(سوال نمبر 5043)
کیا مذاق میں ایجاب و قبول سے نکاح ہوجاتا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ
مفتی صاحب، اس مسئلہ میں رہنمائی فرما دیں کہ چند سال پہلے دورانِ تعلیم یونیورسٹی میں ایک دن ہم سات سٹوڈنٹس کا گروپ (جس میں چار لڑکے اور تین لڑکیاں تھیں) کینٹین پر بیٹھے ہوئے تھے کہ گپ شپ کے دوران ایک لڑکی نے مذاقاَ کاغذ پر ایک لڑکا اور لڑکی جو ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے، کے بارے میں نکاح کے انداز میں یہ عبارت لکھی:A Weds B اور پھر اس کاغذ پر اس لڑکا لڑکی سے دستخط کروائے اور پھر نیچے گواہوں کے طور پر دوسرے سٹوڈنٹس نے بھی دستخط کر دیے ۔ یہ سب مذاق میں کر کے ختم ہو گیا اور پھر یونیورسٹی کے بعد اب اس لڑکی کی کہیں اور شادی ہو گئی اور لڑکا اپنی زندگی میں مصروف ہو گیا۔
اب یہ وضاحت فرما دیں کہ کیا اس تمام عمل سے نکاح ہو گیا تھا یا نہیں؟
اور اگر نکاح ہو گیا تھا تو لڑکی کے اس دوسرے نکاح کا کیا حکم ہوگا؟
سائل:-محمد عمر بہاول پور پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونہ تعالیٰ عزوجل
شادی کوئی ایسی چیز نہیں کہ راہ چلتے کر لی جائے اس کے کئی شرائط ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ شرعی گواہ کو یہ معلوم ہو کہ فلاں کا نکاح راضی برضا فلاں سے ہو رہا ہے مذکورہ صورت میں جب سب کو معلوم ہے کہ یہ محض مذاق ہے اور قرینہ بھی دال ہے کہ مذاق کے سوا کچھ نہیں اس لئے مذکورہ صورت میں نکاح منعقد نہیں ہوا
بہار شریعت میں ہے
ہزل کا مطلب یہ ہے کہ مذاق میں ایسے الفاظ استعمال کرنا جن کے حقیقی یا مجازی معنی مقصود نہ ہوں بلکہ محض لہوو لعب اور تفریح میں استعمال کئے جائیں ہازل یعنی مذاق میں بات کہنے والا الفاظ تو اپنے اختیار سے اپنی مرضی سے استعمال کرتا ہے لیکن ان کے اصل مفہوم اور ان کے حکم شرعی سے راضی نہیں ہوتا۔امور غیر مالیہ جیسے طلاق و عتاق، یمین کفراور ارتداد میں ہزل کے الفاظ نافذ ہوں گے اور بیع، اجارہ اور اقرار میں بعض صورتوں میں نافذ ہوں گے اور بعض میں نہیں (بہار شریعت ح ١٩ ص ١٠٨٣ مكتبة المدينة)
واللہ و رسولہ اعلم بالصوب
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان 18خادم دار الافتاء البرکاتی علماء فاونڈیشن ضلع سرہا نیپال۔24/07/2023
کیا مذاق میں ایجاب و قبول سے نکاح ہوجاتا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ
مفتی صاحب، اس مسئلہ میں رہنمائی فرما دیں کہ چند سال پہلے دورانِ تعلیم یونیورسٹی میں ایک دن ہم سات سٹوڈنٹس کا گروپ (جس میں چار لڑکے اور تین لڑکیاں تھیں) کینٹین پر بیٹھے ہوئے تھے کہ گپ شپ کے دوران ایک لڑکی نے مذاقاَ کاغذ پر ایک لڑکا اور لڑکی جو ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے، کے بارے میں نکاح کے انداز میں یہ عبارت لکھی:A Weds B اور پھر اس کاغذ پر اس لڑکا لڑکی سے دستخط کروائے اور پھر نیچے گواہوں کے طور پر دوسرے سٹوڈنٹس نے بھی دستخط کر دیے ۔ یہ سب مذاق میں کر کے ختم ہو گیا اور پھر یونیورسٹی کے بعد اب اس لڑکی کی کہیں اور شادی ہو گئی اور لڑکا اپنی زندگی میں مصروف ہو گیا۔
اب یہ وضاحت فرما دیں کہ کیا اس تمام عمل سے نکاح ہو گیا تھا یا نہیں؟
اور اگر نکاح ہو گیا تھا تو لڑکی کے اس دوسرے نکاح کا کیا حکم ہوگا؟
سائل:-محمد عمر بہاول پور پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونہ تعالیٰ عزوجل
شادی کوئی ایسی چیز نہیں کہ راہ چلتے کر لی جائے اس کے کئی شرائط ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ شرعی گواہ کو یہ معلوم ہو کہ فلاں کا نکاح راضی برضا فلاں سے ہو رہا ہے مذکورہ صورت میں جب سب کو معلوم ہے کہ یہ محض مذاق ہے اور قرینہ بھی دال ہے کہ مذاق کے سوا کچھ نہیں اس لئے مذکورہ صورت میں نکاح منعقد نہیں ہوا
بہار شریعت میں ہے
ہزل کا مطلب یہ ہے کہ مذاق میں ایسے الفاظ استعمال کرنا جن کے حقیقی یا مجازی معنی مقصود نہ ہوں بلکہ محض لہوو لعب اور تفریح میں استعمال کئے جائیں ہازل یعنی مذاق میں بات کہنے والا الفاظ تو اپنے اختیار سے اپنی مرضی سے استعمال کرتا ہے لیکن ان کے اصل مفہوم اور ان کے حکم شرعی سے راضی نہیں ہوتا۔امور غیر مالیہ جیسے طلاق و عتاق، یمین کفراور ارتداد میں ہزل کے الفاظ نافذ ہوں گے اور بیع، اجارہ اور اقرار میں بعض صورتوں میں نافذ ہوں گے اور بعض میں نہیں (بہار شریعت ح ١٩ ص ١٠٨٣ مكتبة المدينة)
واللہ و رسولہ اعلم بالصوب
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان 18خادم دار الافتاء البرکاتی علماء فاونڈیشن ضلع سرہا نیپال۔24/07/2023