(سوال نمبر 218)
کیا حمل ٹھہر نے کے بعد ساقط کرنا جائز ہے؟
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا حمل ٹھہر نے کے بعد ساقط کرنا جائز ہے؟
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء دین درج ذیل مسئلہ میں ایک عورت کے پاس ۸/۹ ماہ کا بچہ ہے اور اس کو حمل ٹھہر گیا ہے اب یہ عورت اپنے شوہر کے رضا مندی پر دوا کے ذریعہ اس حمل کو ساقط کرنا چاہتی ہے تاکہ میرے بیٹے کے صحت پر کوئی اثر نہ پڑے
المستفتی:-مجتبی رضا غزالی بستپور ہریپوروا نگر پالیکا سرلاہی نیپال
""""""""""""""""""""""""""""""""""""
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل
مسلئہ مسئولہ میں اگر بچہ یا اسی کی ماں پر منفی اثر پڑ رہی ہو کہ اس حمل سے بچے کی صحت دودھ کی وجہ سے یا ماں کی صحت اس حمل کی وجہ سے منفی اثرات ڈالے تو اس صورت میں عورت کے لئے ظبط تولید کے مفید اصولوں پر عمل کرنا جائز ہے، بلکہ بہتر ہے کیونکہ پچے کی پیدائش پر ماں جن دشواری و کمزوری اور تکالیف سے دوچار ہوتی ہے اس کا اندازہ فقط ماں ہی کر سکتی ہے، گویا کہ مر کر دوبارہ زندہ ہوتی ہے اور دوسری وجہ دو سال تک بجے کو دودھ پلانا ماں کی ذمہ داری ہے اور بچے کا حق بھی ۔
پس ان وجوہات کی بنا پر اسقاط حمل جائز ہے ۔
اسقاطِ حمل کی مدت ایک سو بیس (120) دن ہے۔ حدیث پاک میں عملِ تخلیق کو بیان کرتے ہوئے رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
ان احدکم يجمع فی بطن امه اربعين يوما ثم علقة مثل ذلک ثم يکون مضغة مثل ذلک ثم يبعث الله ملکا فيومر باربع برزقه واجله وشقی او سعيد‘‘
’’ تم میں سے ہر ایک اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس دن گزارتا ہے (نطفہ) پھر اسی قدر علقہ۔ پھر اسی قدر مضغہ پھر اللہ فرشتہ بھیجتا ہے اور چار چیزوں کا حکم ہوتا ہے۔ رزق، عمر، نیک بخت یا بدبخت‘‘(بخاری، الصحيح، 2 : 976)
فقہائے کرام فرماتے ہیں اگر حاملہ عورت چاہے تو ایک سو بیس (120) دن سے پہلے اسقاط حمل کر سکتی ہے۔
هل يباح الااسقاط بعد الحبل؟ يباح ما لم يتخلق شئی منه، ثم فی غير موضع ولا يکون ذلک الا بعد مائه وعشرين يوما انهم ارادوا بالتخليق نفخ الروح
( الدر المختار مع الرد المختار، 3: 176، طبع کراچی،، فتح القدير، 3: 274)
کیا حمل ٹھہرنے کے بعد ساقط کرنا جائز ہے؟ (ہاں) جب تک اس کی تخلیق نہ ہو جائے جائز ہے۔ پھر متعدد مقامات پر تصریح ہے کہ تخلیق کا عمل 120 دن یعنی چار ماہ کے بعد ہوتا ہے۔ تخلیق سے مراد روح پھونکنا ہے۔
رحم مادر میں استقرار حمل جب تک 120 دن یعنی چار ماہ کا نہ ہو جائے، حمل ضائع کرنا جائز ہے۔ جب بچہ بطن مادر میں چار ماہ کا ہو جائے تو، اب اسے ضائع کرناجائز نہیں بلکہ حرام ہے۔
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب
المستفتی:-مجتبی رضا غزالی بستپور ہریپوروا نگر پالیکا سرلاہی نیپال
""""""""""""""""""""""""""""""""""""
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل
مسلئہ مسئولہ میں اگر بچہ یا اسی کی ماں پر منفی اثر پڑ رہی ہو کہ اس حمل سے بچے کی صحت دودھ کی وجہ سے یا ماں کی صحت اس حمل کی وجہ سے منفی اثرات ڈالے تو اس صورت میں عورت کے لئے ظبط تولید کے مفید اصولوں پر عمل کرنا جائز ہے، بلکہ بہتر ہے کیونکہ پچے کی پیدائش پر ماں جن دشواری و کمزوری اور تکالیف سے دوچار ہوتی ہے اس کا اندازہ فقط ماں ہی کر سکتی ہے، گویا کہ مر کر دوبارہ زندہ ہوتی ہے اور دوسری وجہ دو سال تک بجے کو دودھ پلانا ماں کی ذمہ داری ہے اور بچے کا حق بھی ۔
پس ان وجوہات کی بنا پر اسقاط حمل جائز ہے ۔
اسقاطِ حمل کی مدت ایک سو بیس (120) دن ہے۔ حدیث پاک میں عملِ تخلیق کو بیان کرتے ہوئے رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
ان احدکم يجمع فی بطن امه اربعين يوما ثم علقة مثل ذلک ثم يکون مضغة مثل ذلک ثم يبعث الله ملکا فيومر باربع برزقه واجله وشقی او سعيد‘‘
’’ تم میں سے ہر ایک اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس دن گزارتا ہے (نطفہ) پھر اسی قدر علقہ۔ پھر اسی قدر مضغہ پھر اللہ فرشتہ بھیجتا ہے اور چار چیزوں کا حکم ہوتا ہے۔ رزق، عمر، نیک بخت یا بدبخت‘‘(بخاری، الصحيح، 2 : 976)
فقہائے کرام فرماتے ہیں اگر حاملہ عورت چاہے تو ایک سو بیس (120) دن سے پہلے اسقاط حمل کر سکتی ہے۔
هل يباح الااسقاط بعد الحبل؟ يباح ما لم يتخلق شئی منه، ثم فی غير موضع ولا يکون ذلک الا بعد مائه وعشرين يوما انهم ارادوا بالتخليق نفخ الروح
( الدر المختار مع الرد المختار، 3: 176، طبع کراچی،، فتح القدير، 3: 274)
کیا حمل ٹھہرنے کے بعد ساقط کرنا جائز ہے؟ (ہاں) جب تک اس کی تخلیق نہ ہو جائے جائز ہے۔ پھر متعدد مقامات پر تصریح ہے کہ تخلیق کا عمل 120 دن یعنی چار ماہ کے بعد ہوتا ہے۔ تخلیق سے مراد روح پھونکنا ہے۔
رحم مادر میں استقرار حمل جب تک 120 دن یعنی چار ماہ کا نہ ہو جائے، حمل ضائع کرنا جائز ہے۔ جب بچہ بطن مادر میں چار ماہ کا ہو جائے تو، اب اسے ضائع کرناجائز نہیں بلکہ حرام ہے۔
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی
محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
لہان ١٨سرها نیپال ۔29 /11/ 2020