز وحرام ہے کہ اس میں بہت باتیں ایسی ہیں جن کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں مثلاً تعزیہ کا جلوس آگے پیچھے ڈھول تاشے باجے فلمی گیت عورتوں کا ہجوم اور اسی طرح کے اور خرافات جو آجکل کے تعزیہ داری میں کئے جاتے ہیں یہ ناجائز وحرام ہے لوگ ان بیہودہ باتوں کا اہتمام کرتے ہیں اور جو لوگ اسکی تائید کرتے ہیں سب گنہگار ہیں
فتاوی رضویہ میں ہے تعزیہ کی اصل اس قدر
تھی کہ روضہ امام حسین کی صحیح نقل بناکر بنیت تبرک مکان میں رکھنا اس میں کوئی خرابی نہ تھی جہاں بے خرد نے اس اصل جائز کو نیست ونابود کرکے صدہا خرافات تراشیں کے شریعت مطہرہ سے الامان الامان کی صدائیں آنے لگی
اول تو نفس تعزیہ میں روضہ مبارک کی نقل ملحوظ نہ رہی ہر جگہ نئی تراش کہیں علاقانہ نسبت وغیرہ پھر کوچہ بکوچہ گلی گلی اشاعت غم کے لئے پھرانا ان کے گرد ماتم زنی کرنا اس سے منتیں مانگنا اس کوئی چیز چڑھانا اور راتوں میں ڈھول باجے کے ساتھ طرح طرح کے کھیل کرنا وغیرہ وغیرہ
اب جبکہ تعزیہ داری اس طریقہ نامرضیہ کا نام ہے جو قطعاً بدعت ناجائز وحرام ہے
(فتاویٰ فیض الرسول ج دوم ص ۵۱۳)
فتاوی رضویہ میں ہے
اس بارے میں کے تعزیہ داری اس طریقہ نامرضیہ کا نام ہے جو قطعاً بدعت وناجائز و حرام ہے(فتاویٰ رضویہ ج ۲۴ ص ۵۱۳مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
والله ورسوله اعلم بالصواب
کتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان 18خادم دار الافتاء البرکاتی علماء فاونڈیشن ضلع سرہا نیپال۔26/07/2023